افغانستان سے امریکی فوجیں جس طرح سر پر پائوں رکھ کر بھاگی ہیں کیا اس سے بھی بھارت سرکار نے کوئی سبق نہیں لیا؟ بگرام سمیت سات ہوائی اڈوں کو خالی کرتے وقت امریکی فوجیوں نے کابل سرکار کو خبر تک نہیں کی۔ نتیجہ کیا ہوا؟ بگرام ہوائی اڈے میں سینکڑوں لوگ گھس گئے اور انہوں نے بچا کھچا مال لوٹ لیا۔ امریکی فوج اپنے کپڑے‘ جوتے‘ چھوٹے موٹے کمپیوٹر‘ اوزار‘ برتن اور فرنیچر وغیرہ جو کچھ بھی چھوڑ گئی تھی اسے لوٹ کر کابل میں کئی کباڑیوں نے اپنی چلتی پھرتی دکانیں کھول لیں۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ امریکیوں نے اپنی وداعی بھی اچھی طرح سے کیوں نہیں ہونے دی؟ غالب کے الفاظ میں 'بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘ کیوں نکلے؟ کیونکہ افغان لوگوں سے بھی زیادہ امریکی فوجی طالبان سے ڈرے ہوئے تھے۔ انہیں تاریخ کا وہ سبق یاد تھا جب تقریباً پونے 200 سال پہلے انگریزی فوج کے 16 ہزار فوجی جوان کابل چھوڑ کر بھاگے تھے تو ان میں سے 15 ہزار 999 جوانوں کو افغانوں نے قتل کر دیا تھا۔ امریکی جوان وہ دن نہیں دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ افغان صوبوں میں طالبان کا قبضہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایک تہائی افغانستان پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ کئی محلوں‘ گائوں اور شہروں میں لوگ ہتھیار بند ہو رہے ہیں تاکہ خانہ جنگی کی صورت میں وہ اپنی حفاظت کر سکیں۔ ڈر کے مارے کئی ممالک نے اپنے قونصل خانے بند کر دیے ہیں اور کابل میں موجود سفارت خانے بھی خالی کر رہے ہیں۔ بھارت نے بھی ہفتہ کے روز قندھار میں طالبان کی پیش قدمی کو دیکھ کر قونصل خانہ بند کر دیا۔ افغانستان میں بھارت کی حالت عجیب سی ہو گئی۔ تین ارب ڈالر وہاں کھپانے والا بھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ طالبان کے ساتھ چین‘ روس‘ ترکی اور امریکہ وغیرہ سیدھی بات کر رہے ہیں اور پاکستان بھی‘ لیکن بھارت کی وزارت خارجہ بغلیں جھانک رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھاجپا میں وزارت خارجہ کے جانکار نہ ہونے کے برابر ہیں اور مودی سرکار نوکر شاہوں پر پوری طرح منحصر ہے لیکن حیرانی ہے کہ نریندر مودی نے اپنے تقریباً آدھ درجن سینئر وزرا کو گھر بٹھا دیا لیکن وزارت خارجہ کے معاملے میں ان کی کوئی بنیادی پہل نظر نہیں آتی۔ اس وقت بھارت کی وزارت خارجہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان ہے۔ اس کے معاملے میں امریکہ کی اندھی تقلید کرنا اور بھارت کو اپاہج بنا کر چھوڑ دینا رہنمائی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر افغانستان میں انارکی پھیل گئی تو وہ بھارت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو گی۔
مودی کابینہ میں ردوبدل
بھاجپا سرکار نے اپنے کچھ نئے گورنر اور نئے وزرا تقریباً ایک ساتھ مقرر کردیے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پچھلی باری میں تین بار اپنے کابینہ میں ردوبدل کیا تھا۔ اب اس دوسری باری میں یہ پہلی تبدیلی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزرا اورگورنرز کی تبدیلی کی تلوار ہر سال ہی لٹکا دی جانی چاہئے اور ہر منتری کو اس کی وزارت کے ٹارگٹ مقرر کرکے پکڑا دیے جانے چاہئیں یا اسے یہ ٹارگٹس خود مقرر کرکے اعلان کر دینا چاہئے۔ منتریوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ اگر انہوں نے اعلان کردہ ٹارگٹس پورے نہیں کئے تو سال بھر میں ہی ان کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ موجودہ تبدیلی اس معنی میں تاریخی اور قابلِ تعریف ہے کہ گورنر اور مرکزی وزرا میں جتنی نمائندگی خواتین‘ نچلی ذاتوں‘ خانہ بدوشوں‘ اقلیتوں‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں اور نوجوانوں کو مل رہی ہے اتنی ابھی تک کسی کابینہ میں نہیں ملی۔ خواتین کی جتنی بڑی تعداد مودی کابینہ میں ہے اتنی بڑی تعداد بھارت کی واحد خاتون پردھان منتری اندرا گاندھی کی کابینہ میں بھی نہیں تھی۔ اسی طرح شاید اتنی بڑی تبدیلی کسی کابینہ میں پہلے نہیں ہوئی۔ یہ حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ اس کیلئے بڑی ہمت چاہئے۔ موجودہ تبدیلی کے پیچھے متعدد تناظر ہیں۔ پہلا یہ کہ اگلے سال جن پانچ ریاستوں میں چناؤ ہونے ہیں ان کے کچھ با اثر وزرا کو دہلی کی گدی پر بٹھایا جائے تاکہ ان ریاستوں کے ووٹروں کو مطمئن کیا جا سکے‘ جس کی وجہ سے بھاجپا کا ووٹ فیصد بڑھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن وزرا کے کام کاج میں کمیاں پائی گئیں یا انہیں لے کر غیر ضروری تنازع پیدا ہوئے ان سے سرکار کو آزاد کرایا گیا۔ کچھ منتریوں نے اپنے استعفے پہلے ہی دے دیے۔ ایک بات یہ ہو سکتی ہے کہ اب کورونا کا خطرہ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے تو ملک کی سیاست میں تازگی لائی جائے۔ نوجوانوں کے وزیر بننے سے اب مودی کابینہ کی اوسط عمر 58 سال ہو گئی ہے لیکن یہاں ایک گمبھیرتا ہے‘ وہ بڑا خطرہ بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ مودی کابینہ کی سب سے بڑی کمی اس کی ناتجربہ کاری ہے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے مودی خود کبھی مرکز میں وزیر نہیں رہے۔ ان کے وزرا میں راج ناتھ سنگھ جیسے کتنے منتری ہیں جو پہلے مرکز میں وزیر رہ چکے ہوں؟ آپ لیاقت آسانی سے جتا سکتے ہیں لیکن تجربہ تو تجربے سے ہی آتا ہے۔ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ مودی سرکار نے کچھ سنگین مدعوں پر اس لئے غچہ کھایا کہ اس نے اپنے تجربہ کار وزرا کو رہنمائی کی طاق پر بٹھا دیا۔ کئی اہم وزرا کے استعفے آخر یہی تو بتا رہے ہیں کہ ناتجربہ کاری سرکار پر کتنی بھاری پڑتی ہے۔ یہ نئی کابینہ پتہ نہیں کیسا کرکے دکھائے گی؟ یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ نئی کابینہ 2024ء میں انتخابات پر کیسے اثر انداز ہوگی۔
سنگھ کا بدلا ہوا نظریہ
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک بار پھر بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کے بیان کے حوالے سے ملک میں ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ ایک مسلمان مصنف کی کتاب جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک طرح کی خصوصیات رکھتے ہیں۔ سائنس دانوں کی مختلف تکنیکی رائے ہو سکتی ہے کہ آیا تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک جیسا ہے یا نہیں لیکن موہن کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی شریانوں میں بھی ویسا ہی خون بہتا ہے جیسا کہ ہندوؤں کی شریانوں میں بہتا ہے۔ مسٹر اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے بھی کئی سال پہلے یہی بات کہی تھی۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی کو مسلم مخالف تنظیم سمجھا جاتا ہے‘ تقسیم ہند سے پہلے اور اس کے دوران سنگھ نے تقسیم کی اتنی سخت مخالفت کی تھی کہ پہلے جن سنگھ اور اب بی جے پی کی شبیہ ایک ہندو فرقہ وارانہ تنظیم کی ہوگئی اور حکمران کانگریس پارٹی کے لیے اسے فرقہ واریت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہمیشہ ہی جیت کا سبب بنا رہا کیونکہ مسلمانوں کا تھوک ووٹ حاصل کرنے میں اس سے آسانی ہوتی ہے۔ کانگریس کی یہ حکمت عملی ایک طویل عرصے تک کامیاب رہی کیونکہ سنگھ‘ جن سنگھ اور بی جے پی کا خوف دکھا کر ہمیشہ ہندوتوا کا ڈھول پیٹا جاتا رہا۔ ساورکر کے ہندوتوا کی جو بھی مسخ شدہ تشریح جاری رہی اس نے اس تنگ نظر فرقہ وارانہ نظریہ کو فروغ دیا۔ اس تنگ نظری کو توڑنے کا سہرا موہن بھاگوت کو جاتا ہے۔ ستمبر 2018ء میں اپنے وگیان بھون کی تقریر میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ ہندوتوا اور ہندوستانیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔