"DVP" (space) message & send to 7575

ٹرمپ امریکہ کے لئے کلنک ہیں

ڈونلڈ ٹرمپ نے ثابت کر دیا کہ وہ امریکہ کے چہرے کا بد نما داغ ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں صدر کے انتخاب کے حوالے سے کبھی کبھار جھگڑے ہوتے رہے ہیں‘ لیکن اس بار ٹرمپ نے امریکی جمہوریت کو مکمل طور پر داغ دار کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے انتخابی نتائج کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ وائٹ ہائوس (راشٹرپتی بھون) کو خالی نہیں کریں گے‘ اور 20 جنوری کو جو بائیڈن کو صدر کا حلف نہیں لینے دیں گے۔ ان کے غصے کو پوری دنیا نے محسوس کیا۔ پھر اپنے اہلِِ خانہ کے مشورے پر وہ کچھ نرم پڑتے دکھائی دیئے‘ لیکن اب جبکہ امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بائیڈن کے انتخاب پر مہر لگانے کے لئے منعقد کیا گیا تو ٹرمپ کے حامیوں نے جو ہنگامہ کیا وہ شرمناک تھا۔ وہ دارالحکومت واشنگٹن میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوئے اور پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ کر دیا۔ اشتعال انگیز نعرے لگائے‘ تخریب کاری کی اور گولیاں بھی چلائیں‘ جس سے چار افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک خاتون کو پولیس کی گولی لگی۔ ہجوم کا ردعمل اس قدر جارحانہ تھا کہ ارکان پارلیمنٹ نے ایک بند عمارت میں گھس کر اپنی جان بچائی۔ ان لوگوں کو مشتعل کرنے کی ذمہ داری ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے۔ وہ وہائٹ ہائوس میں بیٹھ کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہے اور ہجوم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ٹرمپ کی اشتعال انگیزی کی جبلت کے باوجود ‘ امریکی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے بائیڈن اور کملہ ہیرس کی فتوحات پر مہر ثبت کردی۔ آج جمہوریت کی حوصلہ افزائی کرنے والے وہ ریپبلکن قانون ساز اپنے اوپر ضرور فخر کریں گے جنہوں نے اپنے قائد ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا۔ حالانکہ ٹرمپ کو فوراً ہی سمجھ میں آ گیا تھا کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے قائدین ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس صورت میں اب کوئی بھی انہیں راشٹرپتی بھون میں نہیں رہنے دے گا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی ہوا اکھڑ چکی تھی۔ انہوں نے شکست کو دیکھتے ہوئے ایک بیان جاری کیا کہ 20 جنوری کو اقتدار کی تبدیلی پرامن طور پر ہو گی‘ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اصل جدوجہد اب شروع ہو گی۔ وہ یہ سب اس لئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے چار سالہ دور میں ذہنی طور پر امریکہ کے دو ٹکڑے کر دیئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ اب وہ بائیڈن کی راہ میں کانٹے بچھانے کی پوری کوشش کریں گے۔ بہتر ہو گا کہ امریکہ ریپبلکن پارٹی سے ٹرمپ کو نکالنے کا راستہ دکھا دے۔ جمہوریت کے حامی قانون سازوں نے اس وقت ٹرمپ کے حربوں کو ناکام بنا دیا ہے‘ اگر وہ پہل کریں گے تو امریکی جمہوریت ضرور زندہ رہے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی پارلیمنٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جو چال چلی تھی وہ بالآخر ختم ہو گئی ہے اور انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جو بائیڈن اور کملا دیوی ہیرس 20 جنوری کو صدر اور نائب صدر کے عہدے کا حلف لیں گے۔ دوسرے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر کی کرسی خالی کردیں گے۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ راشٹرپتی بھون (وائٹ ہائوس) کو خالی کردیں گے یا نہیں؟ پچھلے مہینے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ وائٹ ہائوس میں ہی قیام کریں گے اور انہیں وہاں سے نکالنے کے لئے فوج کو طلب کرنا پڑے گا‘ لیکن اب وہ اپنی ہی چال میں اتنی بری طرح شکست کھا چکے ہیں کہ خود بخود وائٹ ہائوس خالی کر دیں گے۔ پہلی بات یہ کہ امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں نے اپنی مشترکہ میٹنگ میں بائیڈن اور ہیرس کی جوڑی پر مہر ثبت کردی ہے۔ یہ ایک آئینی دستک ہے کہ ٹرمپ جی تخت خالی کرو۔ دوسرا‘ ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے ممبران اسمبلی نے ٹرمپ کی مخالفت میں تقریریں کیں اور ووٹ دیئے ہیں۔ تیسرا‘ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے متعدد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں‘ لیکن ان کے نتائج پینڈنگ میں پڑے ہوئے ہیں۔ چوتھا‘ سینیٹ انتخابات میں جارجیا صوبے نے ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کی تدبیریں الٹی کر دی ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں نے دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے ایک سیاہ فام ہے۔ پانچویں‘ ٹرمپ کی اس چال کی پوری دنیا میں مذمت ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں ٹرمپ 20 جنوری کے بعد بھی اپنے عہدے پر فائز ہونے کی ہمت نہیں کریں گے۔ لیکن کچھ سینیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ 20 جنوری سے پہلے ٹرمپ کو برخاست کر دیا جائے۔ امریکی آئین کی 25ویں ترمیم کے تحت یہ ممکن ہے۔ اس کے چوتھے آرٹیکل کے مطابق‘ نائب صدر اور آدھے سے زیادہ وزرا کو ایسی قرارداد منظور کرنی چاہئے‘ تب ہی ٹرمپ کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ نائب صدر مائیک پینس کا تعلق ٹرمپ کی پارٹی سے ہے۔ اس کے علاوہ باقی 7-8 دن میں ٹرمپ کیا کر لیں گے؟ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ جوہری ہتھیار کا بٹن صدر کے ہاتھ میں ہے۔ پتہ نہیں وہ کب اور کیسے دبا دیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ کتنے ہی چالاک کیوں نہ ہوں‘ اتنا بڑا احمقانہ کام نہیں کریں گے۔ انہیں پرامن طور پر رخصت ہونے دیں۔
کورونا ویکسین پر تبصرہ
بھارت اس وقت 30 ملین افراد کو ٹیکہ لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اتنی بڑی تعداد تو صرف دو تین ممالک میں ہی ہے۔ آہستہ آہستہ بھارت میں 140 کروڑ افراد بھی کورونا ویکسین حاصل کر سکیں گے۔ یہ انقلابی ویکسی نیشن مکر سنکرانتی کے دن سے شروع ہو گی۔ اس انقلابی ویکسی نیشن کے بارے میں دو تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک تو اپوزیشن اور حکمراں رہنمائوں کے درمیان اور دوسرا ویکسین تیار کرنے والی دو ہندوستانی کمپنیوں کے مابین۔ بھارت بائیوٹیک اور سیرم انسٹی ٹیوٹ‘ دونوں کمپنیوں نے اب ایک دوسرے کی ویکسین کے بارے میں جو تنازعہ کھڑا کیا تھا اس کو حل کر دیا ہے۔ یہ دو ویکسینز دنیا کی سب سے سستی ویکسینز ہوں گی۔ یہ ویکسینز بھارت کے ماحول کے مطابق بھی ہوں گی۔ انہیں منفی 200 یا 300 ڈگری کے سرد درجہ حرارت میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ انہیں محفوظ رکھنے کے لئے‘ حکومت نے ہزاروں کولینٹ پلانٹ تیار کیے ہیں۔ اس ویکسین کو 37 ریاستوں کے 41 ہوائی اڈوں پر بھیجنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہوائی اڈے سے حفاظتی ٹیکوں کو منٹوں میں ائیرپورٹس سے ویکسین سنٹر تک پہنچانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ہر ریاست میں ہزاروں ویکسین مراکز تعمیر ہو رہے ہیں تاکہ بوڑھوں اور کمزور لوگوں کی بھی مناسب خدمت کی جا سکے۔ حکومت کو اس مہم میں اب 13 ہزار‘ 500 کروڑ روپے خرچ کرنے ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت کو لگ بھگ 30 ہزار کولڈ چین‘ 45 ہزار آئس فریج اور 41 ہزار ڈیپ فریزر کا انتظام کرنا پڑے گا۔ یہ ویکسین پہلے بوڑھوں اور بیماروں کو دی جائے گی۔ وزارت صحت بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ درحقیقت‘ یہ مہم کئی وزارتوں کے تعاون سے ہی کامیاب ہو گی۔ یہ مہم تقریباً ویسی ہی ہے‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ جیسا ہمارے ملک میں انتخابات کے دوران ہوتا ہے۔ اس مہم میں اس ملک کے تمام لوگوں کا زیادہ سے زیادہ تعاون ہونا چاہئے‘ لیکن ہمارے اپوزیشن رہنمائوں نے بھی اس قومی خدمت کے معاملے میں تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تیسری آزمائش سے پہلے اس ویکسین کا استعمال خطرناک ہے۔ کیا ہمیں ان کے بیان کو اپنے سائنس دانوں سے زیادہ مستند سمجھنا چاہئے؟ اگر کوئی خطرہ ہے تو اس کا فوراً پتا چل جائے گا اور فوری طور پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔ کچھ لوگ ویکسین کے بارے میں یہ ابہام بھی پھیلا رہے ہیں کہ اس میں سور یا گائے کی چربی ہے اور اس کو لگوانے والا نامرد ہوجائے گا۔ ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ ایسے متنازعہ تبصروں کو نظر انداز کرے اور اس مہم کو کامیاب بنائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں