دہلی کے گووند ولبھ پنت ہسپتال اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں کیرالہ کی نرسوں کو تحریری حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہسپتال میں ملیالم میں بات چیت نہ کریں‘ وہ یا تو ہندی بولیں یا انگریزی بولیں کیونکہ دہلی کے مریض ملیالم نہیں سمجھتے۔ نرسوں کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والیوں کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ جس افسر نے یہ حکم جاری کیا‘ کیا وہ یہ مان کر چل رہا ہے کہ کیرالہ کی نرسیں دہلی کے مریضوں سے ملیالم میں بات کرتی ہیں؟ یہ ممکن ہی نہیں۔ کسی نرس کا دماغ کیا اتنا خراب ہو سکتا ہے کہ وہ مریض سے اس زبان میں بات کرے گی جو اس کا ایک فقرہ بھی نہیں سمجھ سکتا؟ ایسا کیوں کرے گی؟ ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ کیرالہ کے لوگ کافی اچھی ہندی بولتے ہیں۔ شرم تو ہندی بولنے والوں کو آنی چاہئے کہ یہ ملیالم تو کیا جنوب یا مشرق کی ایک بھی زبان نہیں بولتے‘ نہ ہی سمجھتے ہیں۔ پنت ہسپتال میں تقریباً 350 ملیالی نرسیں ہیں۔ وہ مریضوں سے ہندی میں ہی بات کرتی ہیں۔ اگر وہ انگریزی میں ہی بات کرنے لگیں تو بھی بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے کیونکہ زیادہ تر عام مریض انگریزی بھی نہیں سمجھتے۔ ان نرسوں کا قصور بس یہی ہے کہ وہ آپس میں ملیالم میں بات کرتی ہیں۔ اس آپسی بات چیت پر بھی اگر ہسپتال کا کوئی افسر پابندی لگاتا ہے تو یہ قانوناً جرم ہے۔ یہ اظہارِ خیالات کی آزادی کے قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ کیرالہ کی نرسیں اگر آپس میں ملیالم میں بات کرتی ہیں تو اس میں کسی ڈاکٹر یا مریض کو اعتراض کیوں ہو سکتا ہے؟ اگر پنجاب کی نرسیں پنجابی میں اور بنگال کی نرسیں بنگالی میں آپسی بات کرتی ہیں اور آپ انہیں روکتے‘ انہیں ہندی یا انگریزی میں بات کرنے کیلئے مجبور کرتے ہیں تو آپ ایک نئے بحران کو جنم دے رہے ہیں۔ آپ غیر ہندی زبان بولنے والوں پر ہندی تھوپنے کا غیر اخلاقی کام کر رہے ہیں۔ جن غیر ہندی لوگوں نے اتنے پیار سے ہندی سیکھی ہے‘ انہیں آپ ہندی کا دشمن بنا رہے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی غیر ہندی صوبے میں ہندی کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ یہ مضمون لکھتے وقت میری بات دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سے ہوئی اور پنت ہسپتال میں ڈاکٹروں سے بھی۔ سبھی اس فرمان کو کسی افسر کی ذاتی خواہش بتا رہے تھے‘ اس کا دہلی سرکار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آسام میں خاندانی منصوبہ بندی
آسام کے نئے وزیر اعلیٰ ہمنت بِسوا سرمہ نے اپنی ریاست کے لوگوں سے ایسی اپیل کی ہے کہ اگر کسی آل انڈیا لیڈر نے اس طرح کی اپیل کی ہوتی تو مجھے نہیں معلوم کہ ان پر کون کون ٹوٹ پڑتا۔ سرمہ نے کہا ہے کہ آسامی بنگالی بولنے والے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کی تعداد پر توجہ دیں یعنی دو سے زیادہ بچے پیدا نہ کریں۔ ویسے 2017ء میں آسام حکومت نے یہ قانون بنایا تھا کہ صرف وہی شخص اپنی ملازمت میں رہ سکتا ہے اور داخلہ لے سکتا ہے جس کے صرف دو بچے ہیں۔ اسی طرح 2018ء سے پنچایت انتخابات میں صرف وہی لوگ امیدوار بن سکتے ہیں جن کے بچے دو سے زیادہ نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کا قانون‘ قانون ساز اسمبلی اور لوک سبھا کے امیدواروں پر بھی لاگو ہونا چاہئے اور اس کا اطلاق بھارت کے تمام صوبوں پر ہونا چاہئے‘ لیکن آسام کے وزیر اعلیٰ کا یہ بیان بہت سی غلط فہمیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ لوگ یہ قیاس بھی کریں گے کہ یہ اقلیتوں پر ظلم کی سازش ہے۔ بنگالی مسلمانوں کو 77000 بیگھہ زمین سے بے دخل کرنے کی مہم بھی آج کل چل رہی ہے۔ آسام کی مسلم تنظیموں کا موقف ہے کہ سابقہ حکومت نے مقامی دو لاکھ 28 ہزار لوگوں کو دو لاکھ بیگھہ سے زیادہ اراضی مفت تقسیم کی تھی۔ ان مقامی لوگوں کے بارے میں کسی بھی قسم کا تنازع نہیں ہے چاہے وہ ہندو ہوں‘ مسلمان ہوں یا عیسائی۔ ضرورت کے وقت انہیں زمین مل جائے گی لیکن اس وقت بنگلہ دیشی مہاجر مسلمانوں کے حوالے سے کافی تنازع چل رہا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی دراندازی نے اس مسئلے کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ جہاں تک دو بچے پیدا کرنے کی اپیل کا تعلق ہے تو اس بات کو اقلیت مخالف تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ قانون سب پر مساوی طور پر لاگو ہو گا۔ سرمہ نے اپنا بیان اس قدر سادہ زبان میں دیا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مفاد کے لئے ایسی اپیل جاری کر رہا ہے۔ آسام کے قریب تین کروڑ عوام میں سے ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ان ایک تہائی مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی حیثیت قابلِ رحم ہے۔ وزیر اعلیٰ ان کی بہتری کیلئے اقدامات تجویز کر رہے ہیں۔ اگر سرمہ اس کورونا وبا کے دور میں غیر قانونی قبضہ کاروں کو ختم کرنے کی مہم تھوڑی آگے بڑھا دیں تو یہ بھی معقول ہو گی۔ آسام ہائی کورٹ نے بھی یہی کہا ہے۔
بغاوت: ونوددعا اور رام دیو
بھارت میں 'بغاوت‘ کا معاملہ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ابھی تین چار دن پہلے سپریم کورٹ نے آندھرا پردیش کے ایک ایم پی کے خلاف لگائے بغاوت کے مقدمے کے دھرے بکھیرے تھے۔ اب بغاوت کے دو معاملوں پر عدالتوں کی رائے سامنے آئی ہے۔ صحافی ونوددعا کے معاملے میں اور بابا رام دیو کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ نے بغاوت کا مقدمہ ٹھوکنے والوں کی خوب سدھ لی ہے۔ جو لوگ کسی پر بھی بغاوت کا مقدمہ ٹھوک دیتے ہیں انہیں یا تو بغاوت کے مطلب کا پتہ نہیں یا وہ انگریزوں کے راج کی ذہنیت میں جی رہے ہیں اور انہوں نے اپنے خیالات میں اتنی ہوا بھر لی ہے کہ کسی کے چھونے سے پھٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ونوددعا اور رام دیو کا جرم کیا ہے؟ دعا نے مودی پر تنقید ہی تو کی تھی‘ شاہین باغ دھرنے اور مقبوضہ کشمیر کے سوال پر اور رام دیو نے ایلوپیتھی کو پاکھنڈی پدھتی ہی تو کہا تھا۔ اس میں بغاوت کہاں سے آ گئی؟ کیا یہ دونوں کے بیان سے سرکاروں کا تختہ پلٹ ہو رہا ہے یا کوئی فرقہ وارانہ یا ذات برادری کا تشدد پھیل رہا ہے؟ یا رام دیو کے بیان سے کیا ہمارے ملک کے لاکھوں ڈاکٹر بے روزگار ہو رہے ہیں؟ دعا اور رام دیو کے بیانوں سے آپ پوری طرح غیر متفق ہو سکتے ہیں‘ انہیں غلط مان سکتے ہیں‘ ان پر آپ کوئی بھی الزام لگا سکتے ہیں اور ان کی مذمت کرنے کیلئے بھی آزاد ہیں لیکن ان کے خلاف آپ کا عدالت میں جانا ایکدم مضحکہ خیز ہے۔ بیان کو ٹکر دینا چاہتے ہیں تو بیان سے دیجئے۔ اس طرح کے معاملات کو عدالت میں گھسیٹنا تو آپ کے ذہنی دیوالیہ پن پر مہر لگا رہا ہے۔ ونوددعا نے درجنوں بار ٹی وی پر مجھے انٹرویو دیا ہے۔ ہمارے شدید اختلاف کے باوجود ہمارے بیچ کبھی بھی ناخوشگوار گفتگو نہیں ہوئی۔ دعا ہمیشہ صحافتی وقار کا احترام کرتے رہے۔ وہ آج کل کافی بیمار ہیں‘ میں ان کی صحت کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ جہاں تک رام دیو کا سوال ہے‘ اس سنیاسی نے کروڑوں بھارتیوں اور باہر کے لوگوں کی زندگی میں اپنے یوگ اور آیوروید کے ذریعے نئی روشنی بھر دی ہے۔ کیا ہم کسی دیگر بھارتی سنیاسی کا موازنہ بابا رام دیو سے کر سکتے ہیں؟ رام دیو کے منہ سے ایلوپیتھی کے بارے میں جو الفاظ نکل گئے تھے‘ انہوں نے وہ واپس بھی لے لئے‘ پھر بھی ان پر بغاوت کا مقدمہ ٹھوکنا کون سے عقلمندی ہے؟ ڈاکٹروں اور نرسوں نے اس وبا میں غیر معمولی خدمت کی ہے۔ دیش ان کا ہمیشہ مشکور رہے گا لیکن ایلوپیتھک دوائی کے نام پر بھارت میں ہی نہیں ساری دنیا میں جیسی لوٹ مچی ہے اس پر بھارت میں کم باہر کے ملکوں میں زیادہ کھوج بین ہوئی ہے۔ اگر آپ اسے پڑھیں تو بابا رام دیو کا قول آپ کو ذراپھیکا لگے گا۔ بھارت کی سرکاروں اور عدالتوں نے ایلوپیتھک دوائیوں اور ہسپتالوں میں مریضوں کی لوٹ پاٹ کو روکنے میں ضروری مستعدی نہیں دکھائی‘ اس پر کسی نے عدالت کے دروازے کیوں نہیں کھٹکھٹائے؟