"DVP" (space) message & send to 7575

نیپال میں اولی کی پریشانی

نیپال کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو بحال کردیاہے۔ 20 دسمبر کو وزیر اعظم کے پی اولی نے نیپالی پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں تحلیل کرکے اپریل 2021ء میں انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ اس نے یہ کام صرف ایک وجہ سے کیاتھا کہ حکمران نیپالی کمیونسٹ پارٹی میں ان کے خلاف بغاوت پھیل گئی تھی۔ پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق وزیر اعظم پشپ کمل دہل پرچنڈانے مطالبہ کیا تھاکہ پارٹی کے فیصلے کے مطابق 2017ء میں طے پانے والے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ معاہدہ یہ تھا کہ اولی راج ڈھائی سال تک ہو گا اور پرچنڈا باقی ڈھائی سال حکومت کریں گے‘ لیکن پھر اولی اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ پارٹی کی ایگزیکٹو میں بھی انہیں اکثریت حاصل نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صدر ودیا دیوی سے پارلیمنٹ تحلیل کروا دی۔نیپالی آئین میں پارلیمنٹ کو اس طرح تحلیل کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اولی نے اپنی قوم پرست امیج کو چمکانے کیلئے کئی ہتھکنڈوں کو اپنایا۔ لیپولیکھ تنازع پر انہوں نے بھارت کے خلاف بھر پور مہم چلائی۔ نیپالی پارلیمنٹ میں ہندی بولنے اور دھوتی کرتا پہننے پر پابندی عائد کردی۔ (تقریباً 30 سال پہلے، میں نے لوک سبھا سپیکر دمن ناتھ ڈونگنا اور گیجندر بابو سے پوچھ کر اس کی اجازت لی تھی) اولی نے نیپال کا ایک نیا نقشہ بھی پارلیمنٹ سے منظور کرالیا جس میں کچھ ایسے علاقوں کو نیپا ل میں شامل کیا جو ان دنوں بھارت کے زیر کنٹرول ہیں لیکن اپنے قوم پرست امیج کو تقویت ملنے کے بعد اولی نے بھارت کے ساتھ رویہ نرم بھی کر لیا تھا۔ انہوں نے کٹھمنڈو میں بھارتی سیکرٹری خارجہ کا خیرمقدم کیا اور چینی خاتون سفیر ہوو یانکی سے کچھ فاصلہ بنالیا۔دوسری طرف پرچنڈا، جو چین کے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے بھی بھارت کے حق میں بیان دیا‘ اس کے باوجود اولی نے یہ سوچ کر پارلیمنٹ تحلیل کردی تھی کہ عدم اعتماد کی تحریک کو کھونے کے بجائے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا بہتر ہے ، لیکن میں نے اس وقت بھی یہ لکھا تھا کہ نیپالی سپریم کورٹ اولی کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے سکتی ہے۔ اب انہوں نے اولی سے اگلے 13 دن میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کو کہا ہے۔بظاہر عدم اعتماد کی تحریک پھر واپس لانا پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اولی لالچ اور خوف کا استعمال کریں اور اپنی حکومت کو بچالیں تاہم پچھلے دو ماہ میں انہوں نے جو بھی نئی تقرریاں کی ہے عدالت نے انہیں بھی منسوخ کردیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے اولی کا امیج بری طرح متاثر ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر ان کی حکومت آبھی جاتی ہے تو اس کو چلانے میں بہت مشکل ہوگی۔
جنوبی ہند میں کانگریس کا خاتمہ
پڈوچیری میں نارائن سوامی کی کانگریس حکومت گرنا ہی تھی؛ چنانچہ وہ گرگئی لیکن کرن بیدی کو اچانک لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے سے ہٹانے نے سب کو حیران کردیا۔ ان پر کرپشن کا الزام نہیں تھا‘ انہوں نے کوئی قانون نہیں توڑا‘ انہوں نے کسی مرکزی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی ، پھر بھی انہیں ہٹانا اس کے پس پشت بی جے پی کی طویل سیاست ہے۔نارائن سوامی اور کرن بیدی پہلے دن سے ہی ٹکراؤکی پوزیشن میں تھے۔ یہ محسوس ہی نہیں ہواکہ ایک گورنر ہے اور دوسرا وزیر اعلیٰ۔ ہر مسئلے پر اس کی متنازع خبروں کو اخباروں میں غلبہ حاصل تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ دونوں دو مخالف جماعتوں کے رہنما ہیں۔ اس کے نتیجے میں نارائن سوامی نے پڈوچیری کے ووٹرز کی ہمدردی حاصل کی۔ بی جے پی اور مخالفین کو لگا کہ چند ہفتوں کے بعد ہونے والے انتخابات میں نارائن سوامی کہیں بازی نہ مارلے جائیں۔ اسی وجہ سے کرن بیدی کو اچانک ہٹا دیا گیا۔دوسری طرف ، کانگریس میں بھی داخلی شورش ہوئی۔ 2016 ء میں کانگریس نے اچانک نارائن سوامی کو پڈوچیری کا وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا۔ کانگریس کی دہلی عدالت میں نارائن سوامی کی مضبوط گرفت تھی۔ پڈوچیری کے کانگریس کے صدر تھے۔ وہ اپنے ہاتھ رگڑتے رہ گئے۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔ کانگریس کے ارکان اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت اقلیت میں چلی گئی۔ نارائن سوامی نے بھی استعفیٰ دے دیا۔الیکشن سے تین ماہ قبل چلی گئی یہ چال کیاگل کھلائے گی، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کانگریس کی پارٹنر پارٹی ڈی ایم کے کے ایم ایل اے نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ تنہا کانگریس کیلئے دوبارہ واپس آنا مشکل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کانگریس کسی نئے قائد کا نام پیش کرے۔ ہوسکتا ہے کہ پڈوچیری میں پہلی بار بی جے پی کی حکومت بن جائے۔ پڈوچیری نے بھی کرناٹک کے نقش قدم پر چل نکلا ہے۔جو کچھ بھی ہو ، اس وقت پورے جنوبی ہندوستان سے کانگریس کا صفایا ہوگیا ہے۔ جنوبی ہند کے تمام صوبوں میں پہلی بار غیر کانگریس حکومتیں آئیں۔ صرف تین صوبوں میں کانگریس کی اپنی حکومتیں ہیں۔ راجستھان، پنجاب اور چھتیس گڑھ۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں معاون ہے۔ کانگریس کی قیادت کی یہ حالت ہندوستانی جمہوریت کے لئے باعث تشویش ہے۔
بھارت کی کورونا ویکسین
کچھ دن پہلے جب میں نے لکھا تھا کہ کورونا ویکسین بھارت کو دنیا کی ایک بڑی قوت بنارہی ہے تو کچھ روشن خیال قارئین نے مجھے بتایا کہ آپ زبردستی مودی سرکار کو کریڈٹ دے رہے ہیں۔ آپ کی مرضی آپ جسے چاہیں کریڈٹ دیں لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے میری تحریر پر مہر ثبت کردی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ بھارت نے کورونا کی لڑائی میں دنیا کی قیادت کی ہے۔ وہ دنیا کودینے والا بن گیا ہے۔ جیسا کہ میں کئی دہائیوں سے لکھ رہا ہوں کہ بھارت کو ہمیں ایک خطرناک ملک نہیں بلکہ اچھا ملک بنانا چاہیے ، شاید اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ بھارت نے تقریباً 150 ممالک میں ویکسین ، ٹیسٹ کٹس ، پی پی ای اور وینٹی لیٹر کورونا کے دوران فراہم کیے ہیں۔ ان ممالک سے بھارت نے ان چیزوں کیلئے یا تو مارکیٹ سے کم پیسہ لیا ہے یا شاید لیا ہی نہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی پیس کیپنگ فورس کو بھی دو لاکھ ویکسین پیش کی ہیں۔ اب تک بھارت نے متعدد ممالک کو تقریبا ً25 ملین ویکسین بھیجی ہے۔ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم نے بھارت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس کا کریڈٹ ، بھارت میں ادویات تیار کرنے والوں اور وزارتِ صحت کو دیا جارہا ہے۔ اگر بھارتی حکومت اس بحران میں پوری دنیا میں آیورویدک ادویات پھیلاتی تو ہندوستان کو اربوں روپے مل جاتے اور بھارت کا قدیم دواؤں کا نظام دنیا بھر میں مقبول ہوتا۔کورونا کے خلاف کوششوں میں بھارت کی فتوحات پوری دنیا میں بے مثال ہیں۔ امریکا جیسے طاقتور اور وسائل سے مالا مال ملک میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ وہ ممالک جو بھارت کے صوبوں سے چھوٹے ہیں ، وہاں ہمیں ہلاکتوں کی تعداد دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہمارا طرزِ زندگی ، خوراک اور دوائی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ سبزی خور بھارت میں رہتے ہیں۔ جو لوگ سبزی خور نہیں ہیں وہ بھی ان دنوں سبزی خور بن چکے ہیں۔ ہمارے کھانے میں روزانہ استعمال ہونے والے مسالے ہماری مزاحمت کو بڑھاتے ہیں۔ ہماری روایات خود بخود لوگوں میں جسمانی فاصلہ پیدا کرتی ہیں۔ میری درخواست پر وزارت آیوش نے ادویات کے کروڑوں نسخے تقسیم کئے۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت غربت ، آلودگی اور کثیرآبادی کے باوجود کورونا پر قابو پانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اگر بھارتی حکومت تھوڑا سا نرمی اختیار کرے اور غیرسرکاری سطح پر ویکسی نیشن شروع کردے تو کچھ ہی دنوں میں پچاس سے ساٹھ کروڑ افراد ویکسین لگوالیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں