امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی فوج کے 2500 اہلکار افغانستان سے واپس لائے گی اور یہ کام کرسمس سے پہلے کیا جائے گا‘مگر افغانستان جہاں امریکہ کے ایک لاکھ فوجی تھے ‘ اگر صرف دوہزار باقی رہ جائیں گے تو اس ملک کا کیا ہو گا؟ ٹرمپ نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کو واپس بلائیں گے کیونکہ امریکہ کو ہر سال ان پر چار ارب ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں‘ سینکڑوں امریکی فوجی ہلاک ہو جاتے ہیں اور امریکہ کو وہاں رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ 2002ء کے بعد سے امریکہ نے اس ملک میں 19 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کیا ہے۔ ٹرمپ کا موقف ہے کہ کابل میں امریکی افواج کے رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے‘ کیونکہ اب سوویت یونین کا کوئی خطرہ نہیں اور امریکہ کو دوسروں کے بجائے خود پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کی طرح اوباما نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران فوجی انخلا کا نعرہ لگایا تھا‘ تاہم صدر بننے کے بعد انہوں نے اس معاملے میں نرمی پیدا کرلی تھی‘ لیکن ٹرمپ نے فوجیوں کی واپسی میں تیزی لانے کے لئے سفارتی تیاری مکمل کر لی۔ انہوں نے طالبان اور کابل حکومت کے مابین بات چیت زلمے خلیل زاد کے توسط سے کی ہے اور ان مذاکرات میں پاکستان کا اہم کردار تھا؛ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ کابل حکومت اور طالبان کے مابین طے پانے والا معاہدہ ابھی صرف کاغذ پر ہی ہے۔ وہ عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتا اور آئے دن پُر تشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس وقت نیٹو ممالک کے بارہ ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں‘ وہیں افغان فوجیوں کی تعداد 175000 کے قریب ہے۔ میری رائے میں بائیڈن انتظامیہ کم سے کم دو سال کے لئے اپنے‘ نیٹو اور دیگر ممالک کے پانچ لاکھ فوجی اقوام متحدہ کی نگرانی میں افغانستان بھیجے ‘ اسی طرح افغانستان میں مکمل امن ہو سکتا ہے۔ بے شک ٹرمپ 25 دسمبر تک اپنا وعدہ پورا کریں‘ مگر جیسے ہی بائیڈن حلف اٹھائیں وہ کابل میں اپنی فوج بھیج دیں۔ بائیڈن نے خود امریکی افواج کے انخلا کے حق میں بات کی ہے‘ لیکن ان کی واپسی اسی وقت ہونی چاہیے کہ انہیں دوبارہ افغانستان نہ جانا پڑے۔ اگر افغانستان بدستور دہشت گردی کا گڑھ رہا تو خطے میں سکیورٹی مسائل موجود رہیں گے۔
نظریہ بڑا یا قومی مفاد
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سوامی وویکانند کے مجسمے کی نقاب کشائی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بڑا بنیادی سوال اٹھایا۔ سوال یہ ہے کہ کون بڑاہے ؟ قومی مفاد یا نظریہ؟ انہوں نے کوئی فکری بحث کرنے کیلئے یہ سوال نہیں اٹھایا ۔ مودی نے یہ سوال اس لئے اٹھایا ہے کہ جے این یو کو بائیں بازو کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ جے این یو میں سب سے پہلے پی ایچ ڈی کرنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہے ‘ میرا ہندی پراصرار ‘ دھوتی کرتا اور لمبی چوٹی دیکھ کر ‘ مجھے بھی لوگ دائیں بازو کا سمجھتے تھے ۔ اس کے پہلے کانووکیشن میں جب میں نے ڈگری حاصل کی تو وہاں ایک تنازع کھڑا ہوگیا تھا اور آج کل توبائیں بازو اور دائیں بازو کے مابین ہنگامہ آرائی ہورہی ہے ۔ اس فساد کو روکنے کیلئے مودی نے نظریہ کو قومی مفادکاتابع بتایا ہے ۔مودی کا کہنا ہے کہ جب بھی قومی بحران پیدا ہوتا ہے ہندوستانی عوام اتنے اچھے ہیں کہ نظریے کو ایک طرف رکھتے ہوئے قومی مفاد کے حق میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے ‘ لیکن وہ لوگ جو قوم سے زیادہ دنیا میں یقین رکھتے ہیں اور دنیا کے تمام پرولتاری عوام کیلئے لڑ رہے ہیں ‘ ان سے قوم کے نام پر کسی بھی مذہب یا فرقے یا ذات کی تنگ سیاست کے خلاف پوچھاجاتاہے توکہتے ہیں کہ اس میں غلط کیا ہے ؟ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حقیقی قومی مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ یہاں مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ہمارے بائیں بازوکے دانشور اور کمیونسٹ جماعتیں روس اور چین کی عقیدت میں ڈوب گئیں۔ اگر ان کی ہندوستان سے عقیدت ہوتی توآج ان کی حالتِ زار یہ نہ ہوتی۔ ان دنوں انہیں روکمو اور چیکمو کہا جاتا تھا۔لیکن وہ اب بھاکموہوگئے ہیں‘ وہ صرف کیرالہ میں سمٹ کررہ گئے ہیں۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے ہر شہری میں کسی بھی نظریے ‘ مذہب ‘ مسلک یا فرقے سے قطع نظر حقیقی ہندوستانیت کو جنم دیا جائے ۔ مجھے خوشی ہے کہ موہن بھاگوت اس کو دو ٹوک الفاظ میں دہرا رہے ہیں۔ اس خیال کو حکمرانی کی پالیسیوں ‘ طرز عمل اور بیانات میں بھی جھلکنا چاہیے ۔
کیرالہ کا اُلٹاآرڈیننس
کیرالہ کی بائیں بازو کی حکومت کوکیا ہوگیاہے؟ اس نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے ‘ جسے عدالتیں توغیر آئینی قرار دے ہی دیں گی ‘ لیکن اب حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی ان پر حملہ کردیا ہے۔ اس آرڈیننس کا مقصد بتایا گیا ہے کہ وہ خواتین اور بچوں پر ہونے والے لفظی حملوں سے ان کی حفاظت کرے گی۔ کیرالہ پولیس ایکٹ کی اس دفعہ 118 (اے) کے مطابق ‘ اس شخص کو تین سال جیل یا 10 ہزار روپے جرمانہ کی سزا دی جائے گی یا جرمانہ اور سزا دونوں ہوں گے جو کسی بھی فرد یا گروہ کو دھمکی دے گا‘ بدسلوکی کرے گا اور شرمندہ یا بدنام کرے گا۔ اس طرح کا ‘بلکہ اس سے بھی کمزورقانون کو 2015 ء میں سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کا سیکشن 66 اے تھا ‘ جو 2000ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ عدالت نے اسے آئین کے فراہم کردہ اظہارِ رائے کی آزادی کے منافی قرار دیا۔ کیرالہ کے اس آرڈیننس کے موجب‘ اگر کسی خبر یا مضمون یا بحث سے کسی کے بارے میں کوئی غلط فہمی پھیل جاتی ہے یا وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو پولیس اس الزام میں براہ راست اسے گرفتار کرسکتی ہے۔ پولیس کو اتنے اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ بغیر کسی شکایت یا اطلاع کے کسی کو بھی گرفتار کرسکتی ہے۔ کیا اب روس کا سٹالن راج یا چین کا ماؤ راج کیرالہ میں غالب ہو گا؟ بظاہر یہ آرڈیننس بغیرسوچے سمجھے جاری کیا گیا ہے۔ کیرالہ کی بائیں بازو کی حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف قانون ساز اسمبلی میں ایک قرار داد پاس کر کے اسی طرح کا غیر ذمہ دارانہ کام کیا تھا۔ انہوں نے وفاقی قانون کے خلاف بھی سپریم کورٹ کارخ کیاتھا۔ ہماری بائیں بازو جماعتوںنے ملک کی دائیں بازو کی حکومتوں پر جو الزامات لگائے ہیں وہ اب اس سے بھی زیادہ تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیرالہ کی کمیونسٹ حکومت اب بہت سے صحافیوں ‘ ادیبوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو دھمکانے اور اس قانون کی مدد سے کٹہرے میں ڈالنے کا کام کرے گی۔ حیرت ہے کہ عارف محمد خان جیسے گورنر ‘ جو ایک تجربہ کار سیاستدان اور قانون کے پنڈت ہیں ‘ نے اس طرح کے آرڈیننس پر دستخط کیسے کئے؟ انہوں نے اس سے قبل بھی ریاستی حکومت کو کچھ غلط اقدامات کرنے سے روکا تھا اور انہوں نے اس آرڈیننس کوبھی تقریباً ڈیڑھ ماہ تک روک دیا تھا لیکن کیرالہ یا سنٹر کے تمام بائیں بازو اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے بھی اپنے منہ بند رکھے ‘ انہوں نے سوچا ہوگا کہ وہ اس سردردی کوآخر اپنے سرکیوں لیں؟ ان کے دستخط ہوتے ہی کانگریس اور بی جے پی قائدین اور ملک کے بڑے اخبارات نے اس آرڈیننس کی دھجیاں اڑانا شروع کردیاہے۔ اس سے پہلے کہ عدالت عظمیٰ اس کو ختم کردے ‘ کیرالہ حکومت اسے اپنی موت مرجانے دے تو صحیح ہوگا۔