کسان رہنمائوں اور وزرا کے مکالمے سے امید پیدا ہوئی تھی کہ بھارت کا یومِ جمہوریہ یومِ تخریب میں نہیں بدلے گا‘ صورتحال یہ رہی کہ ہزاروں کسان راستے میں رکھی گئی مختلف نوعیت کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی ٹریکٹروں سمیت دارالحکومت نئی دہلی میں داخل ہو گئے۔ پولیس کسانوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے جگہ جگہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرتی رہی‘ لیکن کسان پھر بھی آگے بڑھتے چلے گئے اور پتا چلا ہے کہ کسانوں کا ایک ہجوم لال قلعہ تک بھی پہنچ گیا تھا۔ بھارت کے یومِ جمہوریہ پر نئی دہلی میں جو کچھ ہوا اس سے قطع نظر ہمارے کسانوں نے اپنی عدم تشدد کی تحریک کے ذریعے دنیا کے سامنے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ دنیا کے سفارت کاروں کی طرح سمجھ دار اور متحمل مزاج ہیں۔ مذاکرات کے ایک درجن ادوار کے بعد آخر کار حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ان زرعی قوانین کو ایک ڈیڑھ سال کے لئے روک دے گی اور مشترکہ کمیٹی کے تحت ان پر غور و خوض کرے گی۔ یہ اچھی بات ہے کہ حکومت عدالت پر منحصر نہیں ہے۔ اب جو کمیٹی تشکیل دی جائے گی وہ یک طرفہ نہیں ہو گی۔ اس میں کسانوں کی شرکت بھی برابر ہو گی۔ اب پارلیمنٹ میں بھی زور دار بحث ہو گی۔ میرے خیال میں کسانوں کو حکومت کی اس تجویز کو خوشی سے قبول کرنا چاہئے۔ یہ کسان تحریک خود میں مودی سرکار کے لئے ایک سنجیدہ سبق ہے۔ اس وقت، حکومت نے جو درمیانی راستہ اختیار کیا ہے‘ وہ بہت ہی عملی ہے۔ اگر کسان اسے مسترد کر دیتے ہیں تو وہ خود کو بہت پریشانی میں ڈال لیں گے۔ پچھلے 60 دنوں میں بھی، انہیں معلوم ہوا ہے کہ تمام مخالف جماعتوں کے زور لگانے کے باوجود یہ تحریک صرف پنجاب اور ہریانہ تک ہی محدود رہی ہے۔ وہ لوگ جن کا کسانوں سے مکمل اتفاق ہے‘ چاہتے ہیں کہ وہ اس موقع کو کھسکنے نہ دیں۔ باہمی مشاورت کے بعد بنائے جانے والے قوانین ایسے ہونے چاہئیں جو ہندوستان کو دنیا کا سب سے بڑا کھانے پینے کی اشیا کا بادشاہ بنا دیں اور کسانوں کی اوسط آمدنی کو ہندوستان کے متوسط طبقے کے برابر بنا دیں۔ یاد رہے کہ آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) مہاراشٹرا یونٹ کے بینر تلے جمع ہوئے ہیں۔ یہ ریلی مشترکہ کسان مورچہ (ایس کے ایم) کے ذریعے دی گئی کال کا ایک حصہ ہے، جو دہلی کے مظاہروں کی قیادت کر رہی ہے، تاکہ جدوجہد کو مزید تیز کیا جا سکے اور اسے وسعت دی جا سکے۔ گاڑیوں کے جلسے میں حصہ لینے والے کسانوں نے 24 جنوری کو آزاد میدان میں تبادلہ کیا اور تین روزہ دھرنا شروع کیا۔ بی بی سی کے مطابق انڈیا کے کسان حکومت کی جانب سے بنائے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ چھ ماہ سے احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ یہ احتجاج دلی کے نواح میں تین مختلف مقامات پر جاری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں کسان اور ان کے خاندان شریک ہیں۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ بھارتی حکومت ان متنازع قوانین کو واپس لے جن سے کسانوں کا استحصال ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان قوانین کے بعد کسانوں اور کاشت کاروں کو خدشہ ہے کہ ان سے انہیں اپنے اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں مل سکیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اب دیکھئے کسانوں کا یہ احتجاج آئندہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔
کابل: بائیڈن جلدی نہ کریں!
امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ‘ جس نے ابھی چند روز پہلے ہی کام شروع کیا ہے‘ کا کہنا ہے کہ وہ سابق صدر ٹرمپ اور طالبان کے درمیان طے ہوئے افغان امن معاہدے کا جائزہ لے گی۔ اس حوالے سے امریکی صدارتی دفتر کی ترجمان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہائوس اس بات کی یقین دہانی کرنا چاہتا ہے کہ افغان طالبان ملک میں تشدد میں کمی اور دہشت گرد عناصر سے اپنے تعلقات ختم کرنے سمیت اس معاہدے کے تحت کیے گئے 'اپنے وعدوں کی پاس داری کر رہے ہیں‘۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اس جائزے کی تصدیق کے لیے افغان حکام سے بات کی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ سال فروری میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی عالمی سطح پر تعریف کی گئی تھی، لیکن پھر بھی میرے جیسے لوگوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا، اس لئے کہ اس کا حصول مشکل تھا‘ لیکن ٹرمپ جیسے سنکی شخص نے اسے یعنی معاہدے کو برقرار رکھا تھا‘ اس امید پر کہ وہ صدارتی انتخابات سے قبل ہی امریکی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں گے تاکہ رائے عامہ ان کے حق میں ہموار اور استوار ہو سکے اور الیکشن میں ان کی کامیابی یقینی بن جائے۔ انہوں نے اسے اپنا انتخابی مسئلہ بھی بنا لیا تھا۔ امریکی ووٹر کیلئے یہ خوشی کی بات تھی کہ امریکی فوجیوں کے تابوت کابل سے نیو یارک آنا بند ہو گئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ طالبان نے پچھلے ایک سال میں بہت کم امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا اور اسی طرح امریکی فوجی بہت کم ہلاک ہوئے ہیں، لیکن افغانستان کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں طالبان نے پچھلے ایک سال میں پُر تشدد کارروائیاں نہیں کیں اور خوف و ہراس نہیں پھیلایا‘ خون نہیں بہایا؟ کابل، قندھار، ہرات، جلال آباد، ہلمند، نیمروز۔ انہوں نے کون سا علاقہ چھوڑا ہے۔ اب تک وہ قریب ایک ہزار افراد کو ہلاک کر چکے ہیں۔ ان میں افغان فوجی اور پولیس، طلبہ، کسان، تاجر، سیاست دان اور سرکاری اہلکار شامل ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے 80 فیصد سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ حکومت کی طرح، وہ بھی ٹیکس جمع کرتے ہیں، عوام پر حکمرانی کرتے ہیں اور وہ کابل کی منتخب حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی کہتے ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت بھی مجبور ہے۔ اسے دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کو مجبوراً قبول کرنا پڑا۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکی اور نیٹو فوجوں کی واپسی کے بعد ان کی حکومت کا باقی رہنا مشکل ہے۔ اقتدار ملنے پر طالبان اسلامی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے بہت سے دھڑے آج بھی آپس میں برسرِ پیکار ہیں۔ ان گروپوں میں مقابلہ زوروں پر ہے۔ ہر گروپ دوسرے گروپ کو مسترد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کابل اور واشنگٹن کے مابین کسی بھی معاہدے پر عمل درآمد مشکل ہے۔ اس وقت، مجھے صرف ایک ہی آپشن نظر آتا ہے یعنی، تمام افغان قبائل کی ایک بڑی پارلیمنٹ (لویا جرگہ) طلب کی جانی چاہئے اور اسے جمہوری انتخابات کے ذریعے کابل میں ایک ورکنگ حکومت اور پھر جمہوری حکومت تشکیل دینی چاہئے۔ دریں اثنا، بائیڈن انتظامیہ کو صبر کرنا چاہئے اور فوج کابل سے نکالنے میں جلدی نہیں کرنا چاہئے۔ ٹرمپ کی طرح، وہ بھی جلد بازی کے متعلق اعلانات سے گریز کریں، یہ کہ ان کے افغانستان کے اور پورے جنوبی ایشیا کے لئے بھی فائدہ مند ہو گا۔