ایک یا دو صوبوں کو چھوڑ کر بھارت کے تقریباً ہر صوبے سے خبریں آرہی ہیں کہ کورونا کی وبا کم ہو رہی ہے۔ اب ملک کے سینکڑوں ہسپتالوں اور جدید طبی مراکز میں بستر خالی پڑے ہیں‘ تقریباً ہر ہسپتال میں آکسیجن کی کافی مقدار ہے‘ ادویات کی بلیک مارکیٹنگ کی خبریں بھی کم ہوگئی ہیں‘لیکن کورونا ویکسین کم پڑ رہی ہے۔ بہت سی ریاستوں نے 18 سال سے زائدعمر کے لوگوں کوویکسین لگانے کا پروگرام ملتوی کردیا ہے۔ملک میں تقریباً 20 ملین لوگوں کو پہلی ویکسین ملی ہے لیکن یہ لوگ کون ہیں؟ ان میں سے بیشتر شہری اچھے تعلیم یافتہ ‘ متمول اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔ اب بھی دیہی ‘ غریب ‘ پسماندہ ‘ ناخواندہ لوگ ویکسین کے منتظر ہیں۔ بھارت میں تین لاکھ سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گزشتہ 12 دن میں 50 ہزار افرادمر چکے ہیں۔ بھارت میں کسی بھی وبا سے اتنے سارے لوگ پہلے کبھی نہیں مرے۔موت کے ان اعداد و شمار نے ہربھارتی کے دل میں موت کا خوف ڈال دیا۔ جو لوگ صبح پانچ بجے گڑگاؤں میں میرے گھر کے سامنے سڑک پر چلتے تھے وہ آج کل دکھائی نہیں دیتے۔ ہر ایک اپنے گھر میں بند ہے۔ آج کل گھروں میں بھی تنہائی ‘ ویرانی اور افسردگی کا ماحول ہے۔ میں نے جیل کے دوروں میں ایسا نہیں دیکھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ کورونا میں رہنے کے بجائے جیلوں میں رہنا کتنا خوشگوار تھا‘لیکن جب ہم دنیا کے دوسرے ممالک کو دیکھتے ہیں تو ذہن کو تھوڑا سکون ملتا ہے۔ بھارت میں اب تک تین لاکھ افراد کی موت ہوچکی ہے جبکہ امریکہ میں چھ لاکھ اور برازیل میں ساڑھے چار لاکھ۔ کورونا کی اس لڑائی میں ابتدائی طور پر حکومتیں غفلت برت رہی تھیں لیکن اب بی جے پی اور غیر بی جے پی حکومتیں یکساں قسم کامظاہرہ کررہی ہیں۔ اگر تیسری لہر آتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرسکیں گی۔
مشکل میں نیپالی سیاست
نیپال کی حکومت اور پارلیمنٹ ایک بار پھرمشکل میں پڑگئی ہے۔ صدر ودیا دیوی بھنڈاری نے اب وہ کام کیا ہے جو پہلے 20 دسمبر کو بھی کیا تھا یعنی پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا ہے اور چھ ماہ بعد نومبر میں انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح وزیر اعظم کے پی اولی کو کرسی پرقائم رہنے کے لیے مزید چھ ماہ کا عرصہ مل گیاہے۔ جب 20 دسمبر کو پارلیمنٹ تحلیل ہوئی تو نیپال کی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا اور فروری میں پارلیمنٹ کو بحال کردیا لیکن اولی اس میں اپنی اکثریت ثابت نہیں کرسکے۔پچھلے تین مہینوں میں بہت ہیرا پھیری ہوئی ہے‘ کٹھمنڈو ہیرا پھیری اور لین دین کا بازار بن گیا۔ پارٹیوں کے بہت سے دھڑے تقسیم ہو گئے اور ارکانِ پارلیمنٹ ادھراُدھر آنے جانے لگے۔ اس کے باوجود اولی ابھی تک پارلیمنٹ میں اعتماد کی تحریک حاصل نہیں کرسکے اور نہ ہی اپنی اکثریت ثابت کرسکے۔ اعتماد کی تحریک پارلیمنٹ میں آنے پر اولی کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد صدر نے قائدین کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا‘ لیکن اولی اور نیپالی کانگریس کے رہنما شیر بہادر دیوبہ نے ممبران پارلیمنٹ کی جو فہرست صدر کو دی اس میں درجنوں نام ایک جیسے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ سارا معاملہ متنازع تھا۔ ایسی صورتحال میں صدر ودیا دیوی بھنڈاری کس سے حلف لیتیں؟ انہوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیااور نومبر میں انتخابات کا اعلان کیا۔اب مخالف جماعتوں کے رہنما ایک بار پھر سپریم کورٹ میں پناہ لیں گے۔ انہیں یقین ہے کہ عدالت اس پارلیمنٹ کو دوبارہ زندہ کرے گی۔ ان کی رائے ہے کہ اگر سپریم کورٹ دوبارہ پارلیمنٹ کو بحال نہیں کرتی اور اولی حکومت استعفیٰ نہیں دیتی تو وہ اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں آئندہ پانچ چھ ماہ تک نیپال میں افراتفری کا سامنا کرنا پڑے گا ‘ جبکہ روزانہ ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ آج کل نیپال کی معیشت بھی بہت خطرے سے دوچار ہے۔ نیپال کے صدر کو یا تو نیا وزیر اعظم مقرر کرنا تھا اور ان سے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کرنے یا مشترکہ حکومت تشکیل دینے کیلئے کہناتھا ‘ جو منصفانہ انتخابات کرواسکے۔ اب اولی نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے بھی الیکشن کمیشن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے۔حالانکہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ منصفانہ انتخابات کروائیں۔اپوزیشن لیڈر صدر ودیا دیوی بھنڈاری اور اولی پر الزام عائد کررہے ہیں کہ اولی کی مہربانی سے ہی وہ اپنے عہدے پر فائز ہوئی ہیں‘ اسی لئے وہ اولی کے کہنے پر سب کچھ کررہی ہیں۔ اس الزام میں کچھ حقیقت بھی ہوسکتی ہے ‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کی حکومت بنی بھی تو جوڑ توڑکی حکومت کتنے دن چلے گی؟ اس سے بہتر یہ کہ انتخابات کروائے جائیں اور نیپالی عوام جس پارٹی کو اقتدار میں لانا چاہیں اپنی مرضی سے لائیں۔ اس کورونا بحران کے دوران انتخابات ہوں گے یا نہیں ‘ یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ نیپالی سیاست بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے۔
وبا میں امید کی کرن
جب سے بھارت آزاد ہوا ہے کورونا جیسا بحران کبھی نہیں آیا۔ اس بحران میں کوئی نہیں بچا ‘ شاہ بادشاہ ‘ کروڑ پتی ‘ کوڑی پتی ‘ عورت مرد ‘ شہری دیہی ‘ ڈاکٹر‘ مریض۔ سب کو اس نے نگل لیا۔ اس سے پہلے کسی نے بھی ملک میں شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں لاشوں کا ڈھیر نہیں دیکھا تھا۔بھارت میں ‘ بیماریوں ‘ حادثات اور بڑھاپے کی وجہ سے مرنے والے لوگوں کی تعداد روزانہ 25 ہزار ہے۔ اگر اس میں مزید چار‘ پانچ ہزار کا اضافہ کیا جائے تو افسوس کی بات توہے لیکن زلزلے جیسی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ حکومتی اعداد و شمار پر ہر صوبے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ملک میں ایسے لوگوں سے ملنا مشکل ہے جنہوں نے کسی رشتہ دار یا دوست کے معاملے میں کورونا کا سامنا نہیں کیا ہے۔بھارت کے دو فیصد لوگوں کو یہ بیماری لاحق ہوئی ہے لیکن 100 فیصد لوگ اس سے خوفزدہ ہیں۔ اس خوف نے کورونا میں بھی اضافہ کیا ہے۔ مرنے والوں کی تعداد اب بھی روزانہ چار ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن مریضوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔ انفیکشن کم ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں متاثرہ افراد صحت یاب ہو رہے ہیں۔ اگر یہی رفتار اگلے ایک یا دو ہفتوں تک جاری رہی تو توقع ہے کہ صورتحال قابو میں آجائے گی۔15‘20 دن پہلے جب کورونا کا دوسرا حملہ شروع ہوا تو آکسیجن ‘ انجکشن اور بستروں کی کمی نے ملک میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ بہت سے لوگ بلیک مارکیٹنگ پر اتر آئے۔ نجی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو لوٹ مار کا نادر موقع مل گیاتھا ‘ لیکن اب حکومتوں کی عجلت ‘ سرکاری ملازمین کی فیاضی اور غیر ملکی امداد کی وجہ سے پورا ملک تھوڑا سا ٹھنڈا محسوس کررہا ہے لیکن تشویش ابھی کم نہیں ہوئی۔ ریاستی حکومتیں کورونا کے تیسرے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔پہلے اوردوسرے حملے سے مرکز اور ریاستوں نے کچھ سبق سیکھاہے۔ لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما اب بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ اپنے مخالفین کی جگہ ہوتے تو وہ کیا کرتے؟ اگر مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے تو پھر ایک درجن کے قریب ریاستوں میں مخالفین کی حکومتیں بھی ہیں۔ کیا انہوں نے کورونا کے پہلے دور کے بعد کم لاپروائی دکھائی ہے ؟ اب اگر انکے قائدین یہ کہتے ہیں کہ کورونا کا یہ دوسرا حملہ ''مودی حملہ‘‘ ہے تو وہ اتنا کہہ کر اپنا مذاق اڑا رہے ہیں۔ بی جے پی کے ترجمان بھی مخالف رہنماو ٔں کا مقابلہ کرکے اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔یہ وقت کورونا کے خلاف جنگ کاہے۔ اس وقت ہمارا دشمن صرف کورونا ہے۔ پورے ملک کو اس کے خلاف متحد ہوکر لڑنا ہے۔ اگر لگ بھگ 15 کروڑ سیاسی کارکن ‘ 60 لاکھ صحت کارکن اور 20 لاکھ فوجی ایک ساتھ ہوجائیں تو کورونا سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔ جب خوف کے بادل پھیلتے ہوتے ہیں تو امید کی کرن ابھرتی ہے۔