بھارت امریکہ تعلقات کے حوالے سے جو ماحول موجود تھا، اچانک اس میں ایک تلخ کیفیت پیدا ہو گئی۔ یہ تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب امریکی بحریہ کا ساتواں بیڑا بھارت کے 'میری ٹائم ایکسکلوسیو اکنامک زون‘ میں داخل ہوا۔ حکومت نے اسے سرحدی خلاف ورزی بتاتے ہوئے امریکی حکومت سے شکایت کی‘ لیکن امریکہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس نے کسی بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی‘ بھارتی دعویٰ غلط ہے‘ امریکہ نے اقوام متحدہ کے سمندری قانون کے مطابق بھارت کے صرف 370 کلومیٹر فاصلے کے اندر اپنا جنگی جہاز سمندری خطے میں بھیجا ہے‘ لکشدیپ کے قریب اس خطے میں امریکہ کو کسی ساحلی ملک سے اپنی سرگرمی کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ بحیرہ جنوبی چین میں بھی یہی کام کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، امریکہ چین کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو وہ اپنے دوست بھارت کے ساتھ کر رہا ہے۔
بھارت کو امریکی گروہ کا ایک اہم رکن ہونے کے باوجود، امریکہ سے اس موقع پر اس تنازع کو اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ دال بھات میں مسل چند کے گرنے کا معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر امریکہ نے بھارت کے معاشی علاقے میں آنے سے پہلے بھارت کو معلومات دی ہوتی تو شاید یہ تنازع پیدا نہ ہوا ہوتا، لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے سمندری قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی دفعہ 58 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ملک کے معاشی شعبے میں اپنی سرگرمیوں کے لئے کسی بھی ساحلی ملک کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ ہاں، ساحلی قوم کو صرف ساحلی پٹی کی اپنی 12 میل کی سمندری حدود پر خود مختاری حاصل ہے۔ یہ قانون 1982 میں نافذ کیا گیا تھا۔ ہندوستان نے 1995 میں اس پر دستخط کیے تھے۔ 168 ممالک نے اسے قبول کیا ہے لیکن امریکہ نے ابھی تک اس کی منظوری نہیں دی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کا اسی طرح احترام کرتا ہے جس طرح بھارت ایٹمی عدم پھیلائو معاہدے کی حمایت کرتا ہے وغیرہ‘ یعنی امریکہ اس سمندری قانون کو ماننے کے لئے آزاد ہے جبکہ اسی قانون کی دفعہ 88 میں کہا گیا ہے کہ ''کھلا سمندر پُرامن سرگرمیوں کے لئے محفوظ ہونا چاہئے‘‘۔
اس نکتے پر بھارت کا زور ہے۔ امریکہ کے جنگی جہاز بھارت کے اس معاشی خطے میں طرح طرح کی سٹریٹیجک سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 2001 میں برطانیہ نے بھی بھارت کے سمندری زون میں اسی طرح کا کام شروع کیا تھا۔ تب بھی، وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے اس کی مخالفت کی تھی۔ کچھ عرصہ قبل انڈین بحریہ کے ذریعے انڈمان سے آنے والے ایک چینی جہاز کو پسپا کر دیا گیا تھا۔ صرف بھارت ہی نہیں، دنیا کے دوسرے 28 ساحلی ممالک نے بھی اپنے 'خصوصی معاشی خطوں‘ میں اس طرح کے تجاوزات کو روکنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ مشرقِ بعید کے سمندر کو 'انڈوپیسیفک‘ کا نام دے رہا ہے اور دوسری طرف بحر ہند میں بھارت کا لحاظ نہیں کر رہا ہے۔ یہ کیسی داداگیری ہے؟
کورونا اور کمبھ اسنان
خوشی کی بات ہے کہ ہریدوار میں جاری کمبھ میلہ ملتوی کیا جا رہا ہے۔ یہاں پہلے شاہی غسل میں 35 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ 27 اپریل تک چلنے والے اس کمبھ میں، لاکھوں افراد اب بھی جمع ہو رہے ہیں، یعنی ہزاروں لاکھوں لوگ کورونا کے نئے مریض بن گئے ہیں۔ اگر یہ کمبھ جاری رہتا تو کورونا بھارت کے گائوں گائوں تک پھیل جاتا۔ غریب لوگ مر جاتے۔ دہلی، ممبئی، اندور اور پونے جیسے شہروں میں مریضوں کو بستر، دوائیں اور آکسیجن سلنڈر نہیں مل پا رہے ہیں، تو پھر گنگا پریمی ان کروڑوں دیہاتیوں کا کیا ہوتا؟ بھارت ایک خوفناک بحران میں پھنس جاتا۔
ان اکھاڑوں کے قائدین نے اس نازک موقع پر بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ منافقت میں نہیں پھنسے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمبھ جیسے میلے بے نتیجہ ہیں۔ وہ بہت اچھے اور منافع بخش ہیں۔ وہ انسانی سیاحت، وان وہار اور قومی اتحاد کو مستحکم کرتے ہیں۔ ہمارے سنتوں نے بڑے پیمانے پر اس میلے کے باقی غسل ملتوی کر دیئے ہیں اور تمام مذہبی لوگوں کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ ہندو مذہب، رسوم اور رواج ملک اور وقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا ہے۔ اگر گنگا نہانے کو ملتوی کیا جا سکتا ہے تو دوسری مصروفیات کیوں ملتوی یا منسوخ نہیں کی جا سکتیں؟ بحران کی اس گھڑی میں عوام حکومت سے پہلے خود یہ کر دکھائیں اور ثابت کریں کہ وہ ذمہ دار شہری ہیں۔ حکومت کورونا کی لڑائی میں جو کچھ کر سکتی ہے وہ کر رہی ہے، لیکن جب تک عوام حکومت سے زیادہ با شعور نہیں ہوتے تب تک اس وبا پر مکمل طور پر قابو پانا مشکل بلکہ ناممکن ہو گا۔
سیاست:خدمت نہیں، فائدے کا سودا ہے!
ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ پانچ ریاستیں نہ تو سب سے بڑی اور نہ ہی خوش حال ہیں لیکن ان میں اتنی بد عنوانی ہے، جو پورے بھارت کے انتخابات میں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ اب تک، تقریباً 1000 کروڑ روپے کی چیزیں پکڑی گئی ہیں، جو ووٹروں میں بانٹی گئی تھیں اس مقصد کے لئے کہ ان کے ووٹ بٹورے جا سکیں۔ ان میں نقدی، شراب، گانجہ، پوست، کپڑے، برتن وغیرہ کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ امیدوار معصوم رائے دہندگان کو مائل کرنے کے لئے وہی تقسیم کرنا شروع کر دیتے ہیں جو انہیں فائدہ دیتا ہے۔ یہ لالچ اس وقت برہماستر کی طرح کام کرتا ہے جب نظریہ، ذات پات اور فرقہ واریت وغیرہ کی ساری تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں۔
بہت سے امیدوار اپنے ووٹروں کو رشوت نہیں دینا چاہتے ہیں، لیکن ان کی جماعتیں ان کیلئے اتنا پیسہ اکٹھا کرتی ہیں کہ وہ آسانی سے رشوت کا کھیل کھیل سکتے ہیں۔ پارٹیوں کے انتخابی اخراجات کی کوئی حد نہیں ہے۔ بھارت کا الیکشن کمیشن انتخابی بد عنوانی کے اعدادوشمار کو اپنی تعریف میں شامل تو کرتا ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ اس نے کس جماعت کے امیدوار کو کس حلقے میں پکڑا ہے۔ حاصل اعدادوشمار کے مطابق اس میں تامل ناڈو سب سے آگے ہے۔ صرف تامل ناڈو میں 446 کروڑ روپے مالیت کا سامان پکڑا گیا ہے۔ بنگال میں 300 کروڑ، آسام میں 122 کروڑ، کیرالا میں 84 کروڑ اور پڈوچیری میں 36 کروڑ ضبط کیا گیا ہے۔ کوئی ریاست باقی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابی بد عنوانی ہر جگہ ہے۔
ان اسمبلیوں کے انتخابات میں، 2016 کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار بد عنوانی میں لگ بھگ پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ بد عنوانی کے اس اضافے کے لئے کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟ کیا سیاست دانوں اور جماعتوں نے ان پانچ سالوں میں اتنی رقم اکٹھی کی ہے کہ وہ لوگوں کو کھلم کھلا لٹا رہے ہیں؟ یہ رقم کہاں سے آئی؟ خالص بدعنوانی سے!
بھارت کا انتخابی نظام سیاسی بد عنوانی کی جڑ ہے۔ بھارت سے بد عنوانی کی اصلاح کئے بغیر کبھی اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کو کسی بد عنوان شخص اور بد عنوان سیاسی جماعت کو سزا دینے کا اختیار کیوں نہیں ہے؟ انہیں جیل بھیج سکتے ہیں اور ان پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ جب تک بھارتی سیاست دانوں کی ذاتی اور خاندانی خوش حالی پر کوئی سخت پابندی نہیں لگے گی، ہماری جمہوریت بد عنوانی سے پاک نہیں ہو گی۔ آج کی سیاست کا مقصد خدمت نہیں بلکہ فائدے کا سودا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں الیکشن عوام کی خدمت کر کے نہیں، بلکہ رشوت تقسیم کر کے جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے۔