بھارت میں کورونا کی وبا آج کل ایسی بھیانک شکل اختیار کر رہی ہے کہ اس نے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ پاک بھارت جنگوں کے وقت اتنا خوف نہیں تھا، جتنا آج کل ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو قوم سے خطاب کرنا پڑا اور بتانا پڑا کہ حکومت اس وبا سے لڑنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔ آکسیجن، انجکشن، بیڈ، دوائیوں کی کمی کو کیسے دور کیا جائے؟ اپوزیشن رہنمائوں نے حکومت پر غفلت اور لاپروائی کا الزام عائد کیا ہے‘ لیکن انہی قائدین کو کورونا نے پکڑ لیا ہے۔ کورونا کسی بھی ذات، حیثیت، مذہب، صوبے وغیرہ سے امتیازی سلوک نہیں کر رہا ہے۔ سب ویکسین کیلئے دوڑ لگا رہے ہیں۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرہ لوگوں کی مدد کریں۔ یہاں بڑا سوال یہ ہے کہ یہ وبا ہر روز لاکھوں نئے لوگوں میں کیوں پھیل رہی ہے اور اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ لوگوں میں بے احتیاطی بہت بڑھ گئی تھی۔ دہلی، ممبئی، کلکتہ، پونے جیسے شہروں کے علاوہ، چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ماسک پہنے بغیر لوگ گھومتے ہوئے نظر آئے۔ شادیوں، ماتمی جلسوں اور کانفرنسوں میں ایک بہت بڑا ہجوم نظر آیا۔ بازاروں میں، لوگ ایک دوسرے کے قریب چلتے رہے۔ یہاں تک کہ ٹرینوں اور بسوں میں بھی لوگ جسمانی فاصلہ برقرار رکھنے اور منہ چھپانے میں عدم توجہی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ایسے حالات میں پھر یہ کورونا کیوں نہیں پھیلے گا؟ شہروں سے دیہاتوں میں فرار ہونے والے لوگ اپنے ساتھ کورونا کے جراثیم بھی لے کر جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، ہم ہر روز لاکھوں لوگوں کیلئے ہسپتالوں میں جگہ کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟ حکومت نے یقینی طور پر نرمی کی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ کورونا کا دوسرا حملہ اتنا خوفناک ہو سکتا ہے۔ وہ اس نئے حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری کوشش کر رہی ہے۔ کچھ صوبائی حکومتیں ایک بار پھر لاک ڈائون کا اعلان کررہی ہیں، جبکہ کچھ نائٹ کرفیو نافذ کر رہی ہیں۔ وہ خوفزدہ ہیں۔ ان کے ارادے نیک ہیں، لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ بیروزگار لوگ بھوک سے مر جائیں گے، معیشت تباہ ہو جائے گی اور بحران دوگنا ہو جائے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے مکمل لاک ڈائون کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ ابھی، سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگ منہ پر ماسک لگائے رکھیں، جسمانی فاصلہ رکھیں اور اپنے روزمرہ کے تمام کام کرتے رہیں۔ یہ ضروری ہے کہ لوگ خوفزدہ نہ ہوں۔ کورونا ان لوگوں کو ہوا ہے جو مندرجہ بالا احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر سکے ہیں۔
بھارت کی سکڑتی ہوئی مڈل کلاس
کورونا وبا کے دوسرے حملے کا اثر اتنا شدید ہے کہ لاکھوں مزدور ایک بار پھر اپنے گائوں بھاگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے والوں اور منشیات فروشوں کے سوا تمام تاجر پریشان ہیں۔ ان کے کاروبار تباہ ہورہے ہیں۔ اس دور میں، صرف لیڈر اور ڈاکٹر زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے تمام شعبوں میں سُستی کا ماحول ہے۔ گزشتہ سال، تقریبا 10 ملین افراد بیروزگار ہوئے تھے۔ اس وقت حکومت نے غریبوں کی کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے مدد ضرور کی، لیکن یورپی حکومتوں کی طرح اس نے بھی خود عام آدمی کی 80 فیصد آمدنی کا بوجھ نہیں اٹھایا۔ اب ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کی بنیاد پر، پیو ریسرچ سنٹر کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے بھارت کی معیشت اس قدر گر چکی ہے کہ اس کے غریبوں کا تو کیا، جسے ہم مڈل کلاس کہتے ہیں، اس کی تعداد بھی 10 کروڑ سے کم ہو کر7 کروڑ رہ گئی ہے یعنی درمیانی طبقے سے 3 ملین افراد غریبی کی سطح پر آ چکے ہیں۔ متوسط طبقے کے خاندانوں کے یومیہ اخراجات 750 سے 3750 روپے تک ہوتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار خود ہی کافی مایوس کن ہیں۔ اگر ہندوستان کا متوسط طبقہ 10 کروڑ ہے تو غریب طبقہ کتنے کروڑ ہوگا؟ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ اعلیٰ متوسط طبقے اور اعلیٰ آمدنی والے گروپ میں 5 کروڑ افراد یا اس سے بھی زیادہ 10 کروڑ لوگ ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا یہ نہیں ہے کہ بھارت کے 100 کروڑ سے زیادہ لوگ غریب طبقے میں آگئے ہیں؟ ہندوستان میں انکم ٹیکس جمع کرنے والے کتنے لوگ ہیں؟ پانچ چھ کروڑ بھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 1.25 بلین افراد کے پاس کھانے، لباس، رہائش، تعلیم، دوا اور تفریح کے کم سے کم وسائل بھی موجود نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آزادی کے بعد بھارت نے کوئی پیشرفت نہیں کی۔ اس نے ترقی کی ہے لیکن اس کی رفتار بہت سست رہی ہے اور اس کا فائدہ بہت کم لوگوں تک محدود رہا ہے۔ چین بھارت سے بہت پیچھے تھا لیکن اس کی معیشت آج ہندوستان سے پانچ گنا بڑی ہے۔ وہ کورونا پھیلانے کے لئے پوری دنیا میں بدنام ہوا ہے، لیکن اس کی معاشی ترقی اس دور میں بھی بھارت کی نسبت زیادہ ہے۔ وہ دوسری سپر پاورز کے مقابلے میں کورونا کو کنٹرول کرنے میں زیادہ کامیاب ہے۔ بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے باوجود، وہ اب بھی ذہنی طور پر انگریزوں کا غلام ہی ہے۔ اس کی زبان، اس کی تعلیم، اس کی دوائی، اس کا قانون، اس کا طرز زندگی حتیٰ کہ اس کا نقلچی پن بھی آج تک زندہ ہے۔ خود انحصاری کی عدم موجودگی میں، بھارت نہ تو کورونا کی وبا کا شدت سے مقابلہ کر پا رہا ہے اور نہ ہی یہ ایک بڑی طاقت بننے کے قابل ہے۔
بھارت روس تعلقات
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے مابین پچھلے دنوں ہونے والی گفتگو کے اقتباسات شائع ہو چکے ہیں اور اگر آپ نے ان کی پریس کانفرنس میں ان دونوں کی باتوں کا گہرائی سے جا ئزہ لیا ہو گا تو بھارتیوں کو کچھ خوشی ہوئی ہوگی لیکن وہ غمزدہ ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکے ہوں گے۔ بھارتی لوگ اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں کہ بھارت روس سے ایس400 میزائل خرید رہا ہے اور یہ خریداری امریکی پابندیوں کے باوجود جاری رہے گی۔ روس بھارت سے ساڑھے سات لاکھ کورونا ویکسین خریدے گا۔ اگرچہ بھارت نے روسی ہتھیاروں کی خریداری میں تقریباً 33 فیصد کی کمی کردی ہے، لیکن لاوروف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ روس اب جدید اسلحہ سازی میں بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔ لاوروف نے ہند روس سٹریٹیجک اور تجارتی تعاون بڑھانے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ بھارت کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے تعلقات بند کرنے کیلئے آزاد ہے۔ یہاں اس کا اشارہ شاید بھارت اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی قربت کی طرف تھا، لیکن اس نے بہت سی باتیں بھی کہی ہیں، جن پر تھوڑا سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ وہ دن گزر گئے جب بھارت روس تعلقات کو آہنی دوستی کہا جاتا تھا۔ نئی دہلی میں پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی لاوروف اسلام آباد پہنچ گئے۔ بھارت کے بارے میں روس کا رویہ ویسا ہی ہو گیا ہے، جیسا کبھی امریکہ کا تھا۔ وہ اسلام آباد کیوں گئے؟ کیونکہ وہ افغانستان کے بحران کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔ سوویت روس ہی اس تکلیف کا باعث بنا تھا اور وہی اس کی دوا تلاش کر رہا ہے۔ لاوروف نے واضح طور پر کہا کہ طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کیے بغیر افغان بحران حل نہیں ہو سکتا۔ لاوروف نے طالبان کے ساتھ روسی تعلقات پر اصرار کیا۔ انہوں نے 'انڈو پیسیفک‘ کے بجائے 'ایشیا پیسیفک‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ انہوں نے امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلوی چوکڑی کو 'ایشین نیٹو‘ بھی کہا۔ روس، چین اور پاکستان کے ساتھ مل کر اب امریکی تسلط کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ بہتر ہو گا کہ بھارت کسی دھڑے کا پچھ لگو نہ بنے۔ جے شنکر نے اس نکتے کو واضح کیا ہے۔