بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلے دنوں اپنے سات سالہ دور حکومت کی کامیابیاں گنوائیں اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے درخواست کی کہ وہ تعلیم کے شعبے میں خصوصی تجاویز دیں۔اس میں شک نہیں ہے کہ پچھلے سات سال کے اعدادو شمار دیکھیں تو سٹوڈنٹس‘ ٹیچرز‘ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بڑھوتری کا کریڈٹ سرکار لینا چاہے تو اسے ضرور ملنا چاہئے لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ تعلیمی پالیسی میں جو بنیادی بدلاؤ ہونے چاہئیں تھے وہ ہوئے یا نہیں؟سات سال میں چار وزیر تعلیم تبدیل ہوگئے مودی سرکار میں۔اوسطاً کسی وزیر کو دو سال بھی نہیں ملے یعنی ابھی تک صرف جگہ بھری گئی۔کوئی ایسا وزیر تعلیم نہیں آیا جسے تعلیم کی گہری سوچ سمجھ بوجھ ہویا جس میں بنیادی بدلاؤ کا نظریہ ہو۔ اگر سچ مچ بھارت سرکار کے پاس کوئی نیا نظریہ ہوتا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی قوت ارادی کسی منتری کے پاس ہوتی تو وہ اپنی کرسی میں 5‘7 سال ٹکتا اور پرانے سڑے گلے تعلیمی ڈھانچے کو اکھاڑ پھینکتا۔ لیکن لگتا ہے کہ بھارتی سیاسی پارٹیاں کسی قوم کیلئے تعلیم کی اہمیت کیا ہے‘ اسے ٹھیک سے نہیں سمجھتیں۔ اسی لئے مودی مجبور ہوکر غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے مدد کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ غیرسرکاری تعلیمی اداروں نے یقینی طورپر سرکاری اداروں سے بہتر کام کرکے دکھایا ہے‘اسی لئے بھارتی وزرائے اعظم اور دیگر بڑے سیاستدانوں کے بچے نجی سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے رہے ہیں تعلیمی نظام میں بنیادی بدلاؤ کیلئے تو بہت سے سجھاؤ ہیں لیکن کیا مودی سرکار یہ ایک شروعاتی کام کرسکتی ہے‘وہ یہ ہے کہ ملک کے سبھی عوامی نمائندوں سے لے کر صدر تک اور تمام سرکاری عہدیداروں کے بچوں کیلئے یہ لازمی کردیا جائے کہ وہ صرف سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ہی پڑھیں گے۔ یہ کرکے تو دیکھئے راتوں رات کیا چمتکار ہوتا ہے۔سرکاری سکولوں کا معیار نجی سکولوں سے اپنے آپ بہتر ہوجائے گا۔ میری اس تجویز پر الہ آباد ہائیکورٹ نے 8‘10 سال پہلے مہر لگادی تھی لیکن وہ آج تک اترپردیش میں لاگو نہیں ہوا ہے۔ نجی تعلیمی ادارے اور نجی ہسپتال بھارت میں کھلی لوٹ کے اوزار بن گئے ہیں۔بھارت کا درمیانی اور اعلیٰ طبقہ لٹنے کو تیار بیٹھا رہتا ہے لیکن ملک کے غریب‘ دیہاتی‘پسماندہ اور محنت کش لوگوں کو تعلیم اور طبی سہولیات اسی طرح مشکل سے ملتی ہیں جیسے غلام لوگوں کو ملتی ہیں۔
بے لگام بولنے‘ لکھنے پہ روک
بھارتی سپریم کورٹ نے ویب پورٹلز اور یو ٹیوب چینلوں پر چل رہے جھوٹ پر بہت سنگین رد عمل ظاہر کیا ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ ابلاغ کے ان ذرائع کا جم کر غلط استعمال ہو رہا ہے۔ملک کے لوگوں کو بے بنیاد خبروں‘توہین آمیز تبصروں‘فحش تصاویر اور فرقہ وارانہ پرچار کا سامنا روزانہ کرنا پڑتا ہے۔یہ رائے بھارت کے چیف جسٹس این وی رمنا نے اس پٹیشن پر بحث کے دوران ظاہر کی تھی جو جمعیت علمائے ہند نے دائر کی تھی۔عدالت نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ جیسے اخباروں اور ٹی وی چینلوں کیلئے قوانین موجود ہیں ویسے ہی ویب چینلز اور یوٹیوب چینلزکیلئے بھی بنائے جائیں۔ظاہر ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔جہاں تک اخباروں اور ٹی وی چینلوں کا سوال ہے وہ قواعد کی پابندی کرتے ہیں اگر وہ توہین آمیز یا غیر مستند باتیں چھاپیں یا کہیں تو ان کا امیج بگڑتا ہے‘ دیکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی ہے‘اشتہار کم ہونے لگتے ہیں اور ان کو مقدموں کا بھی ڈر رہتا ہے لیکن کسی بھی ویب پورٹل یا یو ٹیوب پر کوئی بھی لکھ کر یا بول کر بھیج سکتا ہے۔کروڑوں لوگ ان ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں۔حکومت کو اپنے تکنیکی ماہرین کو سرگرم کر کے ایسی تفصیلی پالیسی تیار کرنی چاہئے کہ اس کی خلاف ورزی ہونے پر کارروائی ہو سکے اور قصوروار شخص کیلئے سخت سے سخت سزا کا اہتمام کیا جائے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں لگا دی جائیں اور شہریوں پر سرکار اپنی تاناشاہی تھوپ دے لیکن شہریوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ اقدار کا احترام کریں۔آج کل بھارتی ٹی وی چینلز نے بھی اپنا معیار کتنا گرا لیا ہے‘وہ اپنی ساری طاقت دیکھنے والوں کو خیالات کا دنگل دکھانے میں خرچ کر دیتے ہیں۔کسی بھی موضوع پر ماہرین کی سنجیدہ بات چیت کی بجائے وہ پارٹیوں کے بھونپوؤں کو اڑا دیتے ہیں۔اس کا اثر عام دیکھنے والوں پر بھی ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے بے لگام تبصرے دے مارتے ہیں۔ انٹر نیٹ چینلز کا یہ غلط استعمال نہیں رکا تو وہ کبھی بھی کسی بڑے فرقہ وارانہ دنگے‘توڑ پھوڑ اور تشدد کی وجہ بن سکتے ہیں۔
ای فاسٹنگ
جوکام بھارتی نیتاؤں کو کرنا چاہئے‘ اس کا بیڑا بھارت کے جین سماج نے اٹھا لیا ہے۔ سورت‘ احمد آباد اور بنگلور کے کچھ جین لوگوں نے ایک نئی مہم چلائی ہے جس کے تحت وہ لوگوں سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ دن میں کم سے کم تین گھنٹے اپنے انٹرنیٹ اور موبائل فون کو بند رکھیں۔اسے وہ ''ای فاسٹنگ‘‘کہہ رہے ہیں۔ جین لوگوں نے یہ جو ای فاسٹنگ کی مہم چلائی ہے یہ کروڑوں لوگوں کے جسم اور دل کو بڑا آرام اور شانتی فراہم کرے گی۔ اس مہم میں شامل لوگوں سے کہاگیا ہے کہ ای فاسٹنگ کے ہر ایک گھنٹے کیلئے ایک روپیہ دیاجائے گایعنی جوبھی شخص ایک گھنٹے تک ای فاسٹنگ کرے گا اس کے نام سے ایک روپیہ فی گھنٹے کے حساب سے چندہ ادا کردیا جائے گا۔ کیا کمال کی تحریک ہے۔اس مہم کو شروع ہوئے کچھ ہفتے ہی گزرے ہیں لیکن ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس سے جڑتے چلے جارہے ہیں۔ یہ مہم سب سے زیادہ نوجوانوں کیلئے مفید ہے۔ بہت سے نوجوانوں کو میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ روزانہ کئی گھنٹے اپنے فون یا کمپیوٹر سے چپکے رہتے ہیں۔انہیں اس بات کی بھی فکر نہیں ہوتی کہ وہ کار چلارہے ہیں اور ان کی خوفناک ٹکر بھی ہوسکتی ہے۔ وہ موبائل فون پر بات کئے جاتے ہیں یا فلمیں دیکھے چلے جاتے ہیں۔ کھانا کھاتے وقت بھی ان کا فون اور انٹرنیٹ چلتا رہتا ہے۔کھانا چبانے کی بجائے اسے وہ نگلتے رہتے ہیں۔ انہیں یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ انہوں نے کیا کھایا اور کیا نہیں اور جوکھایا اس کا ذائقہ کیسا تھا۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے غلط استعمال پر سپریم کورٹ بھی کافی ناراض تھی۔ قابلِ اعتراض باتوں اور فحش تصاویر پر بھی کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ کم و بیش یہی حال بھارت کے ٹی وی چینلوں نے بھی پیدا کردیا ہے۔ نوجوان گھر بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔یہ ایک لت بن گئی ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹی وی کی وجہ سے لوگوں کا چلنا پھرنا تو گھٹ ہی گیا ہے‘ گھر کے لوگوں سے ملناجلنا بھی کم ہوگیا ہے۔ان وسائل نے آدمی کا اکیلا پن بڑھا دیا ہے۔ اس کا سماجی میل جول محدود کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انٹرنیٹ اور ٹی وی انسان کے دشمن ہیں‘ حقیقت میں ان مواصلاتی ذرائع نے انسانوں کی ایک نئے دورمیں انٹری کروادی ہے۔ان ذرائع ابلاغ کی افادیت لامحدود ہے لیکن ان کی لت بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔ ضروری یہ ہے کہ انسان ان کا مالک بن کر استعمال کرے نہ کہ ان کا غلام بن جائے۔