بھارت کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہونے والی ہے۔ سال‘ دو سال میں وہ چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ بھارت جلد ہی 1.5 ارب یعنی 150 کروڑ کے ہندسے کو چھو لے گا۔ ہمیں شاید فخر ہوگا کہ ہم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہیں۔ ہاں بڑے تو ہوں گے آبادی کے حساب سے لیکن ہم جتنے بھی ہیں‘ اس سے بھی چھوٹے ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ دنیا کی کل زمین کا صرف دو فیصد حصہ ہمارے پاس ہے اور دنیا کی 20 فیصد آبادی اس پر رہتی ہے۔ اس آبادی کو اگر روٹی‘ کپڑا ‘ اور علاج وغیرہ معقول مقدار میں ملتا رہے تو یہ تعداد بھی برداشت کی جا سکتی ہے جیسا کہ چین میں چل رہا ہے۔ پچھلے 40 سالوں میں چین کی فی کس آمدنی 80 گنا بڑھی ہے جبکہ بھارت میں صرف 7 گنا۔ آج بھی بھارت میں کروڑوں لوگ ناقص غذائیت کا شکار ہیں۔ بھوک سے مرنے والوں کی خبریں بھی ہم اکثر پڑھتے رہتے ہیں۔ بھوک کے حساب سے دنیا میں بھارت کا مقام 102واں ہے‘ یعنی جن ملکوں کا پیٹ بھرا مانا جاتا ہے ان کی قطار لگائی جائے تو بھارت ایک دم نچلے ملکوں میں گنا جاتا ہے۔ لوگوں کا پیٹ کیسے بھر ے گا‘ اگر کروڑوں لوگ بے روزگار ہوتے رہیں گے یا لگاتار روزگار سے محروم رہیں گے؟ روزگار ہی نہیں ملک کی ساری سہولتیں اسی لیے کم پڑ رہی ہیں کیونکہ ہمارے یہاں آبادی بہت زیادہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پچھلے 50 سال میں آبادی بڑھنے کی رفتار بھارت میں اپنے آپ آدھی ہو گئی ہے لیکن وہ کن طبقات کی ہوئی ہے؟ پڑھے لکھوں کی‘ شہریوں کی‘ خوشحال افراد کی۔ اور کن طبقات کی بڑھ گئی ہے؟ اَن پڑھوں کی‘ غریبوں کی‘ دیہی آبادی کی، محنت کشوں کی! یہ تناسب کا عدم توازن بھارت کو ڈبو مارے گا۔ اسی لیے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دو بچوں کی پابندی ہر خاندان پر لگائی جائے‘ اور جن کے دو بچوں سے زیادہ ہوں‘ انہیں کئی سرکاری سہولتوں سے محروم کیا جائے۔ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہو گا۔ بامعنی نہیں ہو گا کیونکہ جن کے زیادہ بچے ہوتے ہیں‘ وہ لوگ اکثر سرکار کے فائدوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ شادی کی عمر بڑھائی جائے‘ خواتین کی تعلیم کو زیادہ پُرکشش بنایا جائے‘ فیملی پلاننگ کے ذرائع کو مفت تقسیم کیا جائے۔ چھوٹے خاندان کے فوائد کو عام کیا جائے۔ ذات اور مذہب کے نام پر حاصل ووٹوں پر مبنی جمہوریت کو خدمت‘ قابلیت اور دلیل پر مبنی حکمرانی کا نظام بنایا جائے ۔
چین بھی امریکا کے نقشِ قدم پہ؟
چینی کمیونسٹ پارٹی کے یومِ تاسیس میں چین کے سپریم لیڈر اور صدر شی جن پنگ نے جو تقریر کی ہے‘ اس نے ساری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ یہ 19ویں اور 20ویں صدی کا چین نہیں ہے‘ یہ 21ویں صدی کا چین ہے اور یہ 21ویں صدی‘ چین کی صدی ہونے والی ہے۔ وہ دن لد گئے جب افیم اور جنگ (1840ء) کے بعد چین تقریباً غلام دیس بن گیا تھا‘ سارے ملک میں قحط برپا ہو گیا تھا‘ عام آدمی بھوک کے مارے دم توڑ رہا تھا اور چینی تہذیب و ثقافت کو دری کے نیچے کھسکا دیا گیا تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے عروج نے چین کو اس کا فخر لوٹایا‘ غیر ملکی شکنجوں سے آزاد کیا اور عوام کو بے خوف بنایا۔ چینی صدر نے اپنے ایک گھنٹے کے خطاب میں جو سب سے تیکھی بات کہی وہ یہ کہ جو بھی ملک چین کو دھمکانا چاہ رہے ہیں وہ جان لیں کہ خون کی ندیاں بہیں گی۔ ان کا واضح اشارہ امریکا کی طرف تھا۔ امریکا آج کل چین کو تقریباً ہر شعبے میں چیلنج دے رہا ہے۔ انڈو پیسفک میں وہ بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر چین کو دھمکانے کی کوشش کرتا ہے۔ آسیان ملکوں کو وہ چین کے خلاف مورچہ کھڑا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ چین بھی جنوب اور مغربی ایشیا کے ملکوں کو ایشیائی ترقی کے نام پر قرضے دے رہا ہے۔ افریقی ممالک میں بھی پاؤں پسارنے میں اس نے کوئی کمی نہیں رکھی۔ وہ 21 ویں صدی کو چین کی صدی بنانے پر تلا ہوا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت اتنی بڑھا رہا ہے کہ ایشیا ہی نہیں‘ وہ ساری دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن جائے ۔ صدر شی نے اپنے خطاب میں چین کی مشہور دیوار کو سٹیل کی دیوار کہہ کر ساری دنیا کے آگے خم ٹھوک دیا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اتنا جارحانہ بھاشن کبھی ماؤزے تنگ یا چو این لائی نے دیا ہو۔ صدر شی نے کہا کہ ان کے دورِ حکومت (2008سے اب تک) میں غریبی کا خاتمہ ہوا۔ فوج کو جدیدیت ملی اور اب جب کمیونسٹ چین کا 2049ء میں 100واں یومِ آزادی ہو گا‘ تب تک چین سچے معنوں میں سپر پاور بن چکا ہو گا۔ انہوں نے ہانگ کانگ اور تائیوان پر بھی مکمل حق جتایا۔ صدر شی جن پنگ کا پورا بھاشن سن کر مجھے یہ بالکل نہیں لگا کہ کسی مارکس یا لینن کے پیروکار کی تقریر ہے۔ مجھے یہ مشتعل ملک کا جنگ کا طبل بجانے والا خطاب لگا۔ چین میں خوشحالی ضرور آئی ہے‘ لیکن وہاں اونچے اٹھ رہے امیری کے پہاڑ اور نیچے کھد رہی غریبی کی کھائیاں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ نیا چین بن رہا ہے‘ اس میں شک نہیں لیکن چین میں کیا نیا سماج بن رہا ہے؟ چین امریکا کو اپنا سب سے بڑا دشمن مان رہا ہے لیکن وہ اس کی کاربن کاپی بنتا جا رہا ہے۔ اگر وہ امریکا سے زیادہ خوشحال اور طاقتور ہوگیا تو بھی کیا وہ مارکس اور ماؤ کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ پائے گا؟
بھاگوت اور مودی: ہمت کا سوال
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھارت کی اقلیتوں کے بارے میں جو ہمت اور رواداری دکھائی‘ اگر نریندر مودی چاہتے تو ویسی رواداری چین کے بارے میں بھی دکھا سکتے تھے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال پورے ہونے پر چین کے صدر شی جن پنگ کو متعدد ملکوں کے سربراہان نے مبارکباد پیش کی ہے لیکن مودی جی خاموشی اختیار کر گئے حالانکہ دونوں کی کافی دوستی رہی ہے۔ مودی جی کی مجبوری تھی کیونکہ وہ بدھائی دیتے تو کانگرس ان کے پیچھے پڑ جاتی۔ وہ کہتے تھے وادیٔ گلوان پر حملہ کرنے والے چین سے سرکار پینگیں بڑھا رہی ہے۔ ادھر 4 جولائی کو امریکا کا 245واں یومِ آزادی تھا۔ مودی نے بائیڈن کو بڑی گرم جوشی سے مبارک باد دی۔ یہ بالکل ٹھیک کیا لیکن اب پتا نہیں کہ چین کے قومی دن (یکم اکتوبر) پر وہ اس کو مبارک باد بھیجیں گے یا نہیں؟ اسی طرح یکم اگست کو چین کی پیپلز آرمی کے یومِ تاسیس پر کیا ہمارا چپ کا روزہ رہے گا؟ 15 اگست کے موقع پر چین کا ٹیسٹ بھی ہو جائے گا‘ لیکن ان سے بڑا سوال یہ ہے کہ برکس کا سالانہ اجلاس اس سال دہلی میں ہونا ہے۔کیا اس میں چینی صدر کو ہم بلائیں گے؟ اور کیا وہ آئیں گے۔ ویسے تو پچھلے دنوں ہوئی شنگھائی میٹنگ میں بھارت اور چین کے فارن منسٹرز نے اجلاس سے خطاب کیا مگر ایک دوسرے پر کوئی الزام کشی نہیں کی۔ گلوان معرکے پر دونوں ملکوں کے فوجیوں کی بات چیت بھی ٹھیک ٹھاک چل ہی رہی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ نریندر مودی کو چین کو تہنیتی پیغام ضرور پیغام بھیجنا چاہئے تھا اور اس میں یہ صاف صاف کہا جانا چاہئے تھا کہ چین کے صدرِ محترم! آپ چین کو ایک خوفناک طاقت بنانے کے بجائے محبت کی قوت بنائیں۔ چین اور بھارت مل کر دنیا کے سب سے قدیم اور آزمودہ آدرشوں اور رشتے کے مطابق ایک نئی دنیا پیدا کریں اور 21 ویں صدی کو ایشیا کی صدی بنائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک مسلمان رائٹر کی ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے وہی بات کہنے کی ہمت دکھائی جو پہلے کسی ہندو انتہا پسند رہنما نے پہلے کبھی نہیں دکھائی تھی۔ یہی بات اٹل بہاری واجپائی بھی کہا کرتے تھے اور جس کا ذکر میری کتاب ''بھاجپا، ہندوتوا اور مسلمان‘‘ میں کافی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ موہن جی کے یہ جملے کتنے غضب کے ہیں کہ ''اگر کوئی ہندو یہ کہے کہ بھارت میں کوئی مسلمان نہیں رہنا چاہئے‘ وہ ہندو نہیں ہو سکتا‘‘۔ کوئی ہندو ہو یا مسلمان ‘ سب بھارتی ہیں اور سب ایک ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا کے نام پر گائو رکشا کے بہانے جو لوگ انسانوں کو قتل کرتے ہیں وہ ہندو مت کے مخالف ہیں۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی سختی سے ہونی چاہئے۔ ہمارا آئین سبھی کو یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیا موہن جی کے امرت جملوں کو بھارت کے ہندو، سنگھ بھاجپا کے کروڑوں ممبر اور مسلمان بھائی عمل میں لائیں گے؟