امریکا دنیا کی سب سے خوشحال اور طاقتور قوم ہے‘ وہاں کے لوگ اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی ہیں لیکن وہ صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے آدمی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم اس میں عام امریکی ووٹر کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ انہوں نے 2016ء میں ٹرمپ کی حریف ہلیری کلنٹن کو 30 لاکھ زیادہ ووٹ دیے تھے لیکن امریکی صدر براہِ راست ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ووٹرز اپنے علاقے کا نمائندہ منتخب کرتے ہیں اور پھر وہ مل کر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ نمائندہ کوجتنے ووٹ ملتے ہیں‘ صدر کے امیدوار کو اتنے ووٹ تو مل ہی جاتے ہیں۔ اس خطے کے وہ ووٹ بھی نمائندے کو ملے ہوئے مان لیے جاتے ہیں جو اس کے خلاف پڑتے ہیں۔اس انوکھے عمل کے نتیجے میں ٹرمپ صدر بن گئے۔ ابھی انتخابی کالج میں 538 نمائندے ہیں۔ ان میں سے‘ جس نے 270 کی سپورٹ حاصل کی‘ وہ جیت گیا۔ آخری بار ٹرمپ کو جتانے میں سب سے بڑا کردار اُن سفید فام ووٹرز کا تھا جو کم تعلیم یافتہ اور نچلے طبقے کے امریکی لوگ ہیں۔ ٹرمپ ان کے حقیقی نمائندے ہیں۔ ان کی تقریر میں بھی ان کا عکس نظر آتا ہے۔اس بار جو بائیڈن ٹرمپ کے خلاف صدارتی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ نائب صدر کے عہدے کیلئے ہندوستانی نژاد کملا ہیرس ہیں۔ دونوں کے جیتنے کے امکانات قوی معلوم ہوتے ہیں۔ انتخابات سے قبل سروے بتاتے ہیں کہ بائیڈن کو 72 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جبکہ ٹرمپ کے پاس صرف 22 فیصد ووٹروں کی حمایت ہے۔ یہاں ٹرمپ کے ہندوستانی ووٹر بھی متحرک ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ امریکا میں ٹرمپ کے پاس ہندوستانی نژاد 1.9 ملین ووٹ ہیں‘ لیکن ڈیموکریٹک پارٹی نے کملا ہیرس کو اپنا نائب صدارتی امیدوار بنا کر ٹرمپ کارڈ چل دیا ہے۔انتخابات سے ایک ہفتہ قبل‘ ٹرمپ نے اپنے رائے دہندگاں کو لبھانے کیلئے اپنے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو ہندوستان بھیجا لیکن ان کی بے لگام زبان سے جس طرح ہندوستان کی بے عزتی کی گئی ہے‘ اس سے ہندوستان حیران ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی میٹنگ میں آلودگی سے متعلق امریکا کی تعریف کرتے ہوئے بھارت کے بارے میں بات کی اور کہا ''دیکھو‘ ہندوستان کو دیکھو‘ وہ بہت گندا ہے۔ اس کی ہوا کتنی گندی ہے‘‘۔ ان کے الفاظ امریکا میں ہندوستانی رائے دہندگان کے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بیشتر ممالک کے رہنمائوں کی دانشورانہ سطح ایک جیسی ہے لیکن ٹرمپ کو اپنے دوست نریندر مودی سے سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ تقریر کیسے کریں اور کس طرح خاموش رہیں۔ ویسے اب جنوری 2021ء کے بعد‘ انہیں کسی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ممکن ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کا بوجھ ان کے کندھوں سے اٹھا لیا جائے۔
ہندوستان کوکسی کا مہرہ نہیں بننا چاہئے
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر نے دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے 'بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ‘ کے نام سے ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد ہند بحر الکاہل کے خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے۔ یہ اسی طرح کا سٹریٹیجک معاہدہ ہے جیسا دونوں ممالک کے درمیان 2016ء اور 2018ء میں ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو تکنیکی مدد فراہم کرے گا‘ جس سے وہ اپنے میزائلوں اور ڈرونوں کو بہتر بنا سکے گا۔ یہ معاہدہ ابھی کیوں کیا جا رہا ہے؟ امریکی انتخاب سے بمشکل ایک ہفتہ قبل ہونے والا یہ سمجھوتہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیت جائیں گے یا جوبائیڈن‘ معلوم نہیں ہے۔ جب حکومت الٹ جاتی ہے تو اس طرح کے معاہدے بھی کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں‘ جیسا کہ امریکی صدر کے 2016ء کے انتخاب کے وقت نریندر مودی نے پیرس موسمیاتی معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت امریکا میں اوباما کی حکومت تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی پیرس معاہدے سے امریکا کو باہرکر لیا تھا۔ٹرمپ انتہائی قوم پرست اور خودپسند شخص ہیں۔ انہوں نے صرف ان معاملات میں ہندوستان کے ساتھ تعاون کیا ہے جس سے ان کے ملک کو فائدہ ہوتا ہے۔ ابھی ہند امریکا تجارت کے مسائل باقی ہیں‘ ہندوستانیوں کو ورک ویزوں سے پریشانی کا سامنا ہے‘ روسی میزائل کی خریداری پر پابندیوں کا تعطل ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ بھارت چین کا مقابلہ کرے۔ ٹوکیو میں ہوئی چار ممالک (امریکا‘ جاپان‘ آسٹریلیا‘ بھارت) کی منعقدہ اس میٹنگ میں ہندوستان نے اپنے قدم بہت پھونک پھونک کر رکھے ہیں۔ اب بھی بھارت کو چین سے نمٹنے کیلئے امریکی پیادہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔اگر ٹرمپ دوبارہ صدر بن جاتے ہیں تو یقین نہیں ہے کہ وہ کیا کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دوبارہ چین سے گلے مل لیں۔ حکومت کو ان طریقوں کو ضرور اختیارکرنا چاہئے جن سے ہندوستان کی سٹریٹیجک طاقت مضبوط ہو سکے‘ لیکن اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کا کردار ایسا ہے کہ وہ کبھی بھی نیٹو‘ سیٹو ‘ سینٹو یا وارسا پیکٹ جیسے فوجی دھڑے کا ممبر نہیں بن سکتا۔
بھائی چارہ ہی نظریہ ہے: بھاگوت
دسہرے کے د ن راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ ناگپور میں ایک خصوصی لیکچر دیتے ہیں کیونکہ سنگھ کی سالگرہ اس دن منائی جاتی ہے۔ اس بار میں نے ٹی وی چینلز پر سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کی تقریر دیکھی اور سنی۔ پہلے تو میں متاثر ہوا کہ ان کی زبان اتنی خالص ہندی میں اور اس قدر واضح تھی کہ ایسی دلکش ہندی دہلی میں بھی نہیں سنائی دیتی‘ اور وہ بھی جب موہن جی خود ہندی بولنے والے نہیں ہیں۔ وہ مراٹھی بولنے والے ہیں۔ ہماری ساری پارٹیوں خصوصاً بی جے پی‘ جے ڈی یو‘ این ڈی اے‘ ایس پی‘ بی ایس پی کے رہنما ویسی ہندی یا اس سے بھی آسان ہندی کیوں نہیں بول سکتے ہیں؟اس تقریر میں اٹھائے گئے سیاسی اور نظریاتی امور کے علاوہ ہندوستان کے شہری اپنی روزمرہ کی زندگی میں کیا کریں‘ ہمارے قائدین بھی اس طرح کے سبق کیوں نہیں دیتے ہیں؟ کچھ رہنما ٹی وی چینلز پر قوم سے خطاب کرتے ہیں یا کچھ دنوں پر افسران کی لکھی ہوئی تقریریں پڑھتے ہیں۔ ان رہنمائوں کو آج پتا چل گیا ہوگا کہ ہندوستان کے ثقافتی اور نظریاتی سوالوں پر عوامی بحث کس طرح کی جاتی ہے۔ کون موہن بھاگوت کے اس نظریے کی مخالفت کر سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھائی چارہ اور مذہبی ہم آہنگی ہی حقیقی نظریہ ہے۔ یہ خیال اتنا آزاد‘ لچکدار اور آئینی ہے کہ اسے تمام ذاتیں‘ تمام مسالک‘ تمام فرقوں اور تمام زبانوں کے لوگ قبول کریں گے۔ موہن جی نے ہندوتوا کی تنگ لکیر پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی ہے جو پہلے سمجھا جاتا تھا اور اب بھی سمجھا جا رہا ہے۔ ان کے ہندوتوا میں ہندوستان کے تمام 130 ملین افراد شامل ہیں۔ عبادت کا طریقہ الگ ہونے سے کوئی غیر ہندو نہیں ہو جاتا۔ اصطلاحی طور پر ہندو وہ ہے‘ جو ہندوستانی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو اور ہندوستانی ایک ہیں۔موہن بھاگوت نے کورونا وبا‘ کسان پالیسی‘ تعلیمی پالیسی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ پالیسی وغیرہ پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تعلیمی پالیسی پر بات کرتے ہوئے‘ یہ بہتر ہوتا اگر وہ انگریزی کو قانون‘ داخلہ اور ملازمت سے ہٹانے کی بات کرتے۔ مادری زبان میں تعلیم کی بات اچھی ہے‘ لیکن جب انگریزی روزگار اور غلبہ دیتی ہے تو پھر کوئی مادری زبان کیوں پڑھائے گا؟ اسی طرح سارک ہمسایہ ممالک کو ایک دھاگے میں باندھنے میں ناکام رہا ہے۔ ان ممالک کے عوام کو پوری آریہ ورت (اراکان سے خراسان تک) کو متحد کرنے کا کام کرنا ہے۔ عوام کو جوڑنے کا کام صرف سماجی تنظیمیں ہی کر سکتی ہیں۔