کسان تحریک‘ جو 25 جنوری تک بھارتی جمہوریت کی شان میں اضافہ کر رہی تھی، اب غم و شرم کی ایک وجہ بن گئی ہے۔ 26 جنوری کو جو ہوا سو ہوا، لیکن اس کے بعد حکومت کو کسان رہنمائوں کے ساتھ دوبارہ بات چیت کا آغاز کرنا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس کسان رہنمائوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ ایسا کرنے والے یہ بھول گئے کہ متعدد نامور کسان رہنمائوں نے لال قلعے پر فرقہ وارانہ پرچم لہرانے اور پولیس اہلکاروں کی پٹائی کرنے والے شرپسندوں کی سخت سرزنش کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کسانوں کی حمایت میں پارلیمنٹ سے صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔ اگر اپوزیشن والے اقتدار میں ہوتے تو شاید وہ بھنڈرانوالہ واقعہ کی یاد تازہ کر دیتے۔ بھارت کی کمزور اور منقسم اپوزیشن اس وقت حکمران جماعت سے بھی بہتر کردار ادا کر سکتی تھی۔ اپوزیشن والے کسانوں اور حکومت کے مابین غیر جانبدار ثالث بن سکتے تھے۔ وہ کسانوں کو دھرنے سے دستبردار ہونے‘ گھر واپس جانے اور انہیں یقین دلانے کے لئے کہہ سکتے تھے کہ وہ اب پارلیمنٹ میں ان کی لڑائی لڑیں گے، لیکن وہ کسانوں کے چولہے پر اپنی روٹیاں سینکنے پر آمادہ ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ اب کسان تحریک ہمارے مایوس سیاسی رہنمائوں کے لئے امید کی کرن بن کر ابھرے گی۔ انہیں بیانات دینے اور فوٹو چھپوانے کے مواقع ملیں گے۔ وہ بڑے پیمانے پر تشدد پسند کریں گے، لوگ مریں گے اور حکومت بدنام ہو گی۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کسانوں کے دھرنے کے مقام پر کسانوں اور مقامی دیہاتیوں کے مابین زبردست جھڑپیں ہوئی ہیں۔ مقامی گائوں والے اپنے راستے اور کام رکنے پر ناراض ہیں۔ کون انہیں کسانوں کے خلاف اکسا رہا ہے؟ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ آگے بڑھیں اور کسان قائدین کے ساتھ دوبارہ بات چیت کا آغاز کریں۔
بجٹ اچھا ہے لیکن انقلابی نہیں!
میں نے چند روز پہلے لکھا تھا کہ ملک کا وہ بجٹ مثالی بجٹ ہو گا، جس میں ملک کے تمام 140 کروڑ عوام کے لئے کم سے کم روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور میڈیکل کا انتظام ہو۔ قوم کا تصور ایک کنبے کی طرح ہو۔ اس کسوٹی پر کسی بھی طرح کا بجٹ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کے اعلیٰ قائدین کے دل میں عزم مصمم ہو، لیکن وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے موجودہ حالات میں ایسا بجٹ پیش کیا ہے، جس کی بہت ساری بنیادوں پر تعریف کی جا سکتی ہے؛ تاہم یہ بات بھی ماننا ہو گی کہ اس بار انہوں نے ایسی کوئی شقیں نہیں دہرائیں جو کم و بیش ہر بجٹ میں دہرائی جاتی ہیں جیسے انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، کورونا ٹیکس اور بہت سے دوسرے چھوٹے ٹیکس کہ ان میں نہ تو اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کمی واقع ہوئی ہے۔ ملک کے 6-7 کروڑ انکم ٹیکس ادا کرنے والے سوچ رہے تھے کہ اس بار ٹیکس میں کمی آئے گی تاکہ لوگوں کے ہاتھوں میں ہونے والے اخراجات کے لئے رقم بڑھ جائے۔ اگر چیزوں کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو، پیداوار میں بھی اضافہ ہو گا۔ شکر ہے کہ اس بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے ہیں۔ حکومت اس سال تقریباً 35 لاکھ کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ یہ خرچ کس طرح پورے کئے جائیں گے؟ اس کے لئے سرکاری اراضی، کارخانے، مالیاتی تنظیمیں، سرکاری کمپنیاں وغیرہ بیچنا پڑیں گی۔ دو سرکاری بینک بھی جائیں گے۔ در حقیقت، صرف وہی تنظیمیں بیچی جائیں گی، جو ناکارہ اور نقصان میں ہیں اور حکومت ان کو چلانے سے قاصر ہے۔ وہ اپنی گرفت سے دو بینک باہرکرے گی۔ انشورنس کمپنیوں میں غیر ملکی سرمائے کی 74 فیصد سرمایہ کاری کی اجازت ہو گی۔ اگر حکومت یہ سب نہ کرتی اور براہ راست یا بلا واسطہ عوام پر بوجھ ڈالتی تو کیا ہوتا؟ یہ ٹھیک ہے کہ وہ سڑکوں کی تعمیر اور ریلوے میں زیادہ سرمایہ لگائے گی تو اس سے روزگار میں اضافہ ہو گا، لیکن سال بھر ڈیڑھ کروڑ بے روزگار لوگوں کا پیٹ کیسے بھرا جائے گا؟ فی کس اجرت میں منریگا (Mahatma Gandhi Employment Guarantee Act 2005) کی رقم میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، بلکہ اس کے اخراجات بھی 1.15 لاکھ کروڑ سے گھٹ کر 73000 کروڑ ہو گئے ہیں۔ اسی طرح پی ایم ہائوسنگ سکیم کا خرچ 40500 کروڑ سے 27500 کروڑ ہو گیا ہے‘ اور کسانوں کی امداد بھی اب 75000 کروڑ سے کم ہو کر 65000 کروڑ رہ گئی ہے۔ ابھی سٹاک مارکیٹ اچھال لے رہی ہے، کیا یہ لوگوں کی بدحالی میں اضافہ نہیں کرے گی تاکہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں اور اپنے پیسوں کی سرمایہ کاری کریں؟ صحت کی دیکھ بھال کے بجٹ میں اضافہ قابل تحسین ہے، لیکن وقت ہی بتائے گا کہ دیہات اور قصبوں میں لوگوں کو کورونا کے بعد کتنا فائدہ ملے گا۔ اس بجٹ سے زراعت کتنی ترقی کرے گی یہ بھی ایک تخمینہ ہے۔ مجموعی طور پر بجٹ اچھا ہے لیکن اسے انقلابی یا تاریخی یا غیر معمولی کہنا مشکل ہے۔
بھارتی کورونا ویکسین
یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارت کو کسی قدر فخر ہو سکتا ہے کہ کورونا کی جنگ میں، وہ عالمی سطح پر ایک ہمدرد جاں باز ثابت ہو رہا ہے۔ پچھلے ہفتے، جب میں نے لکھا تھا کہ ہندوستان میں بنائی جانے والی دو کورونا ویکسینیں اس کے عالمی امیج کو روشن کریں گی، تو ایک یا دو اپوزیشن رہنمائوں نے محسوس کیا کہ میں بلا وجہ حکومت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں۔ دراصل یہ کریڈٹ حکومت کو نہیں، بھارت کو جاتا ہے۔ بھارتی سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کو کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن اس کا سہرا خود ہی حکومت کے سر سج جاتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک، پچھلے ایک ہفتے میں جتنے لوگوں کو یہ ویکسین ملی، کسی بھی ملک کے عوام کو اتنے کم وقت میں نہیں ملی ہو گی۔ یہاں تک کہ امریکہ کے عوام، یورپی ممالک اور چین کے عوام کو بھی نہیں۔ کس ملک میں لوگوں نے پہلے 6 دن میں 10 لاکھ افراد تک یہ ویکسین حاصل کی ہے؟ کیا یہ ممکن تھا‘ اگر حکومت پہلے ہی سینکڑوں ویکسین مراکز اور ہزاروں صحت کارکن تعینات نہ کرتی؟ ہماری ویکسین کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں سب سے سستی اور قابل رسائی ہے۔ دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں اس ویکسین کی قیمت 7 سے 10 ہزار روپے ہے۔ اگر اس کی اہمیت ہے تو یہ کہ بھارت میں اس کی قیمت 250 یا 300 روپے ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ صحت کے کارکنوں کے لئے مفت ہے۔ حکومت اس تجویز پر بھی غور کر رہی ہے کہ 30 کروڑ بزرگ اور معذور افراد کو یہ ویکسین مفت فراہم کی جائے۔ اس ویکسین کے ذریعے دنیا میں بھارت کی شبیہ میں چار چاند لگے ہیں۔ بھارت نے ایسے پڑوسی ممالک میں لاکھوں ویکسینز بھیج دی ہیں، جن کے رہنما اب بھی چین کی داڑھی سہلا رہے ہیں۔ ان کے شہری بھی بھارتی ویکسین لے کر اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں گے۔ ان سے ہی پوچھیں کہ ان کے بھارت کے بارے میں کیا احساسات ہوں گے؟ یہ ویکسین نہ صرف ہمسایہ ممالک‘ ماریشیئس اور سیشلز بلکہ برازیل، مراکش اور افریقی ممالک تک بھی پہنچ رہی ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ پاکستان کو بھی یہ ویکسین مل جائے۔ امریکہ اور چین اپنے آپ کو سپر پاور کہہ سکتے ہیں، لیکن کورونا کے دوران، بھارت ایک ہمدرد سپر پاور کے طور پر ابھر رہا ہے۔