"DVP" (space) message & send to 7575

پاک‘ بھارت تعلقات: خوش آئند علامتیں

بھارت اور پاکستان کے نمائندوں نے گزشتہ دنوں دہلی میں سندھ کے پانی کے اشتراک سے متعلق ملاقات کی۔ گزشتہ ڈھائی سالوں میں دونوں ممالک کے مابین کشیدہ ماحول کے باوجود‘ یہ اجلاس اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ دونوں اطراف کی لیڈرشپ کو آپس میں مذاکرات کے لئے زمینی حقائق کا ادراک ہونے لگا ہے یا کوئی ثالث انہیں اس کا احساس کرا رہا ہے۔ یہ ملاقات پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بھارت کے ساتھ بات چیت سے متعلق دیے گئے حالیہ بیانات کی بھی تصدیق ہے۔ اس سے قبل دونوں ممالک کے فوجی افسران نے بھی سرحدوں پر امن کا اعلان کیا تھا۔ جہاں تک زمینی حقیقت کا تعلق ہے تو اس وقت پاکستان اور بھارت دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح کورونا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے سب کو پریشان کر رکھا ہے جبکہ دونوں ممالک حکومت مخالف تحریکوں کی زد میں بھی ہیں۔ دوسری طرف امریکا افغانستان سے نکلنے میں پاکستان کا تعاون چاہتا ہے لیکن چین کے ساتھ وہ اس کی قربت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ ایسی صورتحال میں دونوں ممالک کے مابین بات چیت کا آغاز خطے کے امن میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے میں متحدہ عرب امارات کے کردار کو بھی اہم سمجھا جا رہا ہے حالانکہ دونوں ممالک اس بارے میں خاموش ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبد اللہ بن زید، بھارتی وزرائے خارجہ جے شنکر اور اجیت دوول بھی پاکستانی رہنمائوں کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بھی شریک ہوں گے اور اعلان کیا گیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام انسدادِ دہشت گردی کے فوجی پریڈ میں بھارت بھی حصہ لے گا۔ یہ پریڈ پاکستان میں ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پہلی بار ہوگا۔ اگر یہ رجحان بڑھتا گیا تو پھر تعجب کی بات نہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں پائیدار بہتری کی بنیاد استوار ہو جائے۔ اس کیلئے سب سے پہلے تو دونوں ممالک کو اپنے اپنے سفیروں کو واپس بھجنا چاہئے اور دونوں وزرائے اعظم کو کم از کم فون پر براہِ راست بات کرنی چاہئے۔
بھارتی سیاست کو بے نقاب کرتا خط
چند روز قبل ممبئی کے سابق پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ کے ذریعے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کولکھے گئے ایک خط نے بھارتی سیاست کو عیاں کر دیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انیل دیش مکھ نے اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس کو کم سے کم 100 کروڑ روپے ہر مہینہ وصولی کا حکم دیا تھا۔ اس سب انسپکٹر کا نام انیل واجے ہے۔ واجے کو ابھی اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ وہ صنعت کار مکیش امبانی کے گھر کے باہر بارود سے بھری کار پارک کرنے کا ذمہ دار پایا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کار کے مالک منسکھ ہیرین کے قتل میں بھی اس کا ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ واجے کئی سال پہلے بھی سنگین جرائم میں ملوث پایا گیا تھا۔ وزیر داخلہ دیش مکھ نے واجے کو رقم اکٹھا کرنے کا طریقہ بھی بتایا تھا۔ انہوں نے اسے بتایا تھا کہ ممبئی میں 1750 ریستوران اور ہوٹل ہیں‘ اگر ہر ایک سے دو‘ دو، تین‘ تین لاکھ روپے بھی جمع کیا جائے تو 40 سے 50 کروڑ تو اسی طرح جمع کیا جا سکتا ہے۔ واجے نے اسی دن پرمبیر کو یہ بات بتائی۔ پرمبیر نے بھی اس معلومات کا ثبوت دیا ہے۔ واجے ایک معمولی سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا لیکن وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ تک اس کی براہِ راست رسائی تھی۔ وزیراعلی ٹھاکرے نے اسے بچانے کی پوری کوشش کی اور پرمبیر سنگھ کا تبادلہ کر دیا، یہاں تک کہ واجے سینٹرل تحقیقاتی ایجنسی کے جال میں پھنس گیا۔ پرمبیر سنگھ نے ایک سچے پولیس آفیسر ہونے کا ثبوت دیا ہے، انہوں نے سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے بھی وزیراعلیٰ کو خط لکھا جو مہاراشٹر کی متحدہ حکومت کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اب اس خط کی صداقت پر شک کیا جا رہا ہے اور وزیر داخلہ اس پر قانونی چارہ جوئی کی بات کر رہے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خط میں کچھ نہ کچھ دم ضرور ہے۔ یہ خط نہ صرف مہاراشٹر بلکہ ہمارے ملک کی سیاست کی حقیقت کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ ملک میں کوئی اسی پارٹی یا رہنما موجود نہیں ہے جو دعویٰ کر سکے کہ وہ صاف ہے۔ سیاست آج کاجل کوٹھری بن گئی ہے۔ وہ سام (سونا)، دام، دنڈ (ہتھیار)، بھید (مکاری) کے بغیر نہیں چل سکتی۔ بھارتھری نے ایک ہزار سال پہلے ٹھیک کہا تھا کہ سیاست روپے پیسے اور طاقت کا کھیل ہے۔ مجھے یہ راز 60 سے 65 سال پہلے معلوم ہوا جب میں اندور میں انتخابی مہم چلایا کرتا تھا۔ دہلی میں میرے کچھ بہترین دوست وزیراعظم اور بہت سے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس حقیقت پر مہر ثبت کی اور اپنی مجبوری کا اظہار کیا۔ اگر آپ سیاست میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کیلئے خوشامدی، بہروپیا اور خود غرض ہونا بہت ضروری ہے۔ پتا نہیں کون اس سیاست کو پاک کرے گا، کب اور کیسے کرے گا؟
امریکا: فائرنگ کا سلسلہ کیسے رکے؟
امریکا خود کو دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اور ترقی پسند قوم کہتا ہے لیکن اگر آپ اس کی گزشتہ 300 سے 400 سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہاں کیوں اتنا ظلم ہوتا ہے۔ اٹلانٹا اور کولوراڈو میں گزشتہ ہفتے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کے بعد صدر جو بائیڈن نے 'مہلک ہتھیاروں‘ پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیوں کیا ہے؟ گزشتہ ایک سال کے دوران امریکا میں 43 ہزار 500 افراد بندوق کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ امریکا میں ہر سال ہزاروں بے گناہ، غیر مسلح اور نامعلوم افراد ہلاک ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر شخص کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے۔ امریکا میں ایسے گھر تلاش کرنا مشکل ہے جن کے پاس ایک یا دو بندوقیں نہ ہوں۔ فی الحال لوگوں کے پاس امریکا میں 400 ملین سے زیادہ بندوقیں ہیں۔ بندوقیں بھی ایسی ایسی کہ آپ اپنی جیکٹ میں پستول کی طرح چھپا کر گھوم سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو کسی بھی مسئلے پر ناراض ہونے کی دیر ہے‘ جیکٹ کا بٹن کھولیں اور گولیوں کی بارش کر دیں۔ اب سے ڈھائی سو‘ تین سو سال قبل جب یورپی باشندے امریکا کے جنگلوں میں آباد ہونا شروع ہوئے تو مقامی قبائلی‘ جنہیں ''ریڈ انڈینز‘‘ کہا جاتا ہے‘ کے ساتھ ان کے جان لیوا مقابلے ہونے لگے۔ تب سے گولیوں کا چلنا امریکا کی فطرت بن چکا ہے۔ افریقہ میں سیاہ فام لوگوں کی آمد نے اس پُرتشدد رجحان میں مزید اضافہ کیا۔ امریکی آئین میں دوسری بار 15 دسمبر 1791ء کو ترمیم کی گئی، جس نے امریکی حکومت کو فوج رکھنے اور شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا بنیادی حق دیا تھا۔ اس میں اصلاح جو بائیڈن نے 1994ء میں تجویز کی تھی۔ اس وقت وہ صرف سینیٹر تھے۔ کلنٹن دور میں یہ اصلاح 10 سال تک جاری رہی۔ اس دوران امریکا میں بندوق کے تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی۔ اب بائیڈن ایک بار پھر 'مہلک ہتھیاروں‘ پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں اور کسی بھی اسلحہ خریدنے والے سے تفتیش کے لئے قانون بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں واضح رہے کہ مہلک ہتھیار ان بندوقوں کو سمجھا جاتا ہے جو خودکار ہیں اور وہ ایک ایک کرکے 10 سے زیادہ گولیاں چلا سکتی ہیں۔ اسلحہ خریدنے والوں کی تفتیش کا مطلب یہ ہے کہ کہیں وہ پہلے سے پیشہ ور مجرم، ذہنی مریض یا پُرتشدد نوعیت کے لوگ تو نہیں ہیں؟ اب بائیڈن صدر ہیں تو وہ ایسا قانون پاس کروا کر ہی دم لیں گے، لیکن اس قانون سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکا کے صارفیت پسند، غیر محفوظ اور متشدد معاشرے کو مہذب اور محفوظ کیسے بنایا جائے؟ یہ کام قانون سے کم اور تہذیبی اقدارسے کہیں زیادہ ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں