"DVP" (space) message & send to 7575

چھت بھی گری اور عزت بھی

غازی آباد کے مراد نگر شمشان میں چند روز قبل ایک چھت گرنے سے 25 سے زائد افراد ہلاک اور ایک سو کے قریب بری طرح زخمی ہو گئے۔ یہ چھت 100‘ 150 سال پرانی نہیں تھی‘ یہ انگریزوں نے تعمیر نہیں کی تھی‘ اسے بنائے ہوئے ابھی صرف دو ماہ ہوئے تھے۔ یہ ایک نئی چھت تھی‘ پرانا پل نہیں تھا جس پر بہت بھاری ٹینک تھے اور جس کی وجہ سے یہ بیٹھ گیا ہو۔ میری یاد میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ ہے جس میں بہت سے لوگوں کی موت ہوئی اور وہ بھی شمشان میں۔ لاشوں کو پوری دنیا میں قبرستان یا شمشان لے جایا جاتا ہے لیکن ان لاشوں کو مراد نگر کے شمشان سے گھر لایا گیا۔ سارا حادثہ دل دہلا دینے والا تھا‘ اس کا اندازہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کی خبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک شخص جس کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں اُس کا بیٹا اور بہت سے عزیز و اقارب بھی اس حادثے کا نشانہ بن گئے۔ ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ انہیں باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کی آخری رسومات بھی ادا کرنا پڑیں گی۔ اس حادثے میں جو نہیں مرے‘ ان کے سر پھٹ گئے‘ بازو اور پیر ٹوٹ گئے اور یہ کہنا بہتر ہو گا کہ وہ زندہ رہتے ہوئے بھی مرتے رہیں گے۔ اتر پردیش حکومت نے مرنے والوں کو دو دو لاکھ روپے دیے ہیں۔ اگر کسی کنبے کا کمانے والا سربراہ چلا گیا تو کیا ایک ہزار روپیہ مہینے میں اس کا گھر چل جائے گا؟ دو لاکھ میں اس کے کنبے کا کیا ہو گا؟ حکومت ہر خاندان کو کم از کم ایک کروڑ روپے دے۔ مراد نگر کی میونسپل کارپوریشن نے شمشان گھاٹ کی چھت تعمیر کی تھی‘ 55 لاکھ روپے سرکاری رقم سے بنی یہ چھت دو ماہ کے اندر ہی گر گئی۔ اس چھت کے ساتھ ساتھ کیا ہمارے قائدین اور افسران کی عزتیں بھی دب نہیں گئیں؟ چھت بنوانے والے ٹھیکیدار‘ انجینئر اور ذمہ دار رہنما کو کم سے کم دس سال قید کی سزا دی جائے‘ ان کے ذاتی اثاثے ضبط کئے جائیں‘ ان کو معطل کر دیا جائے اور ان کا پروویڈنٹ فنڈ اور پنشن روک دی جائے۔
واٹس ایپ مشکل میں
آج کل‘ دنیا کے لاکھوں لوگ واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ بھی مفت! لیکن گزشتہ دنوں‘ لاکھوں افراد اس کے بجائے سگنل، ٹیلی گرام اور بوٹم جیسی ایپس میں پناہ لے چکے ہیں اور اگر یہی سلسلہ کچھ مہینوں تک جاری رہا تو لاکھوں افراد واٹس ایپ سے منہ موڑ لیں گے۔ خدشات لاحق ہیں کہ واٹس ایپ کی مالک کمپنی فیس بک نے ایک نئی پالیسی بنائی ہے جس کے مطابق فیس بک یہ دیکھ سکے گا کہ واٹس ایپ سے کون سا میسج بھیجا جا رہا ہے‘ یعنی وہ رازداری جو واٹس ایپ کی جان تھی ختم ہونے والی ہے۔ یہ واٹس ایپ کی سب سے بڑی خصوصیت تھی اور جیسے ہی آپ اسے کھولتے ہیں آپ کو یہ پڑھنے کو مل جاتا ہے کہ آپ کی گفتگو یا پیغام کا ایک لفظ بھی کوئی اور نہیں سن سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے بڑے رہنما بھی ایک دوسرے سے یا مجھ جیسے لوگوں سے اگر کھل کر بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ خود واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ یہ رازداری دہشت گردوں‘ قاتلوں‘ چوروں‘ ڈاکوؤں‘ شر پسندوں اور کرپٹ سیاست دانوں اور افسران کیلئے باعث سہولت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے غلط استعمال کے خلاف بھارتی حکومت ایک پرسنل ڈائیلاگ ڈیفنس ایکٹ لا رہی ہے جو ذاتی آزادی اور رازداری کی حفاظت کرے گی لیکن وہ آئین مخالف مکالمے یا پیغام کو پکڑ سکتی ہے۔ واٹس ایپ پر صحت سے متعلق رپورٹیں‘ سفر اور ہوٹل کی تفصیلات اور کاروباری لین دین کے پیغامات بھیجنے کیلئے ابھی بھی کھلا نظام موجود ہے۔ فیس بک چاہتی ہے کہ وہ واٹس ایپ کی تمام معلومات کو استعمال کر سکے تاکہ وہ اس سے کروڑوں روپے کما سکے اور دنیا کے بڑے لوگوں کی خفیہ معلومات کا خزانہ بھی بن سکے۔ واٹس ایپ کو یہ نیا سسٹم آٹھ فروری سے شروع کرنا تھا لیکن لوگوں کے احتجاج اور غصے کے پیش نظر اب اس نے 15 مئی تک اسے آگے بڑھا دیا ہے۔ فیس بک کو 19 ارب ڈالر میں واٹس ایپ کی ملکیت ملی ہے۔ وہ اس میں ضرب لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کو پلٹنا مشکل ہے‘ لیکن یورپی یونین کی طرح بھارت کا قانون بھی اتنا آسان ہونا چاہئے کہ شہریوں کی رازداری کو مکمل طور پر محفوظ کیا جا سکے‘ لیکن میرا اپنا ماننا ہے کہ وہ لوگ جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ان کیلئے رازداری کوئی چیز نہیں ہے۔ انہیں فیس بک سے کیوں ڈرنا چاہئے؟
بھارتی تارکینِ وطن
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 18 ملین بھارتی دنیا کے مختلف ممالک میں ہجرت کر رہے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی تعداد دو کروڑ ہے تو یہ زیادہ درست ہو گا کیونکہ فجی سے سورینام تک پھیلے ہوئے 200 ممالک میں بھارتی نسل کے لاکھوں افراد گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے مقیم ہیں۔ چونکہ ٹریفک کی سہولیات میں اضافہ ہوا ہے اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو چھوٹا کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے تارکین وطن کی تعداد تقریباً تمام ممالک میں خاصی بڑھ گئی ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں 27 کروڑ غیر ملکی شہری آباد ہیں۔ بھارت سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ 50 سال پہلے‘ جب میں نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا‘ تب میں کسی بھارتی کو نیو یارک جیسے بڑے شہر میں کہیں دیکھتا تو میرا سینہ پھول جاتا۔ میں کسی سے ہندی میں بات کرنے کے لئے بے تاب رہتا تھا‘ لیکن اب آپ امریکہ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی بھارتی نژاد لوگوں سے ٹکرا سکتے ہیں۔ ابوظہبی اور دبئی تو اب ایسے لگتے ہیں جیسے وہ بھارتی شہر ہوں۔ متحدہ عرب امارات میں اس وقت ساڑھے تین لاکھ بھارتی‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ستائیس لاکھ اور سعودی عرب میں ڈھائی لاکھ بھارتی آباد ہیں۔ دنیا کے کسی بھی براعظم میں جائیں‘ آسٹریلیا سے ارجنٹائن تک آپ کو بھارتی لوگ کہیں بھی نظر آ جائیں گے۔ گزشتہ 20 سالوں میں ایک کروڑ بھارتی بیرون ملک آباد ہوئے ہیں۔ اکثر تعلیم یافتہ افراد امریکہ‘ یورپ اورمشرقی ممالک اور عرب ممالک میں محنت کش افراد جاتے ہیں۔ ویسے بھی‘ ان بھارتیوں کی مالیت سالانہ پانچ لاکھ کروڑ ہے جو بھارت بھیجتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے صوبہ کیرالہ میں خوشحالی ہے۔ بیرون ملک مقیم بھارتی وہاں کی ثقافت سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن بھارتی ثقافت ان کی رگوں میں ہے۔ وہ بھارت میں نہیں رہتے لیکن بھارت ان میں رہتا ہے۔ وہ ان ممالک کے عوام کے لئے بہتر طرز زندگی کے نظریات پیش کرتے ہیں۔ امریکہ میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں رہنے والے بھارتی لوگ ایک گروہ کے طور پر تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ ہیں۔ اگر یہ لوگ بھارت واپس جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر امریکہ کے لیے اس سے مسائل ہو سکتے ہیں۔ 20 سال پہلے میں نے لکھا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب امریکہ کے صدر بھارتی نژاد شخص ہوں گے۔ کملا ہیرس اس مقصد کو پہنچ چکی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں