بھارتی پارلیمنٹ کا یہ برسات اجلاس بہت زیادہ اہم ہونا تھا لیکن یہ بے کاری کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ کورونا وبا‘ بے روزگاری‘ افغان صورتحال‘ بھارت چین تنازع‘ نسلی مردم شماری وغیرہ جیسے کئی مدعوں پر معنی خیز پارلیمانی بحث کی امید تھی لیکن پیگاسس جاسوسی کا معاملہ ہی چھایا رہا۔ پچھلے تقریباً دو ہفتوں سے دونوں ہاؤسز کا کام کاج ٹھپ ہے۔ دونوں ہاؤس مسلسل شور شرابے کے بعد روزانہ ہی ملتوی ہو جاتے رہے۔ پار لیمنٹ چلانے کا ایک دن کاخرچ 44 کروڑ روپے ہوتا ہے۔ تقریباً 500 کروڑ پر تو پانی پھر چلا ہے۔ یہ پیسہ ان لوگوں سے وصولا جاتا ہے جو دن رات اپنا خون پسینہ ایک کرکے کماتے ہیں اور سرکار کا ٹیکس بھرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس چلانے کی پروا نہ سرکار کو ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو۔ دونوں اپنی اپنی پوزیشن پر اڑے ہوئے ہیں۔ یہ شاید اڑتے نہیں‘ لیکن پیگاسس جاسوسی کا معاملہ اچانک ایسا ابھرا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف تلواریں مانجنے لگے۔ کیا اپوزیشن کے لوگوں کو پتہ نہیں کہ جاسوسی کے بغیر کوئی سرکار کیا کوئی پریوار بھی نہیں چل سکتا؟ وہ خود جب اقتدار میں تھے تو کیا وہ جاسوسی نہیں کرتے تھے؟ کیا کانگرسی حکومت میں ان کے وزیر خزانہ پرناب مکھرجی نے اپنے دفتر میں ہی جاسوسی آلہ لگے ہونے کی شکایت نہیں کی تھی؟ بھارتی صوبوں میں چل رہی اپوزیشن جماعتوں کی سرکاریں کیا جاسوسی نہیں کرتیں؟ لیکن جاسوسی کے مدعے پر بھارتی پارلیمنٹ میں بحث کی مانگ بالکل جائز ہے اور سرکار کو یہ بتانا ہوگا کہ فلاں فلاں آدمی کی جاسوسی وہ کیوں کرتی تھی؟ اگر اس نے جان بوجھ کر یا غلطی سے ملک کے کچھ اہم لوگوں کی جاسوسی کی ہے یا اس کے افسروں نے اس لسٹ میں کچھ من مانے نام جوڑ لئے ہیں تو وہ پبلک طور پر معافی کیوں نہیں مانگ لیتی؟ جاسوسی کے معاملے کو وہ جتنا چھپائے گی اس کی چادر اتنی ہی پھیلتی چلی جائے گی‘ لیکن اپوزیشن جماعتوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اگر وہ پارلیمنٹ کو چلنے ہی نہیں دیں گے تو جاسوسی کا معاملہ آیاگیا ہوجائے گا۔ وہ پارلیمنٹ کا سیشن باقاعدہ کیوں چلنے نہیں دیتے؟ وہ سوال پوچھ سکتے ہیں‘ تحریک التوا اور توجہ دلاؤ تحریک لا سکتے ہیں اور بیچ میں مداخلت بھی کرسکتے ہیں۔ اپوزیشن جماعت اس مدعے میں متحد ہونے کی کوشش کررہی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ایم پیز سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مخالفین کا پول کھولیں۔ اس کا مطلب کیا یہ نہیں کہ بھارت کی سبھی سیاسی جماعتیں سطحی سیاست میں الجھ رہی ہیں؟
بھارت کیوں بنے کسی کا پِچھ لگو؟
یہ کوئی عجیب اتفاق نہیں کہ امریکہ کے وزیر خارجہ بھارت آئے ہوئے تھے اور پاکستان کے وزیر خارجہ چین گئے ہوئے تھے۔ دونوں کا مقصد ایک جیسا ہی تھا۔ دونوں چاہتے ہیں کہ افغانستان میں خون کی ندیاں نہ بہیں اور دونوں کا وہاں دبدبہ بنا رہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کام میں بھارت اس کی مدد کرے اور پاکستان چاہتا ہے کہ چین اس کی مدد کرے۔ ہم پہلے چین کو لیں۔ چین کو طالبان سے کیا شکایت ہے‘ کون سا ڈر ہے؟ چین یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کا اثر اس کے صوبہ سنکیانگ کی صورتحال پر نہ پڑے اور وہاں نئی کشیدگی جنم نہ لے۔ چینی صوبے میں پچھلی کئی دہائیوں میں کشیدگی سر اٹھاتی رہی ہے‘ مگر اب ایک لمبے عرصے سے حالات پرسکون ہیں اور وہاں بڑے پیمانے کے ترقیاتی کام چل رہے ہیں۔ تقریباً 10 سال پہلے جب میں اس صوبے کی راجدھانی اُرمچی گیا تھا تو بدحالی دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا لیکن بعد کے عرصے میں وہاں بڑے پیمانے پر صنعتی سرگرمیاں اور بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوا‘ عوامی بے چینی بھی بتدریج گھٹتی چلی گئی ہے۔ چین یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں کشیدگی پیدا نہ ہو کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ افغانستان کی داخلی بے چینی اور شورش کے اثرات جہاں دیگر ہمسایہ ممالک پر اثر انداز ہوں گے وہاں چین کا صوبہ بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اسی لیے چین نے طالبان رہنماؤں کو بیجنگ بلوا کر ان سے یقین دہانی حاصل کی ہے کہ اس کے صوبے کی صورتحال پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوںممالک مل کر افغان مسئلے کے پرامن حل کی کوشش کریں گے‘ اور افغانستان کو خانہ جنگی اور دہشت گردی کے ہاتھوں میں جانے سے روکیں گے۔ امریکہ اور چین‘ دونوں ہی اپنے اپنے داؤ پر چل رہے ہیں لیکن پاکستان جیسے چین کا ساتھی بنا ہوا ہے ویسے بھارت امریکہ کا نہیں بن سکتا۔ اس وقت بھارت کو اپنے قدم بہت پھونک پھونک کر رکھنے ہوں گے۔ امریکہ لاکھ چاہے لیکن بھارت کو اپنی فوجیں کابل نہیں بھیجنی چاہئیں۔ امریکہ ازبک اور تاجک ہوائی اڈوں کا استعمال کرکے غنی سرکار کی مدد کرنا چاہے تو ضرور کرے لیکن بہتر یہی ہو گا کہ کابل میں ایک آل پارٹی کام چلاؤ سرکار بنے اور چناؤ کے ذریعے مستقبل میں اس کی جمہوری سیاست چلے۔
خطرناک نسلی مردم شماری
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے مانگ کی ہے کہ اس بار نسلی مردم شماری ضرور کی جائے اور اسے ظاہر بھی کیا جائے۔ پچھلی بار 2010ء میں نسلی مردم شماری کی گئی تھی لیکن سرکار اسے عام نہیں کر پائی تھی کیونکہ ہم نے اس وقت ''میری ذات ہندوستانی‘‘ تحریک شروع کر رکھی تھی۔ ملک کی تقریباً سبھی اہم پارٹیوں کا رویہ اس سوال پر ڈھیلا ڈھالا تھا۔ کوئی بھی پارٹی کھل کر نسلی مردم شماری کی مخالفت نہیں کر رہی تھی لیکن کانگرس‘ بھاجپا اور کمیونسٹ پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں نے ہماری تحریک کا ساتھ دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرکار نے نسلی مردم شماری کو بیچ میں روکا تو نہیں لیکن شریمتی سونیا گاندھی نے ہماری پہل پر اسے عام ہونے سے رکوا دیا۔ 2014ء میں مودی سرکار نے بھی اسی پالیسی پر عمل کیا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی نے ہمارا ڈٹ کر ساتھ دیا تھا۔ اب کئی سیاستدان دوبارہ اسی نسلی مردم شماری کی مانگ اسی لئے کر رہے ہیں وہ ذات پات کا پیسہ پھینک کر چناؤ جیتنا چاہتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نسلی مردم شماری ٹھیک سے ہو جائے تو پچھڑے ہوئے‘ غریب اور استحصال زدہ لوگوں کو ریزرویشن ذرا ٹھیک تناسب میں مل جائے گا‘ لیکن یہ کیوں نہیں سوچتے کہ 5‘ 7 ہزار نئی سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن مل جانے سے کیا 80‘ 90 کروڑ محروموں کو عروج حاصل ہو سکتا ہے؟ یہ نسلی ریزرویشن نااہلی‘ حسد اور عدم اعتماد کو بڑھائے گا۔ ضروری یہ ہے کہ ملک کے 80‘ 90 کروڑ لوگوں کو زندگی جینے کی کم سے کم سہولیات دستیاب کروائی جائیں۔ ان کی بنیاد ذات نہیں ضرورت ہے‘ جو بھی ضرورت مند ہو‘ ذات‘ دھرم‘ اور زبان وغیرہ کو نہ پوچھا جائے‘ اس کیلئے سرکار خصوصی سہولیات دے۔ ذاتی ریزرویشن کو ایک دم ختم کیا جائے۔ انگریز نے ذاتوں کی مردم شماری 1857ء کے بعد اس لئے شروع کی تھی کہ وہ بھارتیوں کی ایکتا کو ہزاروں جاتیوں میں بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردے‘ تاہم 1931ء میں کانگرس نے ذاتوں کی بنیاد پر مردم شماری کی اتنی سخت مخالفت کی تھی کہ انگریز سرکار کو اسے بند کرنا پڑا تھا۔ آزاد بھارت میں ڈاکٹر لوہیا نے ''ذات توڑو‘‘ تحریک چلائی تھی۔ ساورکر اور گول ولکر نے ذاتی واد کو راشٹر واد کا دشمن بتایا تھا۔ کبیر‘ نانک‘ دیانند‘ وویکانند‘ گاندھی‘ پھلے اور امبیدکر وغیرہ جیسے سبھی بڑے رہنماؤں نے جس ذات سسٹم کی تردید کی تھی اسی ذات سسٹم کا جھنڈا یہ سرکار کیوں لہرائے گی؟ بہتر تو یہ ہو کہ مودی سرکار نہ صرف ذاتی ریزرویشن ختم کرے بلکہ سرکاری اہلکاروں پر ذات برادری کا نام استعمال کرنے پر بھی پابندی لگائے۔ مختلف تنظیموں‘ گائوں اور محلوں کے ذاتوں پر مبنی نام ہٹائے جائیں اور ملک کے سبھی محروموں اور پچھڑے ہوؤں کو کسی تفریق کے بغیر تعلیم اور میڈیکل کی سہولیات دی جائیں۔