کھانے پینے کی اشیا اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے اب ہوشیار ہو جائیں، کیونکہ بنگال، آسام اور اتر پردیش کی طرح اب مدھیہ پردیش میں بھی ان لوگوں کو عمر قید کی سزا دینے کا بندوبست کیا جا رہا ہے‘ جو کسی بھی قسم کے ملاوٹ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اب تک ملاوٹ کرنے والوں کے لیے صرف 6 ماہ کی سزا اور 1000 روپے کے جرمانہ کا ہی قانون تھا۔ یہ ایک نرم سزا تھی۔ اس نرمی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج پورے بھارت میں 30 فیصد سے زیادہ چیزوں میں ملاوٹ کی جاتی ہے‘ چاہے وہ کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا دوسری عام استعمال کی اشیا۔ نہ صرف گھی، دودھ اور مسالوں وغیرہ میں ملاوٹ ہوتی ہے بلکہ اناج میں بھی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ سب سے خطرناک ملاوٹ ادویات میں ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، ہر سال لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کروڑوں لوگ ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بیمار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات تو ملاوٹ والی ادویات کھانے مرض مزید شدت اختیار کت کے پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ادویات خریدنے پہ لوگوں کو پیسہ بھی خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا انہیں کچھ فائدہ بھی نہیں ہوتا‘ الٹا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پورے ملک کو مریضوں کی جسمانی کمزوری کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
بھارت میں سب سے پہلے ملاوٹ سے متعلق قانون 1954 میں نافذ کیا گیا تھا، اس کے بعد بھی مختلف حوالوں سے قانون بنتے رہے لیکن یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ آج تک کسی قانون پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ 2006 اور 2018 میں بھی نئے قوانین بنائے گئے تھے، لیکن ان کی تعمیل صرف ان کی خلاف ورزی کے بعد کی جاتی ہے۔ اس مسئلے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اس جرم کی سزا بہت کم ہے۔ اتنی کہ نہ ہونے کے برابر۔ میں تو یہ کہوں گا کہ اتنی سزا‘ سزا نہیں بلکہ ملاوٹ کرنے والوں کو دیا جانے والا انعام ہے۔ اگر اسے 6 ماہ جیل اور ایک ہزار روپے سزا دی جاتی ہے توگویا ایک ہزار روپے میں وہ جیل میں ایک مہینے میں قریب ڈیڑھ سو روپے خرچ کرے گا۔ اس کا کھانا، پینا اور دوائی سب مفت! اور مجرم سیٹھ نہیں بلکہ زیادہ تر اس کا نوکر پکڑا جاتا ہے‘ جسے سیٹھ کی طرف سے تنخواہ ملتی رہتی ہے کیونکہ یہ سزا ملنے کے بعد وہ اپنا ملاوٹ والا دھندا بند تھوڑا ہی کر دیتا ہے‘ بلکہ وہ زیادہ دھڑلے سے ملاوٹ شروع کر دیتا ہے تاکہ ایک ہزار روپے جرمانے اور جیل میں بند ملازم کی تنخواہ کے اخراجات پورے کئے جا سکیں۔
اب قانون ایسا ہونا چاہئے کہ کمپنی یا دکان کا اصلی مالک ملاوٹ کے جرم میں پھنس جائے۔ اسے پہلے سرِ عام کوڑوں کی سزا دی جانی چاہئے اور پھر سخت قید کی سزا دی جانی چاہئے۔ اس کی تمام منقولہ جائیداد ضبط کی جانی چاہئے۔ اگر اس طرح کی مثال ہر صوبے میں پیش کی جائے تو دیکھئے گا کہ ملاوٹ جڑ سے ختم ہوتی ہے یا نہیں۔ جو لوگ ملاوٹ کا سامان بیچ رہے ہیں ان کو بھی کچھ سزا دی جانی چاہئے۔ جب تک ملاوٹ والی‘ دو نمبر اور جعلی اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کیا جائے گی‘ ملاوٹ والی اشیا کی تیاری اور فروخت کا سلسلہ ٹوٹنے والا نہیں۔ اس کے علاوہ ملاوٹ کے ٹیسٹ کے نتائج دو یا زیادہ سے زیادہ تین دن میں آنے چاہئیں کیونکہ نتائج آنے میں تاخیر کی وجہ سے بھی مسائل بڑھتے ہیں۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ ملاوٹ کا سودا کرنے والے افسران کو ہمیشہ کے لئے نوکری سے نکال دیا جانا چاہئے۔
اس کے ساتھ ساتھ عوام میں ملاوٹ والی اشیا کے بارے میں آگہی اور معلومات بڑھانے پر بھی حکومت کو توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ بھارتی وزارتِ صحت کو تمام زبانوں میں اشتہار دینا چاہئے اور لوگوں کو بتانا چاہئے کہ گھر میں ملاوٹ والی چیزوں کی جانچ کیسے کی جائے۔ ادویات اور کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ ایک طرح کا قتل ہی ہے‘ بلکہ یہ قتل سے بھی زیادہ گھنائونا فعل ہے۔ دراصل یہ ایک بڑے پیمانے پر قتال ہے۔ یہ پوشیدہ اور خاموش قتال ہے۔ پارلیمنٹ کو پورے ملک کے لئے اس قتال کے خلاف ایک سخت قانون پاس کرنا چاہئے۔
کانگریس کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز
بھارت کی پانچ ریاستوں‘ مغربی بنگال، آسام، پڈوچیری، تمل ناڈو اور کیرالہ‘ میں انتخابات کا اعلان اور کانگریس کے باغی رہنمائوں کا نیا رویہ کانگریس پارٹی کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر رہا ہے۔ جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والی تین ریاستوں تامل ناڈو‘ کیرالہ اور پڈوچیری میں انتخابات کے لیے پولنگ اپریل کے پہلے ہفتے میں ہو گی جبکہ مشرقی بھارت سے تعلق رکھنے والی دو ریاستوں مغربی بنگال اور آسام میں بالترتیب آٹھ اور تین مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ایک ایسے وقت پہ جب بھارت میں پٹرولیم کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں‘ مہنگائی بے حد بڑھ چکی ہے‘ اور معیشت پر کورونا کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں‘ یہ انتخابات بی جے پی کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس ان پانچوں ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی جیت جاتی ہے تو یہ پارٹی قیادت کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔
کیرالا اور پڈوچیری میں کانگریس اپنے مخالفین کو سخت مقابلہ دے سکتی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کی مقامی قیادت قدرے با اثر ہے۔ اثر ان کا ہی ہو گا‘ لیکن اس کا سہرا ماں بیٹے کی قیادت کو جائے گا اور اگر مذکورہ پانچوں ریاستوں میں کانگریس کو بری طرح شکست ہو گئی تو ماں بیٹے کی قیادت کے خلاف کانگریس میں ایک مضبوط لہر پیدا ہو گی۔ اس کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ وہ 23 سینئر قائدین‘ جنہوں نے پہلے کانگریس کی حالت زار پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی تھی، اب پہلے جموں میں اور پھر کوروکشیترا میں بڑے پروگراموں کا اہتمام کرنے جا رہے ہیں۔ جموں کے پروگرام کا انعقاد غلام نبی آزاد کے اعزاز میں کیا جا رہا ہے، کیونکہ کانگریس کی قیادت نے انہیں راجیہ سبھا کی پارٹی قیادت سے دور کر دیا ہے۔
بی جے پی نے غلام نبی آزاد کے لیے تعریفوں کا پل باندھ دیئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے باوجود وہ بی جے پی میں نہیں جا رہے ہیں۔ کانگریس کے 'پریشان رہنمائوں‘ کو ساتھ لے کر وہ اب نئی کانگریس تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ بہت سارے سینئر قائدین‘ جو ان سے وابستہ ہیں‘ بھی بہت با صلاحیت، تجربہ کار اور اہل ہیں، لیکن ان میں کتنی ہمت ہے، صرف وقت ہی بتائے گا۔ میری نظر میں ان کی ساری زندگی جی حضوری میں گزری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح بغاوت کا جھنڈا بلند کریں گے۔ اس کا مخمصہ اس شعر میں بیان ہوا ہے۔
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
مجھے نرسمہا رائو کی وزارتِ عظمیٰ کے دور کے تجربات یاد ہیں، جب میرے والد کی عمر کے کانگریسی قائد میرے کرسی پر بیٹھنے تک میرے اعزاز میں کھڑے رہتے تھے، کیونکہ نرسمہا رائو میرے خاص دوست تھے۔ اب وہ دن گزر چکے جب پوریشوتم داس ٹنڈن، آچاریہ کرپلانی، رام منوہر لوہیا، جئے پرکاش، مہاویر تیاگی جیسے آزاد لوگ کانگریس میں سرگرم تھے‘ لیکن پھر بھی ہمیں امید نہیں چھوڑنی چاہئے۔ بھارتی کانگریس دنیا کی قدیم اور سب سے بڑی جماعتوں میں سے ایک رہی ہے اور اس نے تقسیمِ ہند کی جدوجہد میں انوکھا کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کی اچھی صحت کے لیے، اس کا سرگرم رہنا ضروری ہے۔ مارچ‘ اپریل میں ہونے والے پانچ انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو، اگر اندرونی جمہوریت کسی طرح کانگریس میں قائم ہو جائے تو کانگریس کو زندگی کی ایک نئی ڈوز مل سکتی ہے۔