"DVP" (space) message & send to 7575

ہمسایہ ممالک کے ساتھ نئے اقدامات ضروری

بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر فی الحال امریکی رہنمائوں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کے ساتھ وسیع پیمانے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ ایک بروقت اقدام ہے کیونکہ اس کورونا وبا کے دور میں ہر ایک کی توجہ اس مرض پر مرکوز ہے اور خارجہ پالیسی کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے لیکن چین جیسی ابھرتی ہوئی اقوام اس وقت کو بطور خاص اپنے حق میں استعمال کر رہی ہیں۔ بھارت اور بحر ہند کے خطے کے ہمسایہ ممالک میں چین کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تو پہلے ہی چین کی آہنی دوستی ہے۔ پاکستان افغان بحران کے حل کے لئے ہر طرح کا تعاون کر رہا ہے‘ اور اس کی شدید کوشش ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات قائم ہو سکیں۔ چین کا پاکستان کے ساتھ اتحاد ہے‘ لیکن اب وہ سری لنکا کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات قائم کر رہا ہے۔ کولمبو پورٹ سٹی اب سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں تعمیر کیا جا رہا ہے‘ اس کی تعمیر کیلئے 15 ارب ڈالر مختص کیے جائیں گے۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ نے اس بارے میں ایک قانون نافذ کیا ہے۔ سری لنکا کی حکومت نے ایک چینی کمپنی کے ساتھ کولمبو میں اونچی سڑکیں بنانے کیلئے بھی ایک بڑا معاہدہ کیا ہے‘ مگر چینیوں نے یہاں مبینہ طور پر اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے کہ جہاں بھی ان کے تعمیراتی کام جاری ہیں انہوں نے جو بورڈ لگا رکھے ہیں وہ سب سنہالی‘ چینی اور انگریزی میں ہیں۔ ان میں سری لنکا کی دوسری سرکاری زبان تمل غائب ہے کیونکہ یہ ہندوستانی زبان بھی ہے۔ اس معاملے کو لے کر ان دنوں سری لنکا میں تنازع بھی چل رہا ہے۔ کبھی سری لنکا کے رہنما بھارت سری لنکا دوستی کو بے مثال قرار دیتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب چونکہ خطے میں چین کا غلبہ بڑھ رہا ہے اس لیے اب بھارتی وزارت خارجہ کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ چوکس اور متحرک ہونا پڑے گا۔ جے شنکر جنوبی ایشیا کے ممالک کے لئے بائیڈن انتظامیہ کو نئے عملی اقدامات تجویز کر سکتے ہیں۔
برکس میں بھارتی موقف
اس سال پانچ ممالک (بھارت‘ برازیل‘ روس‘ چین اور جنوبی افریقہ) کی تنظیم ''برکس‘‘ کی سربراہی بھارت کر رہا ہے۔ اس تنظیم کے اجلاس میں جو تبادلہ خیال ہوا اور جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا‘ اس میں تمام ممبر ممالک نے بہت سے بین الاقوامی مسائل پر بھارت کے نقطہ نظر سے اتفاق کیا۔ ایسا کوئی بھی معاملہ نہیں اٹھا‘ جس سے ان میں سے کسی نے بھی اختلاف ظاہر کیا ہو۔ خدشہ یہ تھا کہ چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین کچھ تناؤ ہو سکتا ہے کہ وادی گلوان کا معاملہ ابھی طے نہیں ہوا‘ لیکن یہ اطمینان کی بات ہے کہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کسی تنازع کے بجائے بھارت میں کورونا کی وبا کے خلاف چلنے والی مہم میں بھارت کے ساتھ سرگرم تعاون پر زور دیا‘ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور حکومتِ ہند کی کوششوں کی تعریف کی۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کی اس تجویز کی تائید تمام وزرائے خارجہ نے کی‘ جس میں انہوں نے کووڈ ویکسین پر تیار کنندگان کے کاپی رائٹ میں نرمی کی کوشش کی تھی۔ چین اور روس خود ویکسین تیار کرنیوالے ممالک ہیں‘ اس کے باوجود انہوں نے اس معاملے پر اتفاق رائے سے امریکی اور یورپی ممالک پر دباؤ ڈالا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اس تجویز کی خصوصی شراکت ہو گی۔ افغانستان کے سوال پر تمام اقوام نے اسی رائے کا اظہار کیا جو بھارت کہتا رہا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ افغانستان میں تشدد اور دہشتگردی کا خاتمہ ہونا چاہئے اور اس کے عوام کی آزادی اور وقار کا تحفظ ہونا چاہئے۔ اس کی خود مختاری برقرار رہنی چاہئے۔ وہ مطالبات جو بھارت برسوں سے کر رہا ہے‘ ان پانچوں اقوام نے ان کی حمایت کی ہے۔ روس اور چین سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں‘ اس کے باوجود بھارت‘ برازیل اور افریقہ کی آواز میں آواز ملا کر انہوں نے اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ ان معاملات پر امریکہ‘ فرانس اور برطانیہ کا رویہ ڈھیلا یا منفی رہتا ہے۔ برکس ممالک نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک جیسے اداروں میں بھی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت کو اس میں ایک خاص کامیابی ملی ہے کہ اس نے برکس ممالک کو ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف بات کرنے کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ برکس کے اس اجلاس سے قبل وزیر خارجہ جے شنکر نے امریکی رہنمائوں اور عہدیداروں کے ساتھ گہری بات چیت کرتے ہوئے بھارت کی شبیہ صاف کر دی ہے کہ بھارت بین الاقوامی دھڑے بندی سے آزاد رہ کر تمام اقوام کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کیلئے تیار ہے۔
کسے غداری کہیں اور کسے نہیں؟
بغاوت سے زیادہ سنگین جرم کیا ہو سکتا ہے‘ خاص کر جب کسی ملک میں بادشاہ کا نہیں‘ لوگوں کا راج ہو۔ جمہوریت میں بغاوت صرف اسے ہی سمجھا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے وہاں بغاوت ہو سکتی ہو یا ملک تقسیم ہو سکتا ہو یا ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہو۔ آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمنٹ آر کے راجو نے اس طرح کا کوئی بھی فعل یا گفتگو نہیں کی لیکن پھر بھی آندھرا پردیش حکومت نے ان پر ملک سے بغاوت کا مقدمہ کر دیا۔ اس کیلئے ان کی تقریر کو اساس بنایا گیا جس میں انہوں نے کورونا کے انتظامات میں آندھرا حکومت پر کڑی تنقید کی تھی۔ تلگو تقریر کا ترجمہ جب سپریم کورٹ نے سنا تو انہیں ضمانت دے دی۔ اس کے بعد آندھرا حکومت کے پولیس سٹیشن میں دو تلگو نیوز چینلز کو بھی گھسیٹ لیا گیا‘ جنہوں نے راجو کی تقریر نشرکی تھی۔ اس تقریر کو دوسرے بہت سے ذرائع نے بھی جاری کیا تھا‘ لیکن آندھرا حکومت نے صرف ان دو چینلز کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ نے آندھرا پردیش حکومت سے اگلے ایک ماہ میں کچھ سوالات کے جوابات طلب کر لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکومت کیلئے یہ ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہوگا کہ ان دونوں چینلز نے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے۔ خود عدالت نے کہا ہے کہ آج کے بھارت میں برطانوی دور کے بغاوت کا قانون لاگو کرنا عجیب بات ہے۔ اس قانون کی آڑ میں میڈیا کا گلا گھونٹنا سراسر غیر منصفانہ ہے۔ اس قانون کے مطابق اگر ملک سے غداری کے جرم میں سزا سنائی جاتی ہے تو سزا یافتہ شخص کو تین سال قید سے عمر قید تک اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ یہ قانون انگریزوں نے 1870ء میں بنایا تھا۔ اس کے تحت بہت سے انقلابی‘ کانگریسی‘ مصنفین اور صحافیوں کو برطانوی حکومت نے گرفتار کیا تھا۔ جب بھارت آزاد ہوا تو یہ لفظ ''بغاوت‘‘ بھارتی آئین سے ہٹا دیا گیا اور آرٹیکل 19 (1) میں آزادی اظہارِ رائے کا حق تمام شہریوں کو دیا گیا‘ لیکن ملک سے بغاوت سے متعلق تعزیراتِ ہند کی دفعہ 124 ( A) اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کو 1951ء کی آئینی ترمیم کے ذریعے تقویت ملی تھی جس میں آرٹیکل 19 (2) کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی پر کچھ ''معقول پابندیاں‘‘ عائد کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح کی پابندیاں بعض اوقات ضروری ہو جاتی ہیں‘ لیکن حکومتیں ان پابندیوں کا کتنا غلط استعمال کرتی ہیں اس کا پتہ آپ کو اس حقیقت سے چل جائے گا کہ 2019ء میں اس قانون کے تحت 96 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اب تک ان میں سے صرف دو مجرم پائے گئے ہیں‘ 29 افراد کو بری کر دیا گیا ہے۔ بھارتی عدالتِ عظمیٰ کا یہ عزم قابلِ تحسین ہے کہ اس بار وہ اس قانون کو گہرائی میں جا لے کر فیصلہ کرے گا کہ کسے ملک سے بغاوت کہیں اور کسے نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں