"DVP" (space) message & send to 7575

بہار کا الیکشن آئینہ بنے گا

بہار کا الیکشن صرف ایک صوبے کا الیکشن نہیں ہے۔ یہ آئندہ پارلیمانی انتخابات (2024) کا آئینہ ہونے جا رہا ہے۔ کورونا وبا کے دوران یہ پہلا الیکشن ہے۔ بہار میں، اس بار پچھلے انتخابات سے زیادہ ٹرن آئوٹ سامنے آیا ہے‘ یعنی کورونا کے باوجود اب اگلے چند مہینوں میں بہت سے صوبائی انتخابات بغیر کسی ہچکچاہٹ کے منعقد ہو سکتے ہیں۔ مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو، پانڈی چری اور کیرالہ کے انتخابات کی جھانکی ہم بہار کے انتخابات میں دیکھ سکتے ہیں۔ کل 243 نشستوں کے لئے یہ انتخاب تین مراحل میں ہوا۔ پہلا مرحلہ‘28 اکتوبر 2020 کو 71 نشستوں کے لئے، دوسرا مرحلہ‘ 3 نومبر 2020 کو 94 نشستوں کے لئے اور تیسرا مرحلہ 7 نومبر 2020 کو باقی 78 نشستوں کے لئے۔ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر 2020 کو شروع ہوئی اور این ڈی اے 125 نشستوں کے ساتھ فاتح کے طور پر سامنے آیا۔ مہاگٹھ بندھن نے 110 سیٹیں حاصل کیں۔ بی جے پی کے اعلیٰ رہنمائوں کا ماننا ہے کہ اس بار مقابلہ کانٹے کا رہا۔ سننے میں آیا کہ اسی خوف کے باعث اور ممبر اسمبلی کی خرید و فروخت کو روکنے کے لئے کانگریس اپنے امکانی ممبران کو پٹنہ سے بہت دور لے جانے والی تھی۔ پتہ نہیں اس کا کیا بنا۔ بہرحال اس بار بہار کے انتخابات پر ذات پات کا غلبہ نہیں رہا، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔ آر جے ڈی رہنما تیجشوی یادو نے ہر اجتماع میں بے روزگاری کے مسئلے پر روشنی ڈالی۔ نوجوانوں کے سامنے 10 لاکھ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا۔ تیجشوی یادو نے تمام ذاتوں کے مزدوروں کے زخموں پر ٹھنڈا مرہم لگایا‘ جسے لاک ڈائون نے کرید دیا تھا۔ نتیش کے عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے کام قالین کے نیچے سرک گئے۔ لوگوں کو ملے بہت سے براہ راست فوائد کا سہرا مودی کے سر بندھ رہا ہے، لیکن بہار کے اس الیکشن نے مودی کو بھی اشارہ دے دیا ہے۔ تیجشوی یادو نے پوری مہم کے دوران اپنے 'پوجیہ پتا اور ماتا جی‘ کو تاک پر رکھا اور ایک صاف ستھرے نوجوان اور با اثر سپیکر کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ یاد رہے کہ بہار کے رہنما چھواچھوت سے نفرت کرتے ہیں۔ بہار کے انتخابات نے بی جے پی کے لئے اگلے صوبائی انتخابات کے حوالے سے ایک اہم پیغام چھوڑ دیا ہے۔ 
اب امریکی وقار بحال ہو گا!
گزشتہ دنوں میں نے لکھا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے آدمی کو ساڑھے چودہ کروڑ ووٹوں میں سے تقریباً سات کروڑ ووٹ ملے۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ جوزف بائیڈن کو ٹرمپ کے مقابلے میں صرف چھپن لاکھ ووٹ ہی زیادہ ملے ہیں۔ بائیڈن کی فتح پر امریکہ اور بھارت کے عوام خوش ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک بھی خوش ہوں گے۔ چین سب سے زیادہ خوش ہو گا کیونکہ ٹرمپ نے پہلے اسے امریکہ کے تجارتی استحصال کا ذمہ دار ٹھہرایا اور پھر اسے کووڈ19 یا کورونا کو پوری دنیا میں پھیلانے کے حوالے سے بدنام کیا۔ ٹرمپ، جو کورونا سے غفلت برتتے رہے، خود کورونا کی زد میں آ گئے۔ دنیا کی سب سے طاقت ور معیشت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ لگ بھگ 20 ملین افراد بے روزگار ہو گئے۔ بے روزگاروں کو لبھانے کے لئے، ٹرمپ نے بہت سے دائو پیچ کھیلے لیکن وہ ان کو جتا نہ سکے۔ اب یہ بوجھ بائیڈن کے کندھوں پر آ پڑا ہے تاکہ امریکی معیشت کو زندگی مل سکے۔ انہوں نے پہلے ہی اس سمت میں کام شروع کر دیا ہے۔ میرے نزدیک ان کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انتخابی نتائج آنے پر نہ تو وہ ٹرمپ کے خلاف ایک لفظ بولے اور نہ ہی انتخابی عمل کے خلاف۔ انہوں نے اپنا وقار برقرار رکھا، لیکن ٹرمپ کا تکبر دیکھیں کہ انہوں نے اپنے بیانات سے پوری امریکی جمہوریت کو داغ دار کر دیا۔ کون ان کی بے قابو بد مزاجی کی عادت کا شکار نہیں ہوا؟ ان کا نام امریکی سیاست کی تاریخ کے بد ترین صدور میں لکھا جائے گا۔ جب وہ نئے نئے صدر بنے تھے تو انہیں ریپ جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے وزرا، ساتھیوں اور عہدے داروں نے انہیں کتنے استعفے دیئے۔ کسی امریکی صدر کے دور میں شاید ہی اتنے استعفے دیئے گئے ہوں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکہ ایک عجیب ملک ہے، جس کے عوام نے ایسے شخص کو صدر بنایا اور اسے چار سال تک اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ امریکی عوام ہلیری کلنٹن کی شکست کی تلافی صرف اسی صورت میں کر پائے گی جب وہ 2024 میں کملا ہیریس کو صدر منتخب کرے گی۔ مجھے یقین ہے کہ بائیڈن اور کملا اگلے چار برسوں میں امریکی جمہوریت کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کر دیں گے۔ بہرحال یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں ہے اور اپنی جگہ اہم بھی کہ تمام تر دریدہ دہنی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کو اتنے ووٹ کیوں ملے؟ الیکشن سے پہلے کے تمام سروے کیوں اور کیسے غلط ثابت ہوئے؟ امریکہ کے اندر اور اس سے باہر، یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بڑبولے ٹرمپ اس بار ایک بہت بڑی پٹخنی کھائیں گے۔ انہیں عام ووٹرز کے (30 لاکھ) ووٹ اس بار کم ملیں گے بلکہ اس سے بھی بہت کم، لیکن اب تک جو بھی اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کے ووٹ 2016 اور سینیٹ (راجیہ سبھا) کے مقابلے میں بڑھ گئے ہیں۔ ان کے امیدوار بھی الیکشن میں جیت چکے ہیں۔ اگرچہ کانگریس (لوک سبھا) میں ڈیموکریٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اگر ٹرمپ کو مجموعی طور پر شکست ہوئی ہے تو بھی وہ امریکی سیاست پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ شاید کسی دوسرے رہنما کو ریپبلکن پارٹی میں آگے نہیں آنے دیں گے۔ یہاں سوال صرف ریپبلکن پارٹی کا نہیں بلکہ ان کروڑوں امریکی شہریوں کا ہے جنہوں نے ٹرمپ جیسے آدمی کو اپنا انمول ووٹ دیا۔ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے کون لوگ ہیں؟ یہ ظاہر ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے لوگ تھے، رنگ برادری پر یقین رکھنے کے علاوہ، گورے رنگ کے لوگ خود کو اصلی امریکی سمجھتے ہیں، جو امریکہ کو دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ سخت قوم پرست ہیں اور ایسے لیڈروں کو پسند کرتے ہیں جو توتڑاخ کے انداز میں تقریر کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کے نوواردوں کو اپنی بے روزگاری کا سبب سمجھتے ہیں۔ وہ چین جیسے ممالک کو سزا دینا قومی فخر کی بات سمجھتے ہیں۔ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، نیٹو جیسے اداروں کو امریکہ کا استحصال کرنے والے ادارے سمجھتے ہیں اور وہ بے لگام اور تکبر کرنے والے مردوں کو لیڈر مانتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے ٹرمپ کو اتنے ووٹ دیئے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا پہلا مطلب یہ ہے کہ آج امریکہ کے لوگوں میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کی دانش مندانہ صلاحیت بہت کم ہو گئی ہے۔ دوسرا، جو بائیڈن واضح طور پر جیت چکے ہیں‘ لیکن ٹرمپ ان کو پریشان کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کریں گے۔ تیسرا، انتخابات کے بعد تخریب کاری اور تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ اس وقت امریکہ دو کیمپوں میں منقسم ہے۔ چوتھا، ٹرمپ کی دھمکیوں اور الزامات نے امریکی جمہوریت کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پانچواں، اگر ٹرمپ کرسی نہیں چھوڑتے اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو یہ امریکی جمہوریت کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں