آج تک کسی بھی امریکی صدر کو اتنی فضیحت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی بھی امریکی صدر کا ڈھائی سو سال کی تاریخ میں مواخذہ نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ سے پہلے تین امریکی صدور کا مواخذہ کیا جا چکا ہے: 1868 میں اینڈریو جانسن، 1974 میں رچرڈ نکسن اور 1998 میں بل کلنٹن کا۔ ان تینوں صدور پر لگائے گئے الزامات کے مقابلے میں ٹرمپ پر عائد کردہ الزام زیادہ سنگین ہے۔ ٹرمپ پر غداری یا بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ امریکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (کانگریس) کے ایوان نمائندگان نے ٹرمپ کے خلاف 197کے مقابلے میں 232 ووٹوں سے مواخذے کی تحریک منظور کی ہے، جس میں ٹرمپ پر امریکی آئین، جمہوریت کا احساس، اور امن کو توڑنے کی منصوبہ بند سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے‘ ٹرمپ اب امریکی آئینی تاریخ میں پہلے ایسے ولن کے طور پر جانے جائیں گے جن کو چار سالوں میں دو بار بے دخل کیا گیا ہے۔ اب یہ تجویز ایوان بالا (سینیٹ) کے پاس جائے گی۔ سینیٹ کے 100 رکنی صدر ہیں ریپبلکن پارٹی کے رہنما اور نائب صدر مائیک پینس! اگر پینس نے اتفاق کیا ہوتا تو مواخذے کے بغیر ٹرمپ کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ امریکی آئین میں 25ویں ترمیم کے مطابق، ٹرمپ کو صرف گزشتہ ہفتے ہی ہٹایا جا سکتا تھا‘ اگر نائب صدر اور آدھی کابینہ‘ دونوں متفق ہو جاتے، لیکن پینس نے اس سنجیدہ اقدام سے انکار کر دیا۔ اب سینیٹ ان کو صرف اسی صورت میں ہٹا سکتی ہے جب اس کے دو تہائی ارکان مواخذے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک سینیٹ کا اجلاس‘ جو 19 جنوری کو ہونا ہے۔ اس سے ایک دن پہلے ٹرمپ کو ہٹانا مشکل ہے، کیونکہ اس معاملے پر بھی بحث ہوگی‘ جبکہ 20 جنوری کو، وہ خود ہی روانہ ہو جائیں گے۔ دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ ٹرمپ کے پاس اب بھی سینیٹ میں 52 اور ڈیموکریٹک پارٹی کے 48 ارکان ہیں جو دو نئے ڈیموکریٹس جیتے ہیں، ابھی تک حلف نہیں اٹھا سکے ہیں، اور 67 ممبروں میں سے ہی دو تہائی اکثریت ہوتی ہے۔ نیز، مائیک پینس آئندہ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی ری پبلکن پارٹی کے سینیٹرز کو ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔ وہ بائیڈن کی حلف برداری کے بعد ہی بے دخل کرنا چاہیں گے تاکہ ٹرمپ دوبارہ مقابلہ نہ کر سکیں اور ریپبلکن پارٹی ان سے جان چھڑا سکے۔ بہت سارے ریپبلکن سینیٹرز اور کانگریسین ٹرمپ کے خلاف کھلے عام بیان دے رہے ہیں۔ امریکی جرنیلوں نے بھی آئین کے تحفظ کے عزم کو دہراتے ہوئے اپنے ارادے کا اظہار کیا ہے۔
دونوں مقابلوں سے پرہیز کریں!
جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں خدشہ ظاہر کیا تھا ‘ حکومت اور کسانوں کے مابین براہ راست تصادم شروع ہو گیا ہے۔ بات چیت کے آٹھویں دور میں جو تلخی بڑھ گئی تھی وہ بھی دونوں فریقوں کے طرزِ عمل میں ظاہر ہے۔ کرنال اور جالندھر جیسے شہروں سے کسانوں اور پولیس کے مابین مڈبھیڑ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دہلی میں پھنسے کسانوں کا صبر بھی اب ٹوٹ چکا ہے اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ بھی توڑ پھوڑ پرآمادہ ہوجائیں۔ یہ اچھا ہوا کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے کرنال کے ایک گاؤں میں منعقدہ کسانوں کی مہاپنچایت کو ملتوی کر دیا۔ اگر وہ مہاپنچایت پر ڈٹے ہوتے تو پولیس کو یقینا گولیاں چلانا پڑتیں اور وہاں شدید خون خرابہ ہوتا۔ کسان تنظیموں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ انہوں نے پنڈال میں لگائی گئی رکاوٹیں توڑ دیں‘ سٹیج کو اکھیڑ دیا اور وہ ہیلی پیڈ بھی خراب کردیا جس پر وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر اترنا تھا۔ اگر کھٹر کی جگہ کوئی دوسرا وزیر اعلیٰ ہوتا تو مجھے نہیں معلوم کہ آج ہریانہ کا کیا حال ہوتا؟ کسانوں کے نام پر کرنال میں جن لوگوں نے بھی جوکچھ کیا ‘ کیا اسے کسانوں کے مفاد میں مانا جائے گا؟ یہ مشکل ہی ہے کیونکہ اب تک گاندھی طرز کے مطابق کسانوں کی تحریک غیر متشدد اور نظم و ضبط کا پابند رہی ہے ‘ لیکن اب اگر اس طرح کے مقابلوں میں اضافہ ہوتا ہے تو کسانوں کا امیج خراب ہو گا۔ اگر کسان رہنما اپنے دھرنے اور بات چیت کے ذریعے اپنا معاملہ پیش کر رہے ہیں تو انہیں حکومت کو بھی اپنا معاملہ پیش کرنے کی اجازت دینی چاہئے۔ جمہوریت میں فریقین اور اپوزیشن کو اپنے خیالات کے اظہار کیلئے یکساں راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ شدید سردی ‘ اموات اور خودکشیوں کی وجہ سے کسان بے چین ہو رہے ہیں لیکن بات چیت کے ذریعے ہی کوئی راستہ تلاش کرنا بہتر ہے۔ مگر یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ حکومت ضد پر کیوں اڑی ہوئی ہے؟ جب تک راستہ نہ نکلے اس قانون کو ملتوی کیوں نہیں کر دیا جاتا یا ریاستوں کو اس پر عمل درآمد کرنے کی چھوٹ کی اجازت کیوں نہیں دے دیتی؟
کورونا کا ٹیکہ پہلے نیتا لگوائیں
کورونا کا ٹیکہ ملک کے لوگوں کو کیسے مہیا کیا جائے گا اس کیلئے مرکز کی وزارتِ صحت مکمل انتظام کررہی ہے لیکن ٹیکے کے بارے میں طرح طرح کے تصورات بھی سامنے آرہے ہیں۔ کئی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں بنے اس ٹیکے کاویسا ہی بھر پور ٹرائل نہیں ہواہے جیسا کہ کچھ مغربی ممالک کے ٹیکوں کا ہواہے۔اسی لئے کروڑوں لوگوں کویہ ٹیکہ آناً فاناً کیوں لگوایا جارہا ہے ؟ بھوپال میں ایک ایسے شخص کی موت کو بھی اس دلیل کی بنیاد بنایا جارہا ہے ‘ جسے ویکسین ٹیسٹ کاٹیکہ دیاگیا تھا۔ متعلقہ ہسپتال نے وضاحت کی ہے کہ اس مریض کی موت کی وجہ یہ ٹیکہ نہیں کچھ دیگرامراض ہیں۔ کچھ غیرمتفق سائنس دانوں کا یہ ماننا بھی ہے کہ ابھی تک یہی ویری فائی نہیں ہوا ہے کہ کسی کو کورونا مرض ہوا ہے یا نہیں؟ اس کی جانچ پر بھی بھرم بناہوا ہے۔ کس مریض کو کتنی دوا دی جائے وغیرہ سوالوں کابھی ٹھوس جواب دستیاب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں 30 کروڑ لوگوں کو بھارتی ساختہ ٹیکہ دینے کی بات خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے کچھ ہفتوں سے کورونا کا قہر کافی کم ہوگیا ہے۔ ایسے میں سرکار کو اتنی جلدی کیا پڑی تھی کہ اس نے اس ٹیکے کیلئے ایمر جنسی مہم چلانے کا اعلان کردیا ہے؟ کچھ اپوزیشن نیتاؤں نے الزام لگایا ہے کہ سرکار یہ ٹیکہ مہم اس لئے چلارہی ہے کہ ملک کی گرتی ہوئی معیشت اور کسان آندولن سے عوام کا دھیان ہٹانا چاہتی ہے۔اپوزیشن نیتاایسا الزام نہ لگائیں تو پھر وہ اپوزیشن والے کیسے کہلائیں گے‘ لیکن ٹیکے کے بارے میں ہمارے سائنس دانوں پر ہمیں بھروسا ضرور کرنا چاہئے۔ روس اور چین جیسے ملکوں میں ہم سے پہلے ہی ویکسین مہم شروع ہوگئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں ٹیکے کو منظوری تبھی ملی ہے جبکہ اس کے پورے ٹرائل ہوگئے ہیں لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ ان ممالک میں بھارت کے مقابلے کورونا زیادہ پھیلا ہوا ہے جبکہ ان کی صحت کی سہولتیں ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ ہمارے یہاں کورونا اتار پرتو ہے ہی ‘ اس کے علاوہ ہمارے آیورویدک اور حکیمی کاڑھے بھی بڑے چمتکاری ہیں۔ اسی لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ٹیکے کے کچھ غلط نتائج دکھائی دیں گے تو اسے فوراً روک دیا جائے گا لیکن لوگوں کا ڈردور ہو اس کیلئے کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ 16جنوری کو سب سے پہلا ٹیکہ ہمارے راشٹرپتی اورپردھان منتری آگے ہوکر لگوائیں۔ جب امریکہ کے بائیڈن‘ برطانیہ کی ملکہ اور پوپ بھی تیار ہیں تو ہمارے نیتا بھی پیچھے کیوں رہیں ؟