"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت کے لئے گندی سند

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، اگر ایشیاء میں کہیں سب سے زیادہ بد عنوانی ہے تو وہ ہندوستان میں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو اس سے بڑی اور کیا گندی سند مل سکتی ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ نہیں ہے کہ ہندوستان میں شائستگی یا جمہوریت نہیں ہے، بلکہ وہاں تانا شاہی اور بیوروکریسی ہے؟ پچھلے پانچ چھ سالوں میں، سیاست دانوں کی بد عنوانی کی خبریں کافی حد تک کم ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کا سیاسی نظام بد عنوانی سے پاک ہو چکا ہے۔ میرے خیال میں بھارت کا کرپشن فری بننا نا ممکن ہے۔ اس کے ناگزیر ہونے کو آچاریہ چانکیہ اور یونانی فلسفی پلاٹو نے ڈھائی ہزار سال پہلے بخوبی سمجھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چانکیہ نے اپنے نہایت ہی صاف ستھرے اور شفاف سلوک کی مثال دی اور افلاطون نے اپنے مقالہ 'جمہوریہ‘ میں ایک 'مثالی بادشاہ‘ کا تصور پیش کیا تھا‘ جس کا نہ تو نجی خاندان تھا اور نہ ہی کوئی ذاتی ملکیت‘ لیکن آج کی سیاست کا ہدف اس کے بر عکس ہے۔ خاندانی پن اور ذاتی املاک کے لالچ نے ہندوستان کی سیاست کو بری طرح برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس بربادی کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے‘ اس پر میں پھر کبھی لکھوں گا‘ لیکن میری طرح سبھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہندوستان میں لیڈروں کی بد عنوانی ہی بیوروکریٹس کو بدعنوانی کی ترغیب دیتی ہے۔ ہر افسر شاہی اپنے مالک (رہنما) کی شہ رگ یعنی کمزوریوں سے واقف ہوتا ہے۔ وہ اس کی ساری بد عنوانی کی حد یا کرپشن کو جانتا ہوتا ہے۔ اسی لئے لیڈر بیوروکریٹ کی کرپشن پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ سرکاری بابو اور پولیس اہلکار بھی بد عنوانی کے اس دلدل میں کیوں پیچھے رہ جائیں؟ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا بلکہ ڈبکیاں لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سروے میں بتایا گیا کہ ہندوستان کے 90 فیصد لوگ رشوت کے بغیر کام نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ، 60 سال پہلے، اندور میں ونوباجی کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے، میں نے ان کے منہ سے سنا تھا کہ آج کل بد عنوانی ہی شائستگی ہے۔
دونوں اپنی ضد چھوڑ دیں!
امید تھی کہ کسانوں کی تحریک کا ہمہ جہت حل جلد سامنے آ جائے گا۔ وزیر زراعت نریندر تومر نے کسانوں سے بات کی اور فوری طور پر انہیں بات کرنے کے لئے بلایا۔ یہ بھی اچھا ہے کہ حکومت نے تمام کسانوں کی براری میدان میں جمع ہونے کی درخواست ترک کر دی لیکن کسانوں نے دہلی پہنچنے کے لئے مقبول روایتی راستوں پر دھرنا دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ دہلی کے لوگوں کو پھل اور سبزیاں لینا مشکل ہو رہا ہے اور سینکڑوں ٹرک سرحدی مقامات پر کھڑے ہیں۔ اس سے کسانوں کو بھی نقصان ہو رہا ہے کہ ان کی پیداوار خراب ہو رہی ہے۔ تاجر بھی پریشان ہیں کہ ان کا کام دھندا نہیں چل رہا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب دہلی کے عوام نے کسانوں کے لئے اپنے خزانے کھول دیئے ہیں۔ اگر یہ دھرنا اور احتجاج طویل عرصے تک جاری رہا تو عام کاشت کاروں خصوصاً پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے خلاف ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے جو دوسرے ہندوستانی کسانوں کے مقابلہ میں کافی حد تک بہتر حالت میں ہیں۔ وزیر زراعت تومر کی یہ تجویز قابلِ عمل ہے کہ پانچ کسان رہنمائوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ بیٹھے، لیکن مذاکرات میں شامل تین چار درجن کسان رہنما اس بات پر قائل نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اس تحریک کے کوئی مشترکہ رہنما نہیں ہیں۔ پتہ نہیں، اب معاملہ آگے کیسے بڑھے گا؟ حکومت ایک بار میں 100 رہنمائوں سے بات کر سکتی ہے، لیکن ہر کوئی ان کی ڈفلی اور ان کے راگ سے پریشان ہو جائے گا۔ جہاں تک تینوں زرعی قوانین کے انخلا کا تعلق ہے تو یہ خالص انتہا پسندی اور تعصب ہے۔ صرف 6 فیصد کسانوں کی نمائندگی کرنے والے ان نئے قائدین کے سامنے حکومت کیوں ہتھیار ڈال دے؟ اگر وہ پُر امن مظاہرے کرتے ہیں تو کریں، لیکن اگر وہ تشدد کا سہارا لیتے ہیں اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو حکومت کو سخت کارروائی کرنی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت اپنی ضد پر اڑی رہے اور بالکل بھی لچک کا مظاہرہ نہ کرے۔ جو بھی مشورے آئیں ان پر اچھی طرح سے غور و فکر ہونا چاہئے۔ کم سے کم سپورٹ قیمت کو قانونی حیثیت دینے سے بنیادی مسئلہ حل ہو سکتا ہے، لیکن اس سے کم یا زیادہ شرح پر سامان بیچنے کے لئے چھوٹ دینا ضروری ہے۔ اس پر سزا یا جرمانہ غیر منصفانہ ہو گا۔ منڈیوں کی تعداد میں اضافہ اور ان کے نظام کو زیادہ کاشت کار دوست بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
پیش رفت کا موقع ! 
نومبر کا مہینہ بھی کیا مہینہ تھا؟ اس مہینے میں چھ سربراہی اجلاس ہوئے جن میں ہندوستان کے نائب صدر نے چین، روس، جاپان، جنوبی افریقہ اور پاکستان سمیت وسطی ایشیا کے ممالک کے رہنمائوں سے براہ راست بات چیت کی‘ لیکن اسے مکالمہ شاید نہیں کہا جا سکتا‘ اس لئے کہ تمام رہنما زوم یا انٹرنیٹ پر تقریر کرتے رہے۔ سب نے کورونا کی وبا پر بات کی۔ سب نے اپنی لڑائی کی مہارت کا تذکرہ کیا۔ ہر ایک نے ایسی باتوں کا اعادہ کیا جو وہ اکثر ایسی کانفرنسوں میں بولتے ہیں۔ انہوں نے اپنی حریف قوموں کی مخالفت کی۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس سربراہی اجلاس کی اہمیت کیا تھی؟ بہتر ہوتا اگر ہندوستان اپنے ہمسایہ ممالک سے براہ راست رابطے کرتا۔ اس مکالمے کے لئے سارک تنظیم تشکیل دی گئی تھی۔ لگ بھگ 40 سال پہلے، جب اس تنظیم کی تشکیل کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو ہم امید کر رہے تھے کہ ہندوستان اور اس کے ہمسایہ ممالک مل کر یورپی یونین کی طرز پر مشترکہ منڈی، مشترکہ پارلیمنٹ، مشترکہ حکومت اور مشترکہ فیڈریشن تشکیل دیں گے، لیکن یہ خواب پاک بھارت تنازع کا شکار ہو گیا۔ سارک کانفرنس بھارت کی عدم توجہی اور من مانیوں کی وجہ سے متعدد بار ملتوی کر دی گئی۔ یہاں تک کہ جب یہ ہوئی بھی تو، کوئی اہم فیصلے نہیں کیے جا سکے۔ سارک کانفرنسوں میں کیا ہوتا ہے؟ ان ممالک کے وزرائے اعظم کی شرکت اور اپنی رسمی تقریریں کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور سمجھتے کہ اس تنظیم کے قیام کا حق ادا ہو گیا۔ ان ممالک کے اعلیٰ حکام ان تقریروں کی بنیاد پر تعاون کے چھوٹے چھوٹے راستے تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن حکومتیں باہمی معاملات میں اس قدر ڈوبی ہوئی ہیں کہ کوئی بڑا فیصلہ کارگر نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اب اس کے بعد پھر کیا کریں؟ میری رائے ہے کہ سارک کو جاری رکھنا چاہئے بلکہ ایک عوامی سارک (پیپلز سارک) کا قیام بھی جاری رکھنا چاہئے، جس میں میانمار، ایران، ماریشیئس، سیشلس اور وسطی ایشیاء کی پانچ جمہوریتوں کے علاوہ سارک کے آٹھ ممالک کے کچھ نمایاں افراد کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ میں ان تمام ممالک میں رہائش پذیر رہا ہوں اور وہاں میں نے ہمیشہ اپنا پن دیکھا۔ اگر ان 17 ممالک کے عوامی نمائندوں کی تنظیم تشکیل دی جائے تو میرا اندازہ ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ایک سو ملین نئی ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں، ایشیا کا یہ خطہ یورپ سے زیادہ خوش حال ہو سکتا ہے اور ایسے اقدامات کے نتیجے میں تبت اور طالبان وغیرہ جیسے معاملات کا بھی کوئی حل نکل سکے گا۔ یہ معاملات اور تعلقات سینکڑوں سالوں سے چلے آرہے‘ ضرورت ان کی تجدیدِ نو کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں