صدر رام ناتھ کووند نے بھارت کے نظامِ عدل کے بارے میں ایسی باتیں کہی ہیں جو آج تک کسی صدر یا وزیر اعظم نے نہیں کہیں۔ وہ گزشتہ دنوں جبل پور میں ججوں کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے قانون‘ انصاف اور عدالتوں کے بارے میں ایسی قابلِ ذکر باتیں یونہی نہیں کہہ دیں۔ انہوں نے کانپور سے تقریباً 50 سال قبل دہلی کا سفر کیا تھا اور قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ وکالت کرتے تھے۔ جتنا عدالتوں کی داخلی ہیرا پھیری سے وہ واقف ہیں‘ بہت کم رہنماؤں کو عام طور پر اس قسم کا علم ہوتا ہے۔ پہلی بات جو انہوں نے کہی تھی‘ یہ تھی کہ ریاستوں کی اعلیٰ عدالتیں اپنے فیصلوں کو صوبائی زبانوں میں ترجمہ کروائیں۔ ان کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں کو ہندی اور کچھ دوسری بھارتی زبانوں میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ تمام عدالتوں کے اصل فیصلے ہندی میں ہونے چاہئیں اور ان کی اپنی زبانوں میں اور اگر ضروری ہو تو ان کا ترجمہ انگریزی میں ہونا چاہئے۔ یہ تب ہو گا جب ہماری پارلیمنٹ اور مقننہ اپنے قوانین کو اپنی زبان میں بنائیں‘ یعنی انگریزی کی غلامی سے خود کو آزاد کریں۔ تمام ممالک میں تمام قوانین اور فیصلے اپنی زبان میں ہوتے ہیں۔ بھارت کو غیر ملکی زبان میں اپنا قانون اور انصاف کا نظام نہیں چلانا چاہیے۔ مدعی اور مدعا علیہ نہیں سمجھتے کہ عدالت کی بحث اور فیصلے میں کیا کہا جا رہا ہے۔ دوسری چیز جس پر صدر نے زور دیا وہ انصاف ملنے میں تاخیر ہے۔ دیر سے انصاف کرنا نا انصافی ہے۔ آج ملک میں 40‘ 40 سال پرانے مقدمات چل رہے ہیں اور لٹکے ہوئے معاملات کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ عدالتوں میں ججز بھی کافی نہیں ہیں۔ اگر ہمارا عدالتی نظام سادہ اور واضح ہے تو ججوں کی عدم دستیابی کے باوجود مقدمات جلد نمٹائے جائیں گے۔ صدر نے ایک اور بنیادی بات بھی کہی‘ انہوں نے کہا کہ ججوں اور وکلا کو قانون کو سمجھنا چاہئے لیکن یہ کافی نہیں ہے‘ انہیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ انصاف کیا ہے۔ بھارتی عدالتیں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کو برقرار رکھتی ہیں‘ لیکن بعض اوقات انصاف ان کے دلائل اور فیصلوں میں ظاہر نہیں ہوتا۔ بھارتی صدر کی یہ تجاویز عدلیہ کی بہتری کے لئے بہت اہم ثابت ہوں گی‘ لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ اصلاحات پر بھارتی حکومت اور مقننہ‘ دونوں کتنا دھیان دیتی ہیں۔
نسلی ریزرویشن کے دن ختم ہو چکے
بھارتی سپریم کورٹ اب لیڈروں سے بھی آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس نے تمام ریاستوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بتائیں کہ کیا سرکاری ملازمتوں میں جو ریزرویشن فی الحال پچاس فیصد ہے‘ اس میں اضافہ کیا جائے یا نہیں؟ ایسی کون سی ریاست ہے جو کہے گی کہ اس میں توسیع نہیں کی جانی چاہئے۔ تمام لیڈرز اور جماعتیں ووٹ اور نوٹ کے غلام ہیں۔ 1992ء میں عدالت کے ذریعے پابند ریزرویشن کی حد (50 فیصد) کی تقریباً آدھ درجن ریاستوں نے خلاف ورزی کی ہے۔ مہاراشٹر میں سرکاری ملازمتوں میں 72 فیصد ریزرویشن ہو گیا ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ سے اس بے لگام ذات پات کے ریزرویشن پر ایک سخت روک لگائی جائے گی‘ بلکہ ذات پات کے ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ابتدائی طور پر ذات پات کی بنیاد پر صرف 10 سال کے لئے ریزرویشن دیا گیا تھا لیکن اس میں ہر دس سال بعد اضافہ ہوتا رہا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ کیا اس ریزرویشن کی وجہ سے ملک کے 100 کروڑ غریب‘ پسماندہ‘ دیہی‘ دلت محروم عوام کو انصاف اور یکساں مواقع مل رہے ہیں؟ ان 100 کروڑ میں سے صرف چند ہزار افراد ہیں جنہوں نے نسل در نسل سرکاری ملازمتوں پر قبضہ کیا ہے۔ اس کی بنیاد ان کی خوبی نہیں بلکہ ان کی ذات ہے۔ یہ چند ہزار دلت‘ قبائلی اور پسماندہ لوگ نوکریوں کے اہل نہیں ہو سکتے ہیں لیکن اپنی ذات کی وجہ سے وہ نوکریوں پر قبضہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھارتی انتظامیہ میں کمزوری اور بدعنوانی پائی جا رہی ہے۔ اس رجحان نے ایک نئے استحصالی طبقے کو جنم دیا ہے۔ اس کا نام کریمی لیئر ہے۔ نااہلی کے ساتھ ہی اس طبقے میں تکبر بھی پنپتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنی نئی اَپر کلاس تشکیل دی ہے۔ یہ سوورنوں سے بھی آگے ''بہت ہی اعلیٰ طبقہ‘‘ ہے۔ یہ لوگ ملک کے محروم 100 کروڑ کے اکٹھا ہونے سے اتنے ہی فکر مند ہیں جتنے کہ وہ روایتی اعلیٰ طبقے سے ہیں۔ اگر بھارتی اپنے ملک کو مضبوط اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ان 100 کروڑ لوگوں کے آگے بڑھنے کی فکر کرنی چاہئے۔ اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ ریزرویشن ضرورت کی بنیاد پر دیا جائے نہ کہ ذات پات کی بنیاد پر صرف نوکری‘ تعلیم اور دوائیوں میں دی جائے۔ جو کوئی دلت‘ محروم‘ معذور‘ غریب ہے اسے اپنے بچوں کو مفت تعلیم اور مفت کھانا اور مفت طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کی ذات کا نہیں پوچھا جانا چاہئے۔ اگر وہ ضرورت مند ہیں چاہے وہ کسی بھی ذات کے ہیں‘ اور انہیں تعلیم اور طب میں بھی 80 فیصد ریزرویشن دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
گونڈوں سے سیکھے پورا بھارت
بھارت میں گونڈ قبائلیوں کی تعداد قریب 90 لاکھ ہے۔ وہ چھتیس گڑھ‘ مدھیہ پردیش‘ مہاراشٹر اور اڈیشہ کے جنگلات میں رہتے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے ضلع کاوردھا کے گونڈوں نے ایک قرارداد پیش کی ہے جس پر پورا بھارت اگر چاہے تو عمل کر سکتا ہے۔ گونڈ قبیلے کے لوگ اکثر غریب اور اَن پڑھ ہوتے ہیں۔ انہیں آئین میں درج فہرست میں رکھا گیا ہے لیکن انہوں نے کچھ معاشرتی اصلاحات کے فیصلے لئے ہیں جن سے شہروں اور دیہات میں رہنے والے اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی سیکھ سکتے ہیں۔ ان کا پہلا فیصلہ شراب نوشی پر پابندی عائد کرنا ہے۔ جب بھی مجھے مدھیہ پردیش کے قبائلی علاقوں میں جانے کا موقع ملا میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ قبائلی لوگ صبح صبح ہی بنٹا چڑھا لیتے تھے۔ انہیں والدین اور بزرگوں سے کوئی جھجک نہیں ہوتی تھی۔ کوئی قانون ان کو شراب پینے سے نہیں روک سکتا تھا‘ لیکن ادھر کاوردھا کے گونڈنے ایک مہاسمیلن کا انعقاد کیا اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ تہواروں اور تقریبوں میں جو بھی شراب پیئے گا اس کا جرمانہ دو سے پانچ ہزار روپے ہو گا۔ باراتیوں کو اب شراب نہیں پروسی جائے گی۔ یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت میں روزمرہ کی ذاتی شراب نوشی کے خلاف اجتماعی قرارداد بھی تیار ہو جائے۔ دوسرا بڑا فیصلہ وہاں یہ ہوا کہ نہ جہیز لیا جائے گا‘ نہ ہی دیا جائے گا۔ قبائلیوں میں جہیز کی روایت کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ صرف پانچ قسم کے برتن دلہن کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ جب میں نے 60‘ 65 سال پہلے اندور میں شراب پر پابندی‘ جہیز اور سزائے موت کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا تو لوگوں نے مجھے گرفتار کروا دیا تھا‘ لیکن مجھے خوشی ہے کہ اب یہ معاملات قبائلی معاشرے پر مہر ثبت کر رہے ہیں۔ تمام صوبوں کے گونڈ قبائل آہستہ آہستہ اس کا عہد لے رہے ہیں۔ کاوردھا کی جنرل اسمبلی نے ایک فیصلہ لیا ہے جس سے بھارتیوں کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ مرنے والوں کو جلانے کے بجائے انہیں دفن کیا جائے گا‘ ایسا کرنے سے لکڑی کی بچت ہو گی۔ جنگلات نہیں کاٹے جائیں گے۔ یہ دلیل قابل فہم ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایران اور لبنان کے بہت سے خوبصورت پہاڑوں اور جنگلاتی علاقوں کو ویران ہوتے دیکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے قبائلی بھائی بھی ان سائنسی اور معاشی وجوہات کی طرف توجہ دیں گے اور لاش کو دفنانے کے بارے میں غور کریں گے۔