میرا خیال تھا کہ حکومت اور کسان قائدین کے مابین جو گفتگو ہونے والی ہے‘ وہ آخری ہو گی ‘ یا تو سارا معاملہ حل ہو جائے گا یا یہ دونوں طرف سے طول پکڑے گا؛ چنانچہ گزشتہ روز ہونے والی آٹھویں میٹنگ بھی بے نتیجہ ختم ہو گئی اور طے پایا ہے کہ فریقین میں اگلا اجلاس 15 جنوری کو ہو گا۔ سابق یونین منسٹر ہرسمرت کور بادل نے کہا ہے کہ مودی سرکار نے کسانوں کا اعتماد کھو دیا ہے؛ چنانچہ اب نریندر مودی کو احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ خود براہ راست بات کرنا ہو گی۔ بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے کسان جو دھرنا دے رہے ہیں وہ بہت مضبوط‘ مال دار اور سمجھ دار ہیں اور حکومت بھی کسانوں کے غم و غصے کو اپنی طرف نہیں موڑ سکتی۔ اسی لئے مجھے امید ہے کہ یہ مکالمہ جلد ضرور کامیاب ہو گا۔ اس ضمن میں میرے پاس کچھ تجاویز ہیں۔ دونوں فریق ان پر غور کر سکتے ہیں۔ پہلی‘ کھیتی باڑی بنیادی طور پر ریاستوں کا معاملہ ہے‘ یہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 246 میں واضح طور پر بیان ہوا ہے۔ ایسی صورت حال میں مرکزی حکومت ریاستوں (پنجاب‘ ہریانہ وغیرہ) کو چھوٹ کیوں نہیں دیتی؟ جن ریاستوں کو ان تینوں قوانین کو نافذ کرنا ہے‘ وہ چھوٹ پر عمل نہ کریں۔ وہ خود فیصلہ کریں کہ ان کے فائدے میں کیا ہے؟ دوسری‘ ملک کے 94 فیصد کسان ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) کے رحم و کرم پر نہیں ہیں۔ مرکزی حکومت 23 اجناس کے علاوہ بھی درجنوں اناج‘ پھل اور سبزیوں کی ایم ایس پی کا اعلان کر سکتی ہے‘ جیسے کیرالہ حکومت نے کیا ہے۔ ان کو خریدنا ضروری نہیں ہے۔ تیسری‘ جو کاشت کار اپنا سامان اوپن مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں‘ ان سرکاری قوانین سے انہیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے۔ یہ کسان ابھی بھی معاہدے پر اپنی کھیتی باڑی اور زمین دینے کے لیے آزاد ہیں۔ حکومت اس سر درد کو کیوں اپنے سر لے رہی ہے؟ چوتھی‘ پیداوار کے ذخیرہ کرنے کی حد کو ختم کرنا ٹھیک نہیں لگتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ذخیرہ کرنے کی حدیں عائد کرے۔ پانچویں‘ اگر حکومت زرعی قوانین کے احترام کے سوال کو برقرار رکھے ہوئے ہے تو پھر وہ ملک میں ان چھ فیصد مالدار کسانوں کے خلاف 94 فیصد چھوٹے کسانوں کے متوازی دھرنے کا اہتمام کیوں نہیں کر سکتی؟ قبل ازیں امید کے بر خلاف‘ حکومت اور کسانوں کے مابین ساتواں مکالمہ بھی (جو دسمبر کے آخر میں ہوا تھا) بے نتیجہ رہا تھا۔ اس سے بھی پہلے چھٹے مکالمے میں جو باہمی ہم آہنگی دیکھنے میں آئی تھی وہ اس بار غائب تھی۔ کسانوں اور وزرا نے اس بار ایک ساتھ کھانا بھی نہیں کھایا۔ اس کے بعد آٹھ جنوری بروز جمعرات‘ دونوں فریق ایک بار پھر ملے‘ لیکن اس سے بھی کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکا کیونکہ دونوں فریق اپنی اپنی بات پر قائم ہیں اور اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو کسی طور تیار نہیں۔ اگرچہ بھارتی وزیر زراعت نریندرا سنگھ تومار نے مسئلے کا حل نکلنے کی امید کا اظہار کیا‘ مگر کسانوں کا کہنا ہے کہ تینوں قوانین کو واپس لیا جائے‘ جبکہ حکومت کہتی ہے کہ اس میں جو بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے‘ وہ بتائو‘ ہم ترمیم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے‘ کسانوں کے لیے دروازہ کھل گیا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو‘ پھر انہیں اپنی ترمیم اور اضافہ بتانا چاہئے تاکہ ترمیم اور اضافہ کے بعد یہ محسوس نہ ہو کہ یہ وہی تینوں قانون ہیں‘ لیکن اس عمل میں ایک پیچ ہے یعنی یہ باہمی مکالمہ بات چیت کے بجائے دروپدی کا ایک چیر بن سکتا ہے۔ پہلے ہی اس ڈیڑھ ماہ پرانے دھرنے میں 55 کسانوں کی موت واقع ہو چکی ہے‘ کچھ خودکشیاں بھی ہوئی ہیں۔ دہلی کی اس شدید سردی اور غیر موسمی بارش میں پنجاب‘ ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کے کسانوں کے لیے یہ ایک صدمہ ہے کہ وہ جی رہے ہیں۔ اگر ان کی جگہ پر کسی بھی سیاسی جماعت کے لوگ ہوتے تو وہ بھاگ جاتے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کسانوں کی بھلائی کے لیے یہ تینوں قوانین بنائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسان اگر حکومت کے موقف سے متفق نہیں ہیں تو پھر حکومت انہیں اسے قبول کرنے پر کیوں مجبور کر رہی ہے؟ وہ ان ریاستوں کو کیوں چھوٹ نہیں دیتی جو اس پر عمل کرنا چاہتی ہیں اور انہیں بھی جو اس پر عمل نہیں کرنا چاہتیں۔ ان تینوں قوانین کے بغیر بھی‘ ملک کے 94 فیصد کسان کھیتی باڑی اور خرید و فروخت کے لیے آزاد ہیں۔ جہاں تک چھ فیصد متمول کسانوں کا تعلق ہے جو اپنی گندم اور دھان حکومت کو فروخت کرتے ہیں وہ بھی پھل اور سبزیاں اگانا شروع کر سکتے ہیں‘ اگر حکومت ان اجناس کے لیے کیرالہ کی طرح کم سے کم سپورٹ پرائس کا اعلان کرتی رہے۔ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن پتا نہیں کیوں اسے طول دیا جا رہا ہے جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
کورونا ویکسین کی خوشخبری
کورونا کی وبا کو کنٹرول کرنے کا تریاق اب بھارت کے پاس بھی آگیا ہے۔ کورونا کی دو ویکسینز جو بھارت میں بنی ہیں‘ ضرورت مندوں کے لیے جلد ہی شروع کی جائیں گی۔ تین کروڑ افراد کے لیے کئے گئے انتظامات میں یہ ویکسین پہلے ان لوگوں کو دی جائے گی جو ڈاکٹر‘ نرسز ہیں اور کورونا مریضوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ وہ مخلص سرکاری ملازم ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر زندگیوں کو بچایا ہے۔ اب بھی یہ لوگ جوش و خروش سے ملک کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں پہلے تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ واضح رہے کہ ہمارے قائدین چاہیں گے کہ وہ ان خدمت گزار کارکنوں سے پہلے ویکسین حاصل کریں‘ لیکن انہیں اپنا ان ڈاکٹروں‘ نرسوں‘ وارڈ بوائز اور ایمبولینس ڈرائیوروں سے موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔ جب یہ لوگ اپنی جان داؤ پر لگا رہے تھے تو بیشتر قائدین اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ وہ بھوکے لوگوں کو کھانا تقسیم کرنے سے بھی ہچکچا رہے تھے۔ اگرچہ یہ میری رائے ہے کہ اگر وہ اب بھی اپنی باری سے پہلے ویکسین لینا چاہتے ہیں تو پھر انہیں یہ سہولت دی جانی چاہئے‘ لیکن ان سے دوگنا چارج کیا جانا چاہئے‘ یہ رقم اس ویکسین کو مفت تقسیم کرنے میں استعمال ہو سکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حکومت کے پاس کروڑوں لوگوں کو مفت ویکسین دینے کے لئے اربوں روپے ہیں لیکن اگر وہ نجی ہسپتالوں کو یہ استثنا دے دیتے ہیں تو ہندوستان میں 30 سے 40 کروڑ افراد ایسے ہیں جو اعلیٰ اور نچلے متوسط طبقے کے ہیں‘ جو ہزار دو ہزار خرچ کرکے یہ ویکسین لے سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جو رقم حکومت کو ملے گی وہ مفت ویکسی نیشن کے لیے استعمال ہو سکے گی۔ یوں مفت ویکسی نیشن کا مالی بوجھ بھی ہلکا ہو گا۔ صحت کے سرکاری کارکنوں کی تعداد صرف سوا لاکھ ہے‘ ویکسین ورکرز کی اتنی ہی تعداد نجی ہسپتالوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ ہماری وزارتِ صحت نے 50 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 50 پچاس کروڑ سے زائد شدید بیماریوں میں مبتلا افرادکو بھی یہ ویکسین دینے کے لیے مناسب تیاری کی ہے۔ اگر ضرورت ہو تو حکومت غیر ملکی کمپنیوں سے بھی دوائیں خرید سکتی ہے؛ تاہم بھارتی سائنسدانوں کے ذریعے تیار کردہ یہ ویکسین مغربی ویکسینز کی نسبت سستی ہے۔ اس سے نہ صرف بھارت کو وبا سے نجات ملے گی بلکہ دوسرے ممالک کو بھی فروخت کی جا سکتی ہے۔