"DVP" (space) message & send to 7575

نکسل باغیوں سے کیسے نمٹا جائے؟

چھتیس گڑھ میں ٹیکل گوڈا کے جنگلوں میں 22 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس مقابلے میں تقریباً 20 مائو نواز بھی مارے گئے۔ اس نکسل تحریک کی شروعات 1967 میں بنگال کے نکسل باڑی گائوں سے ہوئی تھی۔ اس کے بانیان میں چارومجمدار، کانو سانیال اور کنہائی چیٹرجی جیسے نوجوان تھے۔ وہ کمیونسٹ تھے لیکن مائو ازم کو اپنا مذہب بنا چکے تھے۔ مارکس کے 'کمیونسٹ منشور‘ کا آخری پیراگراف ان کا مشن بن گیا تھا۔ وہ مسلح انقلاب کے ذریعے اقتدار کی معزولی پر یقین رکھتے تھے۔ اس لئے یہ بنگال، آندھرا‘ اڑیسہ‘ جھاڑ کھنڈ اور مدھیہ پردیش کے جنگلات میں پھیلے ہوئے ہیں اور کچھ اضلاع میں وہ اپنی متوازی حکومت چلا رہے ہیں۔ اس وقت، وہ چھتیس گڑھ کے 14 اضلاع اور ملک کے تقریباً 50 دیگر اضلاع پر غلبہ رکھتے ہیں۔ وہ وہاں لوگوں کو گوریلا طرز پر ہتھیار اور تربیت دیتے ہیں اور لوگوں سے رقم بھی اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ نکسلی گوریلا سرکاری عمارتوں، بسوں اور عام شہریوں پر بھی براہ راست حملہ کرتے رہتے ہیں۔ جنگلوں میں بسنے والے قبائلیوں کو مشتعل کر کے، ہمدردی حاصل کرتے ہیں اور انہیں سبز باغ دکھاتے ہیں اور اپنے گروہوں میں شامل کرتے ہیں۔ یہ گروہ ان جنگلات میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہونے دیتے اور دہشت گردوں کی طرح حملے کرتے رہتے ہیں۔ پہلے بنگالی، تیلگو اور اوڈیا نکسلی بستر میں ڈیرے ڈالتے تھے اور خونیں کھیل کھیلتے تھے‘ لیکن اب ہڈما اور سوجاتا جیسے مقامی قبائلی ان کی کمان سنبھال چکے ہیں۔ مرکزی پولیس فورس وغیرہ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کافی مقامی جاسوسی معلومات نہیں مل پاتی ہیں اور وہ درہم جنگل میں بھٹک جاتے ہیں۔ اس عدم معلومات کی وجہ سے اس بار نکسلیوں نے سیکڑوں پولیس اہلکاروں کا گھیرائو کرکے ان پر مہلک حملہ کیا۔ 2013 میں انہی نکسلیوں نے کانگریس کے متعدد قائدین سمیت 32 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اس پر نگاہ نہیں رکھی ہے۔ 2009 میں 2258 نکسلی تشدد کے واقعات ہوئے تھے لیکن2020 میں صرف 665 تھے۔ 2009 میں 1005 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 2020 میں 183 افراد ہلاک ہوئے۔ آندھرا، بنگال، اڑیسہ اور تلنگانہ کے جنگلات سے نکسلیوں کا صفایا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے اپنے جنگلات میں سڑکیں، پل، نہریں، تالاب، سکول اور ہسپتال وغیرہ بنائے ہیں۔ پولیس اور سرکاری ملازمین 'بستر‘ کے اندرونی علاقوں تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ اگر مرکزی حکومت جنگ کی سطح پر چھتیس گڑھ حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہے تو وہ نکسل مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے۔
مہاراشٹر: سیاست اور بدعنوانی
مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ کو بہت پہلے ہی استعفا دے دینا چاہئے تھا‘ لیکن بھارتی رہنمائوں کی کھال اتنی موٹی ہو چکی ہے جب تک ان پر عدالتوں کا ڈنڈا نہیں چل جاتا، وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ دیشمکھ نے اپنے پولیس اہلکار سچن واجے سے ہر ماہ 100 کروڑ روپے اکٹھے کرکے دینے کوکہا تھا۔ جیسے ہی اس کا انکشاف ہوا، پرت در پرت رازکھلنے لگے۔ صنعتکار مکیش امبانی کے گھر کے سامنے دھماکہ خیز مواد سے بھری کار رکھنے کی سازش، اس کار کے مالک منوش ہیرین کا قتل کے معاملے میں جو تحقیقات کے ذمہ دار تھے، اسی کیس میں اس کی گرفتاری اپنے آپ میں حیران کن تھی۔ ایک معمولی پولیس انسپکٹر، جو کسی جرم کی وجہ سے 16 سال معطل تھا، پھر نوکری پر رکھا جانا اور وزیر داخلہ سے براہ راست گفتگو کرنا، بہت ہی پراسرار ہے۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب ممبئی کے پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ کا اچانک تبادلہ کردیا گیا۔ پرمبیر ناراض ہوئے اور انہوں نے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو لکھے گئے خط میں وزیر داخلہ اور پولیس محکمہ کی تمام پول کھول کے رکھ دی۔ اسی بنیاد پر مہاراشٹرکی ہائیکورٹ نے ناراضی کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت کے ذریعے قائم کی جانے والی تحقیقات کے بجائے سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کو 15 دن میں مکمل کرنے کا حکم دیا! ہو سکتا ہے کہ ٹھاکرے کی حکومت سپریم کورٹ میں جانے کی کوشش کرے لیکن گزشتہ 4-5 ہفتوں میں، ٹھاکرے حکومت کی عزت خاک میں مل چکی ہے۔ یہ واضح رہے کہ سو کروڑ روپے ماہانہ کا وزیر کیا کرتا؟ وہ رقم وزیراعلیٰ یا ان کی پارٹی صدر کے حوالے کردی جاتی! اس لئے خود وزیر اعلی اور ان کے ترجمان دیشمکھ کو ڈھال بنایا گیا۔ شردپوار اپنی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے انیل دیشمکھ کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ کانگریس، جو اس مہااگھاڑی اتحاد کی تیسری پارٹی ہے‘ خاموش رہی۔ انہوں نے بھی دیشمکھ کے استعفا کا مطالبہ نہیں کیا۔ بھارتی سیاست کا کردار اس قدرمسخ ہوچکا ہے کہ وہ کاجل کی کوٹھری بن گئی ہے۔ وہ دن کب آئے گا جب صاف ستھرے لوگ سیاست میں آئیں گے اور وہ اس میں جانے کے بعد بھی صاف ستھرا رہ سکیں گے؟
غلط موقع پر صحیح کارروائی
چناؤ کے دوران برسر اقتدار اور اپوزیشن پارٹیوں کے بیچ تلخی کا ماحول تو اکثر ہو ہی جاتا ہے لیکن ادھر پچھلے کچھ سالوں میں بھارتی سیاست کا معیار کافی نیچے گرتا نظر آ رہا ہے۔ مرکزی سرکار کے محکمہ انکم ٹیکس نے ترنمول کانگرس کے نیتاؤں پر چھاپے مارے ہیں اور ان میں سے کچھ کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ ترنمول کے یہ نیتا لوگ شاردا گھوٹالہ میں پہلے ہی بدنام ہو چکے تھے۔ ان پر مقدمے بھی چل رہے ہیں اور انہیں پارٹی نکالا بھی دیا گیا تھا‘ لیکن چناؤ کے دوران ان کو لے کر خبریں اُچھلوانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ اپنے مخالفوں کو جیسے تیسے بھی بدنام کروا کر چناؤ میں ہروایا جائے۔ یہ پینترا صرف بنگال میں ہی نہیں مارا جا رہا بلکہ کئی دوسرے صوبوں میں بھی اسے آزمایا گیا ہے۔ اپنے مخالفین کو تنگ اور بدنام کرنے کیلئے سی بی آئی اور انکم ٹیکس کے محکمے کو ڈٹ جانے کا کہا گیا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بنگال میں مکھیا منتری ممتا بینرجی کے بھتیجے کی پتنی روچرا بینرجی اور ان کے دوسرے کچھ رشتوں داروں سے ایک کوئلہ گھوٹالے کے بارے میں پوچھ تاچھ چل رہی ہے اور چٹ فنڈ کے معاملے میں 2 دیگر وزیروں کے نام بار بار پرچارت (اعلان ) کئے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں نے اگر غیر قانونی کام کئے ہیں اور بھرشٹاچار (زیادتی) کیا ہے تو ان کے خلاف سخت کارروائی ضرور کی جانی چاہئے لیکن چناؤ کے دوران صحیح کارروائی کے پیچھے بھی برا مقصد ہی دکھائی پڑتا ہے۔ اس برے مقصد کی تصدیق کیلئے اپوزیشن پارٹیاں دیگر کئی مثالیں بھی پیش کرتی ہیں‘ جیسے جب 2018 میں آندھرا میں چناؤ ہو رہے تھے تو تب پی ڈی پی کے سنسد (رکن) وائی ایس چودھری کے یہاں چھاپے مارے گئے تھے۔ اگلے چناؤ میں چودھری بھاجپا میں آ گئے۔ کرناٹک کے مشہور کانگرسی نیتا شوکمار کے یہاں بھی 2017 میں درجنوں چھاپے مارے گئے تھے۔ ان دنوں وہ احمد پٹیل کو راجیہ سبھا چناؤ میں جتانے کیلئے گجراتی ودھائیکوں (ارکان اسمبلی) کی مہمان نوازی کر رہے تھے۔ پچھلے دنوں جب راجستھان کی کانگرس سنکٹ گرست ہو گئی تھی، مرکزی سرکار نے کانگرسی مکھیا منتری اشوک گہلوت کے بھائی اور دوستوں پر چھاپے مار دیئے تھے۔ تقریباً یہی رنگ ڈھنگ ہم کیرل کے کمیونسٹ اور کانگرسی نیتاؤں کے خلاف ان چناؤ میں دیکھ رہے ہیں۔ کئی تمل نیتا اور ان کے رشتے داروں کو سرکاری ایجنسیاں تنگ کر رہی ہیں۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ کے دوران مدھیہ پردیش کے کانگرسی مکھیا منتری کمل ناتھ کے رشتے داروں کو بھی اسی طرح تنگ کیا گیا تھا۔ 2018 میں صوبائی چناؤ سے پہلے کانگرسی نیتا بھوپیش بگھیل کو بھی ایک معاملے میں پھنسانے کی کوشش ہوئی تھی۔ اسی طرح کے الزام دیگر صوبوں کے کئی اپوزیشن نیتاؤں نے بھی لگائے ہیں۔ چناؤ کے دوران کی گئی ایسی کارروائیوں سے عام جنتا پر کیا اچھا اثر پڑتا ہے؟ شاید نہیں۔ غلط موقعوں پر کی گئی صحیح کارروائی کا اثر الٹا ہی ہو جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں