آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے ڈائریکٹر کا دعویٰ ہے کہ بھارت کو کورونا کے تیسرے حملے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 'بھارتیہ کو‘ ویکسین کا اثر لوگوں کو کافی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ یہ تو ان کی تکنیکی رائے ہے لیکن بھارت کی عام جنتا کا طرزِ عمل بھی یہی بتا رہا ہے کہ اسے اب کورونا کا ڈر زیادہ نہیں رہ گیا۔ دہلی میں مَیں دیکھ رہا ہوں کہ نیتا لوگ بڑے بڑے اجلاس کرنے لگے ہیں، شادیوں میں سینکڑوں لوگ اکٹھے ہونے لگے ہیں، بازاروں میں بھیڑ جٹنے لگی ہے اور ہوٹلوں میں لوگ کھانا بھی کھانے لگے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ نہ تو ماسک لگا رہے ہیں اور نہ ہی سوشل ڈسٹینسنگ رکھ رہے ہیں۔ جن لوگوںنے دو ٹیکے لگوا لیے ہیں وہ تو بے فکر ہو گئے ہیں۔ اب بھی 20 کروڑ سے زیادہ ٹیکے ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ریلوے سٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر بھی بھیڑ بڑھ گئی ہے لیکن آپ ذرا یورپی ممالک کا حال دیکھیں تو آپ تھرا اٹھیںگے۔ یورپ کے جرمنی، فرانس، ہالینڈ، سپین وغیرہ ممالک میں کورونا کا یہ تیسرا اور چوتھا حملہ ہے اور وہ اتنا تیز ہے کہ کچھ ممالک نے سخت لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔ سکول، کالج، ہوٹل، جلسہ گاہیں، سنیما گھر جیسے تمام پبلک مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ جو کورونا ویکسین نہیں لگوائے گا اس پر کچھ ممالک نے ہزاروں روپے کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ ہالینڈ میں اتنے مریض بڑھ گئے ہیں کہ اس کے ہسپتالوں میں ان کے لیے جگہ ہی نہیں ہے۔ دو‘ تین روز پہلے جرمنی میں ایک دن میں 65 ہزار سے زیادہ نئے مریضوں کی تشخیص ہوئی جو اب تک کے جرمنی کے سب سے زیادہ مریض ہیں یعنی یہ لہر یورپ میں پہلی تمام لہروں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ یورپی ممالک اپنے یہاں پھیلی تیسری اور چوتھی لہر سے اتنے گھبرا گئے ہیں کہ وہ پڑوسی ممالک کے شہریوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔ اگلے کچھ ماہ میں وہاں مرنے والوں کی تعداد 7 لاکھ تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یورپی ممالک میں کورونا سے اگلے سال تک شکار ہونے والوںکی تعداد 22 لاکھ تک جا سکتی ہے۔ بھارت میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد 5 لاکھ کے آس پاس ہے جبکہ اس کی آبادی سارے یورپی ممالک سے تقریباً دوگنی ہے۔ بھارت کے مقابلے یورپی ممالک کہیں زیادہ صاف ستھرے ہیں اور وہاں طبی سہولتیں بھی کہیں بہتر ہیں۔ یورپی ملک میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد بھی بھارت سے زیادہ ہے‘ پھر بھی یورپ کا حال اتنا برا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی واحد وجہ جو مجھے سمجھ پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ یورپی مغرور ہیں‘ وہ اپنے ڈاکٹروں اور لیڈروں سے بھی زیادہ خود کو مستند مانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مہذب اور صحت مند کوئی ہے تو وہ ہیں۔ اسی لیے لاک ڈاؤن اور ٹیکے کے خلاف وہ مظاہرہ کر رہے ہیں، اپنے لیڈروں کو کوس رہے ہیں اور اپنے ڈاکٹروں کے ارادوں پر شک کر رہے ہیں۔ کیا بھارت میں کوئی صدر، نائب صدر، وزیراعظم، سپیکر یا کوئی بڑا لیڈر کورونا کا شکار ہوا؟ نہیں! لیکن برطانیہ اور فرانس کے وزرائے اعظم کو نظر بندی (آئسولیشن) جھیلنا پڑی۔ بھارت میں حکمران اور اپوزیشن لیڈر کتنی ہی سیاسی تو تو‘ میں میں کرتے رہیں لیکن کورونا کی مہاماری سے لڑنے میں سب ایک تھے۔ بھارت کی جنتا نے اس وبا کے دوران کافی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایمس کے ڈائریکٹر کا دعویٰ اپنی جگہ تاہم جنتا کو چاہیے کہ وہ اب بھی محتاط رہیں‘ یہ ضروری ہے۔ اب تو ویسے ہی اومیکرون نامی نئے وائرس کا غلغلہ برپا ہو رہا ہے، تمام دنیا اس سے گھبرا گئی ہے، اس سے پہلے بھی کورونا کے چند نئے ویری اینٹ آئے ہیں مگر اب والے کو سب سے زیادہ خطرناک کہا جا رہا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ پچھلے تمام ویری اینٹس میں ویکسین کارآمد تھی مگر اب والے ویری اینٹ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین کو بھی بے اثر کر دیتا ہے لہٰذا اس سے بچائو کا طریقہ وہی ہے جو کورونا کی پہلی لہر سے بچائو کا تھا یعنی ماسک اور سوشل ڈسٹینسنگ۔ اب کے یہ امید بھی ہے کہ جلد ہی اس کا بھی کوئی توڑ ڈھونڈ لیا جائے گا جیسے پہلے وائرس کی ویکسین چند ہی مہینوں میں تیار ہو گئی تھی۔
بے لگام جاسوسی ٹھیک نہیں
بھارتی پارلیمنٹ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے 'پرسنل انفارمیشن پروٹیکشن بل‘ پر اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میںکچھ دن بعد ہی یہ بل قانون کی شکل لے سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عوام کے لین دین، بیانات، سرگرمیوں، خط و کتابت وغیرہ پر نگرانی رکھنے‘ یعنی یہ دیکھنا کہ کوئی ریاست مخالف سرگرمی تو چپ چاپ نہیں چلائی جا رہی ہے‘ کی حکومت کو چھوٹ مل جائے گی۔ اس نگرانی کے لیے جاسوسی نظام کو بہت زیادہ چست اور اہل بنانا ضروری ہے۔ اس نقطہ نظر سے کوئی بھی سرکار چاہے گی کہ اس کے جاسوسی کام پر کوئی بھی بندش نہ ہو‘ وہ بلاتعطل جاسوسی‘ جس کی چاہے‘ کر سکے۔ اسی مقصد سے اس بل کو قانون بنانے کی تیاری ہے، لیکن پیگاسس ایشو نے ملک میں ذاتی جاسوسی کے خلاف اتنا تگڑا ماحول بنا دیا ہے کہ یہ بل اسی شکل میں قانون بن پائے گا‘ اس کا امکان کم ہی ہے کیونکہ یہ سرکاروں کو آمرانہ اختیارات دے رہا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پیگاسس جاسوسی کے معاملے میں مودی حکومت کے خلاف کئی صحافیوں، صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، ایک رکن پارلیمان اور ایک ایڈوکیٹ کی طرف سے کیس دائرکیا گیا تھا اور ان سب درخواست گزاروں کا الزام تھا کہ مودی حکومت نے ملک میں سیاست دانوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، ججوں اور دیگر کے خلاف جاسوسی کے لیے اسرائیلی این ایس او گروپ کے تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس کا استعمال کیا کیونکہ اسرائیل یہ سافٹ ویئر صرف حکومتوں یا حکومتی اداروں کو ہی فروخت کرتا ہے، لہٰذا جاسوسی میں بھارت کی مرکزی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔ اب جو بل تیار کیا گیا ہے‘ اس کی دفعہ 35 کے مطابق سرکار کی ایجنسیاں 'امن اور سلامتی‘، 'خودمختاری‘ اور 'ریاست کی سلامتی‘ کے بہانے کسی بھی شخص یا ادارے کی جاسوسی کر سکتی ہیں اور کسی کو بھی کوئی اعتراض کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ کوئی بھی شخص‘ جو اپنی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوتے دیکھتا ہے‘ نہ تو عدالت میں جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے میں شکایت کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ یعنی سرکار مکمل بے لگام جاسوسی کر سکتی ہے۔ 2018ء میںجسٹس شری کرشن کمیٹی نے اس سلسلے میں جو رپورٹ تیار کی تھی، اس میں سرکار کی اس خود مختاری پر کورٹ کے روکنے کا اہتمام تھا لیکن اب اس بل میں سرکار کے اہلکار ہی جج کا کردار ادا کریں گے۔ پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کو بھی نگرانی کیلئے کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ بھاجپا سرکار پر پہلے ہی یہ الزامات لگتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے مخالفین کی جاسوسی کروا رہی ہے اس بل کے ایسے ہی‘ کسی ترمیم کے بغیر‘ نفاذ سے مخالفین کے پاس زیادہ بڑا ایشو آ جائے گا۔ اگر یہ بل ایسے ہی منظور ہو جاتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ شہریوں کی پرائیویسی متاثر ہو گی۔ حکمران طبقہ اپنے مخالفین کی جم کر جاسوسی کروائے گا۔ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ دہشت گردوں، سمگلروں، مجرموں، ٹھگوں، غیر ملکی ایجنٹوں وغیرہ پر سخت نظر رکھنا کسی بھی سرکار کا لازمی فرض ہے لیکن اس کے نام پر اگر ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ بھارتیہ آئین اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کی خلاف ورزی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پارلیمانی بحث کے دوران حکمران بھاجپا‘ اور اتحادی جماعتوں کے ایم پیز بھی اس مدعے پر اپنی بے خوف رائے پیش کریں گے۔