"DVP" (space) message & send to 7575

مودی کی امریکا یاترا اور یاد رکھنے کی بات

وزیراعظم نریندر مودی اس ہفتے بدیش یاترا کو جائیں گے۔ وہ واشنگٹن اور نیویارک میں کئی اہم ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس سے ملیں گے۔ اور پھر چوکور(کواڈ) کے نیتاؤں سے ملیں گے یعنی جاپان کے وزیراعظم یوشی ہدے سوگا اور آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن سے بھی ملیں گے۔ اس دوران وہ امریکاکی کئی بڑی کمپنیوں کے مالکان سے بھی ملاقات کریں گے۔ اقوام متحدہ میں ان کے بھاشن کے علاوہ ان کا سب سے اہم کام ہوگا کواڈ کے اجلاس میں حصہ لینا۔ یہ اتحاد بنا ہے امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کو ملاکر۔اس کا غیر اعلانیہ ٹارگٹ چینی اثر کو ایشیامیں گھٹانا ہے لیکن چین نے اس کا نیا نام کرن کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ 'ایشیائی نیٹو‘ہے۔ یورپی نیٹو بنایاگیاتھا سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کیلئے اور یہ بنایاگیا ہے چین کا مقابلہ کرنے کیلئے، لیکن چین مانتاہے کہ یہ سمندر کے جھاگ کی طرح ہوا میں اڑجائے گا۔ بھارت کیلئے فکرکی بات یہ ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی امریکانے ایک نیا اتحاد قائم کیا ہے۔ اس کا نام ہے 'اوکس‘ یعنی آسٹریلیا، یونائیٹڈ کنگڈم اور یو ایس۔اس میں بھارت اور جاپان چھوٹ گئے ہیں اور برطانیہ جڑ گیا ہے۔ امریکانے یہ نئے طریقے کا گروپ کیوں بنایا ہے، سمجھ میں نہیں آتا۔ جو بھی ہو‘ یہ طے ہے کہ اب کواڈ گروپ کی اہمیت گھٹے گی یا اس کا درجہ دوم ہو جائے گا۔اس نئے گروپ میں امریکااب آسٹریلیا کو کئی ایٹمی آبدوزیں دے گا۔ کیا وہ بھارت کو بھی دے گا؟ ایٹمی آبدوزوں کا سودا پہلے آسٹریلیا نے فرانس سے کیاہواتھا۔وہ ردّ ہوگیا۔ فرانس بوکھلایا ہواہے۔ اگر مودی‘بائیڈن کی ملاقات اور کواڈ کی میٹنگ میں افغانستان، ماحولیاتی آلودگی اور کووِڈ جیسے برننگ سوالوں پر بھی وہی گھسی پٹی باتیں ہوتی ہیں‘ جیسا کہ سلامتی کونسل، شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کی میٹنگوں میں ہوئی ہیں تو بھارت کو کیا فائدہ ہوناہے؟ بھارت اور امریکاکے آپسی تعلقات کی قربت بڑھے‘ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ پچھلے 74سال میں بھارت کسی بھی سپر پاور کا دم چھلا نہیں بنا۔ سوویت یونین کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت زیادہ قریبی رہے لیکن سرد جنگ کے دوران بھارت اپنی غیر جانبداری کے آسن پر ٹکا رہا‘ پھسلا نہیں۔ اب بھی وہ اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ وہ روس، چین، فرانس یا افغانستان سے اپنے رشتے امریکاکے من مطابق کیوں بنائے؟ مودی کو اپنی اس امریکایاترا کے دوران بھارتی خارجہ پالیسی کے اس مول منتر کو یاد رکھناہے۔
قانون میں انگریزی کی غلامی
بھارت کے چیف جسٹس نتھال پتی وینکٹ رمنا نے کل وہ بات کہہ دی جو کبھی ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کہا کرتے تھے۔ جو بات جسٹس رمنا نے کہی ہے‘ میری یاد میں ایسی بات آج تک بھارت کے کسی جج نے نہیں کہی۔ رمنا نے ایک یادگاری بھاشن دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے عدالتی نظام کو نوآبادیاتی اور بدیشی شکنجے سے آزاد کیا جانا چاہئے۔ یہ شکنجہ کیا ہے؟یہ شکنجہ ہے انگریزی کی غلامی کا! بھارت کو آزاد ہوئے 74 سال ہوگئے لیکن آج تک ایک بھی قانون ہندی یا کسی بھارتی زبان میں نہیں بنا۔ ہماری پارلیمنٹ ہو یا قانون ساز ادارے‘ سبھی قانون انگریزی میں بنتے ہیں۔ انگریزی میں جو قانون بنتے ہیں انہیں ہمارے ممبرانِ پارلیمنٹ ہی نہیں سمجھ پاتے تو عام عوام انہیں کیسے سمجھیں گے؟ ہم یہ ما ن کرچلتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ممبران اور وزیر‘ قانو ن بناتے ہیں لیکن ا صلیت کیا ہے؟ان قوانین کے اصلی پِتا تو نوکر شاہ ہوتے ہیں، جو انہیں لکھ کر تیار کرتے ہیں۔ ان قوانین کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام ہمارے وکیل اور جج حضرات کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں جاکر قانون جادو ٹونا بن جاتا ہے۔ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ بغلیں جھانکتے ہیں اور وکیلوں اور ججوں کی ' گٹڑ پٹر‘ چلتی رہتی ہے۔ کسی مجرم کو پھانسی ہو جاتی ہے اور اسے پتا ہی نہیں چلتا ہے کہ وکیلوں نے اس کے حق یا اس کے خلاف کیا دلائل دیے ہیں اور جج کے فیصلے کا سبب کیا ہے۔ اسی بات پر جسٹس رمنا نے زور دیا ہے۔ اس انصاف کے لائحہ عمل میں مدعی اور مدعا علیہ کی جم کر ٹھگی ہوتی ہے اور انصاف کے عمل میں بڑی تاخیر ہوجاتی ہے۔ کئی معاملے 20‘20، 30‘30 سال تک عدالتوں میں لٹکے رہتے ہیں۔ انصاف کے نام پر بے انصافی ہوتی رہتی ہے۔ اس دماغی غلامی کا نشہ اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ بھارت کے معاملوں کو طے کرنے کے لئے وکیل اور جج لوگ‘ امریکااور انگلینڈ کی عدالتی مثالیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ انگریزی کے جال میں پھنس کر یہ مقدمے اتنے لمبے کھینچے جاتے ہیں کہ بھارت میں اس وقت تقریباً 4 کروڑ مقدمے برسوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ انصاف کے نام پر چل رہے اس غیر منصفانہ نظام کو آخر کون بدلے گا؟یہ کام وکیلوں اور ججوں کے بس کا نہیں ہے۔ یہ تو سیاستدانوں کو کرنا پڑے گا لیکن ہمارے نیتاؤں کی حالت ہمارے عدالتی نظام سے بھی بدتر ہے۔ ہمارے نیتا، سبھی پارٹیوں کے یا تو نیم خواندہ ہیں ( اَن پڑھ نہیں) ہیں یا احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس نہ تو بنیادی نظریہ ہے اور نہ ہی حوصلہ کہ وہ غلامی کے اس نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی کرسکیں۔ ہاں! اگر کچھ نوکر شاہ چاہیں تو انہیں اور دیش کو اس غلامی سے وہ ضرور آزاد کروا سکتے ہیں۔
بھارت ہاتھ پرہاتھ دھرے کیوں بیٹھا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پہلی بار افغانستان پر اپنا منہ کھولا۔ پچھلے ڈیڑھ دومہینے سے ایسا لگ رہا تھا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی سے ہمارے پردھان منتری کا کچھ لینا دینا نہیں۔ انہوں نے خارجہ پالیسی بنانے اور چلانے کا سارا ٹھیکہ نوکر شاہوں کودے دیا ہے لیکن اب وہ بولے اور اچھا بولے۔ انہوں نے افغانستان میں مخلوط سرکار اور دہشت گردی کے خاتمے کی بات پر زور دیا جو بالکل ٹھیک تھا لیکن اس میں نیا کیا تھا؟ وہ تو سلامتی کونسل اور ہیومن رائٹس کمیشن کی میٹنگ میں سبھی ملک کئی کئی بار قرارداد پاس کرچکے ہیں۔سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہوئی کہ اس شنگھائی تعاون کی میٹنگ میں حصہ لینے والے ملکوں میں چین، روس، پاکستان اور ایران نے اپنی ایک میٹنگ کی۔ ان چاروں نے بھارت کو پوچھا تک نہیں۔ بھارت کو اچھوت مان کر ان ملکوں نے اسے الگ بٹھائے رکھا۔ یہ بتائیں کہ بھارت کی غلطی کیا ہے؟ افغانستان کی عام جنتا میں بھارت کیلئے جو تعریف کے جذبات ہیں جو دنیا کے کسی دوسرے ملک کیلئے نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تمام پڑوسی ملکوں کے دل میں یہ بات گھرکر گئی ہے کہ بھارت سرکار کی کوئی افغان پالیسی نہیں ہے۔ وہ امریکاکا طفیلی بن گیا ہے۔ اس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہوئے ہمارے وزیر خارجہ جے شنکر نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی کو یقین دلایا ہے کہ وہ ہمارے فوجی سبراہ بپن راوت کے چین مخالف بیان سے بھی غیرمتفق ہیں اور بھارت کسی تیسرے ملک (امریکہ)کی وجہ سے چین سے اپنے آپسی تعلقات کو متاثرنہیں ہونے دے گا۔ یہ تو بہت اچھا ہے لیکن افغانستان کے مدعے پر بھی ہم یہ بات کیوں نہیں نافذکر رہے ہیں؟ نریندر مودی کا یہ ارادہ ٹھیک ہے کہ طالبان سرکار کو تسلیم کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے لیکن افغان عوام کی مدد میں کوتاہی بھی نہ کی جائے۔ طالبان سے رابطہ کئے بغیر اس پالیسی پر ہم عمل کیسے کریں گے؟ اب امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے چین کو گھیرنے کے لئے نیٹو کی طرح کا اتحاد بنا لیا ہے اور امریکاکا سارا زور چین کے خلاف ہی لگ رہاہے۔ اسے جنوب اور وسطی ایشیا کی کوئی فکر نہیں ہے۔ امریکاسے بھارت کے رشتے اچھے رہیں‘ میں یہی چاہتا ہوں لیکن ہم نے اپنے خطے کو بھی دیکھا ہے یا نہیں ؟ اگر چین، پاکستان، روس اور ایران جیسے ملک افغانستان کی موجودہ صورتحال سے خطرہ محسوس کر رہے اور اس سے نمٹنے کا انتظام کر رہے ہیں تو پھر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں