"DVP" (space) message & send to 7575

کسان اور بھارتی حکومت

کسانوں کی پہیہ جام ہڑتال پر امن طریقے سے مکمل ہوئی اور 26 جنوری جیسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ یہ انتہائی قابلِ تعریف ہے۔ اترپردیش کے کسان رہنماؤں کے نظم و ضبط سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ 26 جنوری کو لال قلعہ جیسے واقعے کے لیے کسان نہیں بلکہ کچھ اور عناصر ذمہ دار تھے۔جہاں تک کسانوں کی اس تحریک کا تعلق ہے تو اسے تسلیم کرنا ہوگا کہ اس میں تین بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ کسان تحریک اب پنجاب اور ہریانہ کے ہاتھوں سے پھسل کراتر پردیش کے مغربی حصے کے جاٹ قائدین کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ راکیش ٹکیت کے آنسوو ٔں نے اس کا سکہ جمادیا ہے۔ دوسری بات ‘ اس پہیہ جام کا دہلی سے باہر برائے نام اثر پڑا ہے۔ ہندوستان کاعام آدمی اس تحریک سے دورہے۔اس کا اثر پنجاب ‘ ہریانہ اور مغربی یوپی تک محدودہے۔ یہ ابھی تک ہندوستان کے عام اور چھوٹے کسانوں میں نہیں پھیل سکا۔ تیسرا ‘ اب اس کسان تحریک میں سیاست مکمل طور پر داخل ہوچکی ہے۔ اپوزیشن کے بہت سے چھوٹے رہنما بھی پہیہ جام میں کھلے عام شامل ہیں اور جہاں بھی دہلی سے باہر مظاہرے ہوئے ہیں ‘ اپوزیشن جماعتوں نے ان کی سرپرستی کی ہے۔ بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اپنی کند بندوقوں کے لیے کسانوں کے کندھوں کاسہارامل گیاہے۔کسانوں کے حق میں تقریریں ‘ جو پارلیمنٹ اور ٹی وی پر سنی گئیں یا اخبارات میں پڑھیں ‘ پتا نہیں ان کے دلائل کیا ہیں۔ وہ ابھی تک اپنے دلائل کو منطقی انداز میں پیش نہیں کرسکے ہیں۔ وزیر زراعت نریندر تومر نے پارلیمنٹ میں تقریباً ًٹھیک ہی کہا ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں بتا پایا کہ ان تینوں زرعی قوانین میں کیا ''کالا‘‘ ہے۔ جس طرح حکومت ابھی تک ان قوانین کے فوائد کاشت کاروں کو عقلی طور پر بیان نہیں کر سکی ہے ‘ اسی طرح کسان بھی اپنے نقصانات عام لوگوں کو نہیں بتاسکے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ‘ حکومت اور کسانوں کا یہ مقابلہ آج کل جاری ہے۔ اگر اس میں کوئی بہت بڑا تشدد اور ردعمل ہوتا ہے تو اس سے ملک کو بہت نقصان ہوگا۔ میں نے اسے روکنے کا آسان ترین طریقہ کئی بار تجویز کیا ہے۔ مرکزی حکومت ریاستوں کو ان قوانین کو ماننے کی اجازت کیوں نہیں دیتی ہے؟ پنجاب ‘ ہریانہ اور مغربی یوپی کے مالدار کسانوں کا مطالبہ پورا ہوجائے گا‘ ان کے لیے یہ تینوں قوانین ختم ہوجائیں گے۔ یہ قوانین کسانوں کے لیے بنائے گئے ہیں یا دھنا سیٹھ کے لیے ‘ اگلے دو تین سالوں میں دیگر ریاستوں سے آئے اس کے نتیجہ سے پتا چل جائے گا۔
چوری چورا: یہ کیسی نوٹنکی؟
جب میں نے اخباروں میں پڑھا کہ گورکھپور کے چوری چورا سانحے کی صد سالہ تقریبات منائی جائیں گی ا ور وزیر اعظم نریندر مودی اس کا افتتاح کریں گے تو میرا من جوش سے بھر گیا۔ میں نے سوچا کہ4فروری 1922ء یعنی ٹھیک100سال پہلے چوری چورا نامی گاؤں کے خوفناک المیے کا مودی حو الہ دیں گے اور کسانوں سے وہ کہیں گے کہ جیسے گاندھی جی نے اس واقعے کی وجہ سے اپنی تحریک ختم کر دی تھی ‘ ویسے ہی کسان بھی اپنی ہڑتال ختم کریں ‘ کیونکہ لال قلعے پر مذہبی جھنڈا لہرانے کے واقعے سے لوگ خوش نہیں ہوئے۔لیکن ہوا کچھ الٹا ہی۔ مودی نے ان مظاہرین کی تعریف کے پل باندھے جنہوں نے 22 پولیس والوں کو زندہ جلا کر مارڈالا تھا۔ اس سنگین جرم کی وجہ سے 19 آدمیوں کو پھانسی ہوئی تھی اور تقریباً سو لوگوں کو عمر قید۔ گاندھی جی نے اس ہجوم کی تخریب کاری کی سخت مذمت کی تھی ‘ لیکن مودی نے ان لوگوں کی یاد میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے صد سالہ جشن کی شروعات کردی۔ اپنی پوری تقریر میں مودی نے گاندھی جی کا ایک بار نام تک نہیں لیا۔گورکھپور کے مہنت اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے بھی مودی کو محتاط کرنے کی بجائے اس تقریب کو اتر پردیش کے تمام اضلاع میں منانے کا اعلان کردیا۔مجھے حیرانی ہے کہ اس گاندھی مخالف اور بدنام کام کو عوامی شکل دینے کی صلاح کس نوکر شاہی یا کس سماجی کارکن نے ان نیتاؤں کو دے دی ؟ کیا اس تقریب کا پیغام ملک بھر میں یہ نہیں جائے گا کہ کسی کو بھی زندہ جلا دینا ٹھیک ہے؟ مودی سرکار اسے غلط نہیں سمجھتی ہے۔چوری چورا میں تو 22 پولیس والوں کو زندہ جلایا گیاتھا یعنی اب کھسیائے ہوئے کسان اگر کوئی ایسی حرکت کرڈالیں تو کیاان کی بھی تعریف ہوگی؟اگر لال قلعہ پرکسی نا سمجھ لڑکے نے ترنگے کی بجائے اور جھنڈا لہرا دیا ہے تو کیا یہ سنگین معاملہ نہیں ہے؟ کسان تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ نوٹنکیاں ہماری سرکار نے رچائیں‘ یہ فطری ہی ہے ‘ لیکن سال بھر چلنے والی یہ نوٹنکی ہماری زوال پذیر موجودہ معیشت پر کروڑوں روپے کا بوجھ بڑھادے گی اور بھاجپائی سرکاروں کو بدنام بھی کردے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے زیادہ تر نیتاؤں کو پڑھنے لکھنے کا وقت نہیں ہوتا اور ان سے تاریخ دان ہونے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی لیکن ان سے یہ امید تو ضرور کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کی نوٹنکیوں کی جب بھی کوئی تجویز ان کے سامنے لائی جائے تو وہ دانشوروں اور ماہرین سے نرمی سے مشورہ ضرور کریں تاکہ وہ تاریخ میں بدنام اور ناکام دکھائی نہ دیں۔
'' ہماری لنگڑی جمہوریت ‘‘
بھارت میں سیکولر جمہوریت کی حالت کیا ہے اس مدعے پر ہمارے ملک میں اور دنیا میں آج کل بحث تیز ہو گئی ہے اور اس بحث کو دھار دے دی ہے کسان تحریک نے۔ اس سے پہلے شہریت قانون ‘ دفعہ 370‘ ہندو ہجوم کی جانب سے اقلیتوں کا قتلِ عام اور اقلیتوں میں ڈر پیدا کرنا وغیرہ معاملوں کو لے کر بھارت کے بارے میں یہ کہا جانے لگا تھا کہ یہاں جمہوریت کا دم گھونٹا جارہا ہے۔ ان معاملوں کے علاوہ حکمران جماعت میں بھائی بھائی راج کے عہدے پر بھی انگلی اٹھائی جارہی تھی۔ کسان تحریک کے بارے میں کینیڈا کے پردھان منتری جسٹن ٹروڈو ‘ مشہور پاپ آئیکان ریحانہ ‘ ماحولیات کی ترجمان گریٹا تھنبرگ اور امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس کے بیانات پر ہماری وزارتِ خارجہ نے اعتراض کیا ہے۔بائیڈن انتظامیہ نے بھی اسی مدعے پر حال ہی میں تبصرہ کیا ہے‘ لیکن وہ سمائے سوستی ‘سونائے سوستی جیسی ہے۔ ان سب تبصروں سے بھی زیادہ سنگین خبر یہ ہے کہ لندن کی عالمی شہرت یافتہ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے اپنے تازہ سروے میں نتیجہ نکالا ہے کہ بھارت کی جمہوریت نیچے کی طرف لڑھک رہی ہے اور یہاں اظہارِ رائے کی آزادی پر کشت و خون ہو رہا ہے۔ اس نے اپنے اعداد و شمار کی بنیاد پر کہا ہے کہ 2014ء میں جمہوری پیمانے میں بھارت کا نمبر 27واں تھا لیکن مودی راج میں وہ پھسل کر 53 ویں پر آگیا ہے۔ دنیا کی یہ سب سے بڑی جمہوریت ان 52 ملکوں کی بھیڑ میں شامل ہوگئی ہے جولنگڑی جمہوریت کہلاتے ہیں۔ اس طرح کے ملکوں میں امریکہ ‘ فرانس ‘ بلجیم اور برازیل جیسے ملک بھی شامل ہیں۔ ان چار اہم ملکوں کی قطار میں خود کو کھڑا دیکھ کربھارت اطمینان ضرور کرسکتا ہے لیکن ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا واقعی ہم بھارت کو تندرست جمہوریت بنا پائے ہیں؟ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تو اپنے آپ بن گیا ہے‘ اپنے پاپولیشن ایکسپلوژن کی وجہ سے‘ لیکن درحقیقت یہ ایک لولی لنگڑی جمہوریت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں