"DVP" (space) message & send to 7575

بنگال میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

مغربی بنگال کے نندیگرام میں ممتا بنرجی اور شبھندو ادھیکاری ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ کل تک جو شبھندو ممتا کے سپاہی تھے، آج بی جے پی کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ بنگال کے کئی حلقوں میں ایسا ہو رہا ہے۔ ممتا کی ترنمول کانگریس کے اتنے لیڈر اپنی پارٹی تبدیل کرکے بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں کہ اگر ممتا کی جگہ کوئی دوسرا لیڈر ہوتا تو شاید وہ اب تک گھر بیٹھ چکا ہوتا لیکن ممتا اپنی انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ بہت ساری دیگر خواتین بھی ملک میں چیف منسٹر رہ چکی ہیں، لیکن شاید ہی جے للیتا اور ممتا جیسی کوئی ہو۔ ممتا نے اکیلے ہاتھ سے کمیونسٹ پارٹی کی تین دہائیاں پرانی حکمرانی کا تختہ پلٹ دیا تھا۔ اس کی شروعات 2007 میں نندیگرام کے اسی ستیہ گرہ سے ہوئی تھی۔ ممتا نے متعدد بڑی اپوزیشن جماعتوں کو متحدہ محاذ بنانے کی ترغیب دی ہے۔ ممتا کو شکست دینے کیلئے بی جے پی نے اس بار سب سے زیادہ زور لگایا ہے۔ شاید اب تک غیر ہندی بولنے والی ریاست میں اتنا زور نہیں لگایا گیا۔ اس انتخاب کے حوالے سے جس قدر تشددکیاگیا ہے، شاید ہی کسی بھی الیکشن میں ہوا ہو۔ اب تک بی جے پی کے ڈیڑھ سو کارکنان ہلاک ہوچکے ہیں۔ بنگال میں ذات برادری اور مذہبی منافرت کا مظاہرہ بے شرمی سے ہو رہا ہے۔ بنگال میں صنعت اور روزگار کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ممتا نے بھی الیکشن کمیشن کے چہرے پر کاجل کم نہیں ملا ہے۔ کسی بھی رہنما نے اس پر گھنائونے الفاظ میں اس طرح کے الزامات عائد نہیں کیے جیسے ممتا نے۔ الیکشن کمیشن نے نندی گرام میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے اور نندیگرام میں 355 پولنگ بوتھوں پر مرکزی فورس کی 22 کمپنیاں تعینات ہیں۔ وہاں پرتشدد کا سب سے زیادہ امکان ہے۔ یہاں پونے تین لاکھ ووٹرز میں سے 60 ہزار مسلمان ہیں۔ بنگال کے اس انتخابات میں فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر اندھی ووٹنگ (ہول سیل) ہونے والی ہے۔ یہ جمہوریت کی ستم ظریفی ہے۔ بی جے پی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خوف سے ممتا اس کو ایک 'بیرونی شخص‘ یا 'غیر بنگالی‘ پارٹی کہہ رہی ہیں، جو ایک غیرجمہوری عمل‘ لیکن بنگال کا یہ انتخاب اتنا کانٹے کا ہوا ہے کہ، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔
ایران میں چین کیلئے چیلنج
چین نے ایران کے ساتھ اتنا بڑا معاہدہ کیا ہے کہ بھارت سوچ بھی نہیں سکتا۔ چین ایران میں 400 ارب ڈالر خرچ کرے گا! کس لئے؟ سٹریٹیجک تعاون کے لئے۔ اس میں معاشی، فوجی اور سیاسی تینوں معاہدے شامل ہیں۔ بھارت چا بہار کی بندرگاہ بنانے اور اس سے زاہدان تک ریل لائن بچھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اس پر مشکل سے 2 ارب ڈالر خرچ کرنے کی سوچ رہا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں جرنج دلارام سڑک تیار کی ہے، اس کے باوجود وسطی ایشیا کے پانچ ممالک تک جانے کیلئے اس کے پاس زمینی راستہ نہیں ہے۔ اپنا سامان افغانستان لانے کیلئے اسے خلیج فارس کے گرد سفر کرنا پڑتا ہے، کیونکہ پاکستان اسے اپنی سرزمین سے باہر جانے کا راستہ نہیں دیتا۔ چین نے اس پچیس سالہ منصوبے کے ذریعے پورے مغربی ایشیا میں اپنی جڑیں قائم کرنا شروع کردی ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے ایران کے بعد سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، عمان اور بحرین کا سفر بھی کیا۔ یہ دورے ایسے وقت پہ کئے گئے جب امریکی بائیڈن انتظامیہ ایران کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی کو پلٹنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو منسوخ کرکے اس پر متعدد پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اب چین کے ساتھ اس سٹریٹیجک معاہدے سے امریکہ پر دبائو ڈالا جائے گا۔ چین، روس اور یورپی ممالک نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اوباما کے دور میں طے پانے والے اس کثیرالقومی معاہدے کو بحال کریں۔ موجودہ معاہدے پر بات چیت چین کے صدر شی چن پنگ کے 2016 میں تہران کے دورے کے دوران ہوئی تھی۔ تب تک، چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا۔ اب چین اس سے اتنا تیل خریدے گا کہ امریکی پابندیاں تقریباً بے معنی ہوجائیں گی، لیکن چین اور ایران کے اس معاہدے کا سب سے زیادہ خمیازہ بھارت کو بھگتنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اب اس کیلئے وسطی ایشیا کا زمینی راستہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے۔ اس کے علاوہ، چین چاہے گا کہ افغان مسئلے کے حل میں پاکستان اور ایران کے کردار میں اضافہ کیا جائے اور بھارت کا کردار ثانوی ہو جائے۔ بھارت اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی قربت چین کی نظر میں آ چکی ہے۔ اگر چین کا خلیج تعاون کونسل کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہوتاہے تو، چین، وسطی ایشیا اور عرب ممالک کے ساتھ، امریکہ کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ بھارتی خارجہ پالیسی بنانے والوں کیلئے یہ صحیح وقت ہے کہ بھارت کے دوررس قومی مفادات کے بارے میں سوچیں۔ بھارت کے پاس قدیم آریہ ورت‘ میانمار، ایران اور وسطی ایشیا کو جوڑنے کیلئے سارک جیسا منصوبہ کیوں نہیں ہے؟
امریکہ کے حقیقی عزائم کا انکشاف
چار ممالک پر مبنی چوکڑی (کواڈ) کی حقیقت جلد ہی سامنے آ گئی۔ کواڈ کے چاروں ممالک کے رہنمائوں نے اپنی تقاریر میں چین کا نام تک نہیں لیا اور ہند بحرالکاہل کے خطے میں لچکدار اور جامع تنظیم کی بات کی، لیکن امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن گزشتہ دنوں جاپان پہنچ گئے اور چین کے خلاف گولہ باری شروع کر دی۔ یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو برسر اقتدار آئے صرف ڈھائی ماہ ہوئے ہیں، لیکن ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع جاپان کیسے پہنچ گئے؟ انہوں نے جاپان کو اپنے پہلے غیرملکی سفر کیلئے کیوں منتخب کیا؟ اور دونوں ایک ساتھ وہاں کیوں گئے ہیں؟ میرے خیال میں چین پر دبائو بنانے کیلئے۔ چین کو یہ بتانا ہوگا کہ کواڈ میٹنگ میں جو ڈھیلی ڈھالی گفتگو ہوئی‘ وہ اپنی جگہ لیکن امریکہ ہند بحرالکاہل کے خطے میں اس کا گھیرائو کرنے پر تلاہوا ہے۔ جاپانی وزرا کے ساتھ جاری اپنے مشترکہ بیان میں انہوں نے چین کا نام واضح طور پر لیا اور کہا کہ اس کا برتائو بہت جارحانہ ہے‘ اس نے اپنے پڑوسی ممالک اور ہند بحرالکاہل کے خطے میں فوجی، معاشی، سیاسی اور تکنیکی چیلنج پیش کیا ہے۔ کہا گیا ''اگر چین تشدد اور جارحیت کا مقابلہ کرتا ہے تو ہم اس کو پیچھے چھوڑ دیں گے‘‘۔ اس کے علاوہ چینی مظالم کا بھی حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے تبت اور سنکیانگ میں جاری ظلم و ستم پر بھی انگلی اٹھائی۔ بلنکن نے نہ صرف شمالی کوریا کے جوہری تخفیفِ اسلحہ کے تقاضے کا اعادہ کیا بلکہ انہوں نے میانمار میں فوجی طاقت کے استعمال کی بھی مذمت کی۔ دونوں امریکی وزیروں کے بعد اب جاپان بھی جنوبی کوریا جائے گا۔ یہ واضح ہے کہ امریکہ چار ممالک کے اس گروپ میں بہت سارے نئے ممبر ممالک کو شامل کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ بالا تمام امور پر بھارت کی رائے بالکل امریکہ کی طرح نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر بھارت کہیں اور امریکہ کی کسی رائے سے اتفاق کرتا ہے تو بھی وہ اس کے ساتھ عوامی طور پر اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کرتا ہے۔ مثال کے طور پر میانمار میں وہ فوجی طاقت اور شمالی کوریا کے بارے میں غیر جانب دار ہے۔ اب امریکی وزیر دفاع آسٹن نے بھی یہاں آ کر بھارت کے موقف کی حمایت کی لیکن گلوان وادی میں مقابلے کے باوجود بھارت بہت تحمل سے کام لے رہا ہے اور یہ جانتا ہے کہ امریکہ کتنا ہی دھمکی آمیز بات کرے، لیکن وہ الاسکا میں بیٹھ کر چین کے ساتھ خوشی سے دھندے کی بات کر رہا ہے۔ ان دونوں وزرا نے کواڈ کے پیچھے کارفرما امریکہ کے حقیقی ارادوں کو واضح کر دیا ہے‘ اس لئے بھارت کو بہت محتاط رہنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں