مودی حکومت نے کسان رہنمائوں کو جو مشورے بھیجے ہیں وہ کافی معقول اور عملی لگتے ہیں۔ کسانوں کے اس خوف کو پوری طرح دور کر دیا گیا ہے کہ کم سے کم قیمت یعنی ایم ایس پی ختم ہونے والی ہے‘ اب یہ ختم نہیں ہو گی۔ حکومت اس ضمن میں کسانوں کو تحریری یقین دہانی کروائے گی۔ کچھ کسان رہنما اس معاملے پر قانون سازی چاہتے ہیں یعنی جو بھی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قیمت سے کم میں خریدے‘ اسے جیل بھیجا جانا چاہئے‘ کسانوں کی خواہش ہے کہ ایسا قانون موجود ہونا چاہئے۔ اگر اس طرح کا قانون نافذ کیا جاتا ہے تو وہ کسان بھی جیل جائیں گے جو اپنا سامان مقررہ قیمت سے کم قیمت پر فروخت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قائدین اس کے لیے تیار ہیں؟ اس کے علاوہ حکومت کے لئے سخت قانون بنانا ضروری ہے‘ لیکن اگر وہ گندم اور دھان کو مقررہ قیمت پر خریدنا بند کر دیتی ہے یا اس میں بہت زیادہ کمی ہو جاتی ہے تو یہ کسان رہنما کیا کریں گے؟ وہ اپنے کسانوں کے مفادات کا تحفظ کیسے کریں گے؟ حکومت نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسان اپنا تنازع طے کرنے کے لیے عدالت میں جا سکیں گے‘ یعنی وہ سرکاری عہدے داروں کے رحم و کرم پر انحصار نہیں کریں گے۔ یہ شق پہلے ہی موجود ہے کہ جو بھی نجی کمپنی کسانوں کے ساتھ اپنا معاہدہ توڑے گی اسے اصل معاہدے کی ڈیڑھ گنا رقم ادا کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ منڈی کا نظام بھی ختم نہیں کیا جا رہا۔ بڑی کمپنیاں یا صنعت کار یا برآمد کنندگان کاشت کاروں سے جو معاہدے کریں گے‘ وہ صرف فصلوں کے بارے میں ہوں گے۔ انہیں کسانوں کی زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر کسان رہنما کوئی عملی تجاویز پیش کریں تو حکومت ان کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اب تک وزیر زراعت نریندر تومر اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا رویہ لچک دار رہا ہے‘ لیکن کچھ کسان رہنماؤں کے بیانات کافی سخت ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کا بھارت بند صرف پنجاب، ہریانہ اور دہلی کی حدود تک ہی محدود رہا ہے؟ ملک کے 94 فیصد کسانوں کا کم سے کم سپورٹ قیمت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ غریب کسانوں کو بعد میں پچھتانا پڑے گا‘ اگر وہ اپوزیشن رہنماؤں پر بھروسہ کریں گے۔ صدر سے ملاقات کرنے والے مرکزی لیڈران میں بھی زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے منڈی کے نظام کو ختم کرنے کا نعرہ دیا تھا۔ ان لیڈروں سے کسانوں کو راہ و رسم ضرور بڑھانا چاہیے‘ لیکن ان رہنمائوں کی سیاست سے خود کو بچا کر رکھنا چاہئے۔
کسانوں کی ہڑتال اور غیرملکی ہدایات
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو‘ برطانیہ کے 36 اراکین پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ہندوستان میں جاری کسان تحریک کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیں پُر امن مظاہروں کی اجازت دینی چاہئے اور حکومت کو ان کی مشکلات پر قابو پانا چاہئے۔ اس پر بھارتی حکومت اور بی جے پی کے ترجمان یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں کیوں مداخلت کر رہے ہیں؟ ان کا یہ سوال بنیادی طور پر ٹھیک ہے اور حق بجانب بھی ہیں کہ حکومت ہند کے وزرا کسان قائدین کے ساتھ نہایت نرمی اور اعتدال پسندانہ گفتگو کر رہے ہیں اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ غیر ملکی حکومتیں ہندوستان کو ایسی ہدایت کیوں دے رہی ہیں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ تحریک گزشتہ ماہ شروع ہوئی تھی تو کسانوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی‘ لیکن غیر ملکیوں کو اب بھی کیا حق ہے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کینیڈا اور برطانیہ میں ہمارے کسانوں کے رشتے دار بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی سناتے وقت اپنے رشتے داروں سے مبالغہ آرائی کی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے رشتے داروں نے ان ممالک کے اعلیٰ رہنمائوں کو اپنے رشتے داروں کے حق میں بات کرنے کی ترغیب دی ہو۔ میں اپنی حکومت اور بی جے پی کے ترجمانوں کا اتنا ناراض ہونا ضروری نہیں سمجھتا ہوں؛ تاہم میری نظر میں ان کا ٹروڈو کو جواب دینا ٹھیک ہے‘ اس لئے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ٹروڈو حکومت خود کسانوں کو امدادی قیمت دینے کی شدید مخالفت کر رہی ہے‘ پھر وہ کس منہ سے ہندوستانی حکومت کو ہدایت دے رہی ہے؟ دوسری جانب ہندوستان کے وزیر خارجہ جے شنکر نے کینیڈا کے زیر اہتمام بین الاقوامی مکالمے کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی رکن پارلیمنٹ پرمیلا جے پال کے بیان پر اعتراض ظاہرکرنے کے لیے بھی انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ انہیں اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہئے‘ بصورت دیگر یہ چھوٹے چھوٹے رد عمل ہماری خارجہ پالیسی کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
بی جے پی اور ممتا کا تصادم
مغربی بنگال کے ڈائمنڈ ہاربر کے علاقے میں بی جے پی صدر جگت نڈا اور بی جے پی انچارج کیلاش وجے ورگیہ کے قافلے پر جو حملہ ہوا اس میں ایسا کچھ بھی ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے ممتا بینرجی کی حکومت تحلیل ہو سکتی تھی۔ اگر نڈا کی کار محفوظ نہ ہوتی تو یہ حملہ مہلک ثابت ہوتا‘ اس لئے کہ کیلاش وجے ورگیہ کی گاڑی محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے اسے بہت زیادہ چوٹیں آئیں۔ کیا اس طرح کے واقعات سے ممتا حکومت کی عزت یا مقبولیت بڑھ جاتی ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ ممتا نے یہ حملہ بی جے پی کے قافلے پر نہیں کیا ہو گا۔ انہیں شاید پہلے سے معلوم نہیں تھا لیکن اپنے کارکنوں کے اس حملے کے بعد انہوں نے نہ تو اس کی شدید مذمت کی اور نہ ہی اپنے کارکنوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کی۔ بنگال پولیس نے جس رد عمل کا اظہار کیا‘ وہ یہ تھا کہ جائے وقوعہ پر ''کچھ خاص نہیں ہوا‘‘۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگوں نے پتھراؤ کیا لیکن تمام لوگ محفوظ ہیں۔ پوری صورتِ حال پُر امن ہے۔ ذرا سوچئے کہ پولیس والے اس طرزِ عمل کو کیوں برقرار رکھے ہوئے ہیں؟ کیونکہ وہ ممتا سرکار کے کہنے پر اپوزیشن کو کچل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر حکومت نے انہیں یہ کہنے کے لیے تحریک نہیں دی تو بھی ان کے طرزِ عمل سے حکومت کی نیت پر شک پیدا ہوتا ہے۔ یہ شبہ اس لئے بھی پیدا ہوا ہے کہ ممتا راج میں بی جے پی کے درجنوں کارکنوں کو ہلاک کیا گیا ہے اور اس واقعے کے بعد قتل کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔ اس وقت مغربی بنگال میں انتخابات کا آغاز ہے۔ اگر قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو انتخابات تک انتشار کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ مرکز اور ریاست میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ممتا حکومت تحلیل بھی ہو سکتی ہے۔ اب اس کی نوبت بھی آ گئی ہے کہ مرکزی پولیس کے تین بڑے افسران‘ جو بنگال میں تعینات تھے اور نڈا قافلے کی حفاظت کے ذمہ دار تھے‘ وزیر داخلہ امیت شاہ نے انہیں دہلی واپس بلایا ہے۔ ممتا متفق نہیں لیکن ایسے بہت سے معاملات میں عدالت نے مرکز کے حکم کو برقرار رکھا ہے۔ آخر ممتا کو جھکنا پڑے گا۔ گورنر جگدیپ دھنکر اور ممتا کے مابین ٹکراؤ اور جنگ کی کئی اطلاعات آ رہی ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت اور ممتا حکومت کو تحمل کے ساتھ کام کرنا ہو گا‘ بصورتِ دیگر بنگال کی سیاست میں انتشار کو کوئی نہیں روک پائے گا۔