"DVP" (space) message & send to 7575

افغانستان کا مستقبل کیا؟

اس ہفتے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے دو بڑے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک تو افغان صدر اشرف غنی امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے لیے واشنگٹن جا رہے ہیں اور دوسرا، تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اپنے پاکستانی ہم منصب معید یوسف سے ملاقات کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس دوشنبہ میں ہو رہا ہے۔ ان دونوں ملاقاتوں کی اہمیت افغانستان کی سلامتی کے لیے ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے امن اور تعاون کے لیے بھی ہے۔ امریکی افواج ستمبر تک افغانستان سے مکمل انخلا کریں گی۔ اس خبر کے بعد سے ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ کابل، قندھار اور ہرات سے بہت سارے افغان دوست مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہمیں کنبے سمیت رہنے کے لیے بھارت آ جانا چاہئے؟ انہیں خوف ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی، کابل افغان طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا اور وہاں ان کی زندگی حرام ہو جائے گی۔ حالیہ دنوں میں افغان طالبان نے 40 نئے اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے نصف حصے پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ وہ زیادہ تر گل زئی قبیلے سے ہیں۔ افغانستان کے تاجک، ازبک، ہزارہ اور موئے سرخ پریشان ہیں۔ ان میں سے بیشتر غریب اور محنت کش لوگ ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ بیرونِ ملک جاکر آباد ہو جائیں۔ افغان فوج میں بھی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ جو بھی کابل میں اختیار سنبھالتا ہے‘ افغان فوج کو اپنا رنگ بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ایسی صورتحال میں، سابق صدر حامد کرزئی‘ جنہوں نے 13 سال تک کابل پہ حکمرانی کی‘ افغانستان کے موجودہ حالات کا سارا الزام امریکا پر عائد کر رہے ہیں جبکہ موجودہ صدر اشرف غنی امریکی فوج کی واپسی روکنے کیلئے واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں۔ اگر دوشنبہ میں پاک بھارت اعلیٰ عہدیدار ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کا یہ سب سے بڑا معاملہ ہوگا۔ پاکستان افغانستان میں انتشار کیلئے داعش کے دہشت گردوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اس نے امریکا کو اپنے یہاں ایسے فوجی اڈے دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں بھارت کے کردار کو ''ضرورت سے زیادہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اگر واقعتاً ایسا ہے تو میں پاکستان کے رہنمائوں سے کہتا ہوں کہ ہمت کریں اور مشترکہ طور پر کام کریں۔ دہشت گردی کی مخالفت میں اس سے بہتر اقدام اور کیا ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اور بھارت کو مل کر وہاں عام انتخابات منعقد کروانے چاہئیں۔ جسے بھی افغان عوام پسند کریں‘ طالبان کو‘ مجاہدین کو‘ خلق پرچم یا غنی‘ عبد اللہ یا کرزئی کو‘ وہ منتخب کر سکتے ہیں۔ اگر یہ تعاون افغانستان میں کامیاب رہا تو مسئلہ کشمیر ایک چٹکی بجانے میں حل ہو جائے گا۔
ٹویٹر اور ٹی وی کی من مانی
مودی حکومت بھارت میں ٹویٹر اور ٹی وی چینلز کو لگام دینا چاہتی ہے لیکن کچھ صحافتی تنظیمیں اور حزبِ اختلاف کے رہنما اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت کی خلاف ورزی ہے۔ ان کایہ کہنا اس لیے جائز ہے کہ چونکہ بھارت میں حکومتیں اکثر ان صحافیوں پر ہی حملہ کرتی ہیں جو ان کے خلاف لکھنے اور بولنے کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن آج کل بھارت میں اتنی غیر مہذب، فحش، اشتعال انگیز اور گمراہ کن خبریں اور چیزیں وٹس ایپ، ٹویٹر، ای میل اور ٹی وی چینلز وغیرہ پر آتی ہیں کہ اگر ان کو روکا نہ گیا تو معاشرے میں انتشار پھیل سکتا ہے۔ مواصلات کے ذرائع‘ جن کو ہم صحافت کے ایک حصے کے طور پر مان رہے ہیں‘ کیا وہ واقعی صحافت ہیں؟ شاید نہیں! کیونکہ صحافت کا بنیادی فارمولا یہ ہے کہ ''نمولم لیکھی یتے کنچائت‘‘ یعنی ثبوت کے بغیر کچھ بھی نہ لکھیں؛ یعنی اخباروں میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ماخذ بتانا ضروری ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی غلطی یا کوتاہی ہوتی ہے تو اس کے بعد اخبار قارئین سے معافی مانگتا ہے، لیکن ٹی وی چینلز پر ذمہ دار ذرائع (اینکرز) کے علاوہ سیاستدانوں، سڑک چھاپ ترجمانوں، بکواس کرنے والوں اور دنگل بازوں کو بھی بلایا جاتا ہے، کیونکہ چینلز کو ٹی آر پی چاہئے۔ اس میں بہت احتیاط کے باوجود‘ انتہائی قابل اعتراض چیزیں بھی سکرین پر آ جاتی ہیں‘ جو تشدد کو ہوا دے سکتی ہیں، غلط فہمیاں پھیلا سکتی ہیں، کسی کی شہرت کو داغدارکر سکتی ہیں۔ کیا اس کے باوجود بھارتی حکومت کو خاموش رہنا چاہئے؟ بالکل نہیں! حکومت کی براہِ راست مداخلت سے پہلے بھارتی چینلز کو خود ہی کارروائی کرنی چاہئے۔ اس کے بارے میں تین سطحوں پر سوچا گیا ہے۔ پہلے، جس کی کوئی شکایت ہے وہ چینل کو آگاہ کرے۔ چینل اپنی رسید 24 گھنٹوں میں بھیجے۔ اگر شکایت کنندہ 15 دن کے اندر اس کے جواب سے مطمئن نہیں ہوتا ہے تو اسے اپنی شکایت چینلز کی خود ساختہ تنظیم کو بھیجنی چاہئے اور اگر وہ 60 دن کے اندر بھی اپنے جواب سے مطمئن نہیں ہوتا تو وہ اپنی شکایت حکومت کو بھیج سکتا ہے۔ مانیٹرنگ کمیٹی‘ جس کے ممبر کئی وزراء اور اعلیٰ عہدیدار ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کمیٹی کو ایسے سخت اصول بنانے چاہئیں کہ قصوروار کے ساتھ ساتھ آئندہ مجرموں کو بھی سبق مل سکے۔ وہی اصول ٹویٹر وغیرہ جیسے فورمز پر بھی لاگو ہونے چاہئیں۔ ٹویٹر آپریٹرز کے پیجز کو پابند کیوں نہیں کیا جانا چاہئے؟ اگر ٹرمپ کے ٹویٹر پر امریکا میں فسادات کرنے والے ٹرمپ کے حامیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے پابندی عائد کی جا سکتی ہے تو بھارت میں ٹویٹر پر چیک رکھنے میں کیا حرج ہے؟ من مانی کرنا آزادیٔ اظہارِ رائے نہیں ہے۔ وہ من مانی ہے۔ بھارت ایران، چین ، نائیجیریا اور ترکستان کی طرح ٹویٹر کو بند کرنے کی نہیں بلکہ خود پر قابورکھنے کی تاکید کر رہا ہے۔
کشمیری رہنمائوں سے بات چیت
مجھے ایسا لگتا ہے کہ 5 اگست 2019 کو کشمیر کے معاملے پر جمی برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے۔ خبریں گرم ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی اور کشمیری رہنمائوں کے درمیان 24 جون کو ملاقات ہو گی۔ اس اجلاس کا اصل مقصد کیا ہے‘ اس کی تشہیر نہیں کی جا رہی ہے، لیکن یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی کے انتخابی حلقوں کا از سر نو تعین کرنے کے لئے کشمیری رہنمائوں سے بات چیت کی جائے گی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ضلعی ترقیاتی کونسلوں کے انتخاب کے بعد اب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ انتخابی حلقوں کو از سر نو متعین کرنے کے لیے کمیشن کے سابقہ اجلاسوں میں کشمیری رہنمائوں نے حصہ نہیں لیا تھا لیکن اب گپکار اتحاد کے رہنما ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی مکالمے کے مخالف نہیں ہیں؛ تاہم انہیں، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی کو حکومت نے نظربند کر دیا۔ ایسے میں معاملات کیسے آگے بڑھیں گے؟ یہ تمام جماعتیں مل کر آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کی مخالفت کر رہی تھیں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی پر زور دے رہی تھیں۔ اس ہنگامے کے بیچ میں، دسمبر 2020ء میں ہونے والے ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں کل 280 نشستوں میں سے گپکار اتحاد کو 110 نشستیں مل گئیں۔ذرائع کے مطابق وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ جموں وکشمیر کی پرانی حیثیت کی بحالی پر ڈٹی رہیں گی؟ جہاں تک مرکزی حکومت کا تعلق ہے، اس نے پارلیمنٹ میں یہ وعدہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی پرانی حیثیت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔کشمیری رہنما تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر اگست 2019ء کے کیے گئے اقدام کو واپس نہ لیا گیا تو کیا ایسی صورتحال میں کشمیری رہنمائوں سے براہِ راست بات چیت کرنا نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے؟ یہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے اور اس معاملے پر جمی برف کے پگھلنے کا انحصار اس سوال کے جواب پر ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں