نوجوت سنگھ سدھو کا معاملہ سب کے سامنے ہے اور ادھر کچھ ایسے واقعات اور بھی ہو گئے ہیں جو کانگرس پارٹی کی مصیبت کو طول دے رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سابق مکھیہ منتری امریندر سنگھ دہلی جا کر وزیر داخلہ امت شاہ سے ملے۔ کیوں ملے؟ بتایا گیا کہ کسان آندولن کے بارے میں انہوں نے بات کی ہو گی‘ لیکن کس حیثیت میں کی ہو گی؟ اب وہ نہ مکھیہ منتری ہیں اور نہ کانگرس صدر! تو بات یہ ہوئی ہو گی کہ امریندر کا اگلا قدم کیا ہو گا؟ وہ بھاجپا میں انٹری کریں گے یا اپنی نئی پارٹی بنائیں گے یا گھر بیٹھے کانگرس کی جڑ کھودیں گے؟ اس کا فیصلہ جلد سامنے آ جائے گا۔
ادھر گوا کے اعلیٰ کانگرسی نیتا اور سابق مکھیہ منتری لوئی زنہو فیلیریو نے کانگرس چھوڑ کر ترنمول کانگرس کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ گوا میں کانگرس کی دال پہلے سے ہی کافی پتلی ہو رہی ہے اور اب 9 دیگر کانگرسی نیتاؤں کے ساتھ فیلیریو کا ترنمول میں جانا گوا کانگرس کے ودھائیکوں کی تعداد مزید گھٹ گئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کنہیا کمار اور جگنیش میوانی نے کانگرس سے جڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ دونوں نوجوان نیتا دلتوں اور ونچتوں کو کانگرس سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ کیا وہ کانگرس میں رہ کر ایسا کر پائیں گے؟ اس حوالے سے بھی سوال کا جواب بھی جلد سامنے آنے والا ہے کہ یہ او کس کروٹ بیٹھے گا۔
اس وقت کانگرس میں ماں، بیٹا اور بہن کے علاوہ جتنے بھی نیتا ہیں کیا ان کی صورت حال ملک کے دلتوں سے بہتر ہے؟ دلتوں کے کچھ آئینی ادھیکار تو ہیں اور ان پر نا انصافی ہو تو وہ عدالت کی پناہ میں جا سکتے ہیں لیکن کانگرسی جب دلے جاتے ہیں تو وہ کس کی پناہ میں جائیں؟ جی 23 کے نیتا کپل سبل چاہے دعویٰ کریں کہ ان کے 23 پترلیکھک کانگرسی نیتا جی 23 تو ہیں لیکن وہ جی حضور 23 نہیں ہیں لیکن ان کے اس دعوے پر مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے ؎
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
اندرا کانگرس میں وہی نیتا ابھی تک ٹک سکے ہیں اور آگے بڑھ سکے ہیں جو چاپلوسی کے مہا پنڈت ہیں۔ شرد پوار اور ممتا بینرجی جیسے کتنے نیتا ہیں؟ اندرا جی نے نئی کانگرس کا جو بیج بویا تھا وہ قد آور درخت بن گیا تھا۔ لیکن اس قد آور درخت میں اب گھن لگ چکا ہے۔ دو سال ہو گئے پارٹی کا کوئی باقاعدہ صدر نہیں ہے اور پارٹی چل رہی ہے‘ جیسے جنگ میں بغیر سر کے دھڑ چلا کرتے ہیں۔
معلوم نہیں، یہ دھڑ اب کتنے قدم اور چلے گا؟ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی کانگرس کے اس جسم کے لڑکھڑانے کی خبر آتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہماری آج کی کانگرس مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کی طرح ہے‘ اور ایک طرح سے اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ ملک کے لوک تنتر (جمہوریت) کے لیے اس سے بڑی بد قسمتی کی بات کیا ہو سکتی ہے؟ اگر کانگرس بے جان ہو گئی تو بھاجپا کو کانگرس بننے سے کون روک سکتا ہے؟ تب پورا بھارت ہی جی حضوروں کا لوک تنتر بن جائے گا۔ اس وقت بھاجپا اور کانگرس کا اندرونی حال ایک جیسا ہوتا جا رہا ہے۔
لیکن عام جنتا میں اب بھی بھاجپا کی ساکھ قائم ہے‘ یعنی اندرونی لوک تنتر سبھی پارٹیوں میں صفر کو چھو رہا ہے، لیکن یہی رجحان باہری لوک تنتر پر بھی حاوی ہو گیا تو ہماری پارٹی کی اس نیتا شاہی کو تانا شاہی میں بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ اگر ہم اقوام متحدہ میں جا کر بھارت کو 'لوک تنتر کی اماں‘ اعلان کر رہے ہیں تو ہمیں اپنی اس ماں کے جیون اور سنمان کی حفاظت کے لئے ہمیشہ محتاط رہنا ہوگا۔
علاج مفت تو تعلیم کیوں نہیں؟
پنجاب میں کانگرس کی اتھل پتھل پورے دیش کا دھیان کھینچ رہی ہے‘ لیکن وہیں سے ایک ایسا بیان بھی آیا ہے جس پر نیتاؤں اور نوکر شاہوں کو فوراً دھیان دینا چاہئے۔ وہ بیان ہے دہلی کے مکھیہ منتری اروند کیجریوال کا۔ کیجریوال آج کل اپنی آپ پارٹی کی چناوی مہم چلانے کے لیے پنجاب کی یاترا پر ہیں۔ وہ اپنے بھاشنوں میں کانگرس اور بھاجپا کی ٹانگ کھنچائی کرتے ہیں‘ جو فطری ہے لیکن وہاں انہوں نے ایک غضب کی بات بھی کہہ دی ہے جس کی وکالت میں اپنے بھاشنوں اور تحریروں میں سالوں سے کرتا رہا ہوں۔ میری درخواست یہ ہے کہ جب تک کوئی راشٹر اپنی تعلیم اور علاج کو مضبوط نہیں بناتا وہ کمزور ہوا پڑا رہے گا۔ بھارت کی تقریباً سبھی سرکاروں نے ان دونوں شعبوں میں تھوڑے بہت سدھار کی کوشش ضرور کی ہے‘{ لیکن یہ دونوں شعبے اگر مضبوط ہو جائیں تو بھارت کو سپر پاور اور مہا شکتی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اروند کیجریوال نے اس سمت میں پہلے دہلی میں قدم بڑھایا اور اب یہی کام بڑے پیمانے پر پنجاب میں کرنے کا اعلان انہوں نے کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب کے ہر گاؤں میں ایک ہسپتال کھلے گا۔ سب کا علاج مفت ہو گا۔ جانچ مفت ہو گی۔ ہر آدمی کا میڈیکل کارڈ بنے گا تاکہ اس میں اس کی ساری بیماریوں اور علاج کی تفصیلات رہیں گی۔ جن شہریوں کی سرجری ہو گی وہ 15 لاکھ تک مفت ہو گی۔ اپوزیشن جماعتیں کہہ سکتی ہیں کہ کیجریوال نے یہ چناوی پھسل پٹی کھڑی کر دی ہے تاکہ اس لالچ میں ووٹ پھسلتے چلے آئیں۔ میں پوچھتا ہوں آپ کو کس نے روکا ہے؟ آپ بھی ایسے اعلانات کیوں نہیں کر دیتے؟ کوئی ہارے، کوئی جیتے، جنتا کا تو بھلا ہی ہو گا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ علاج کے نام پر بھارت میں آج کل کتنی زبردست ٹھگی ہوتی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ راجستھان کے ہر ضلع میں میڈیکل کالج کھولنے کا بیڑا مکھیہ منتری اشوک گہلوت نے اٹھاتا ہے اور پردھان منتری نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔ لیکن ان میڈیکل کالجوں میں ہندی میں پڑھائی کب شروع ہو گی؟ کون مائی کا لال یہ ہمت کرے گا؟ پچھلے سات سالوں میں ہمارے دو مرکزی صحت منتریوں نے اپنی زبان میں میڈیکل کی پڑھائی شروع کروانے کا وعدہ مجھ سے کئی بار کیا‘ لیکن وہ آج تک شروع نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں کوئی قدم اب تک نہیں اٹھایا گیا ہے اور صورتحال ویسی کی ویسی ہے جیسی چند سال پہلے تھی۔
ایلوپیتھی اب بھی جادو ٹونا بنی ہوئی ہے، انگریزی کی وجہ سے۔ اسی وجہ سے گرامینوں اور غریبوں کے بچے ڈاکٹر نہیں بن پاتے۔ ٹھگی کی بھی وجہ یہی ہے۔ اگر ڈاکٹری کی پڑھائی ہندی میں شروع ہو جائے اور ایلوپیتھی، آیوپیتھی، ہومیوپیتھی اور یونانی پیتھی کی مشترکہ پڑھائی ہو تو یہ بھارت کا ہی نہیں دنیا کا نیا چمتکار ہوگا اور ٹھگی بھی ختم ہو گی۔ اس سے بہت سے لوگوں کو علاج کی سہولت ملے گی۔
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی تعلیم اور علاج کے بجٹ میں زبردست اضافہ کیا تھا۔ اس نے یورپ کو پیچھے چھوڑ دیا اور وہ آج دنیا کی سب سے زیادہ خوش حال اور طاقت ور اقوام میں گنا جاتا ہے۔ تعلیم من کو مضبوط کرے گی اور علاج تن کو تب دھن تو اپنے آپ برسے گا۔