بھارت میں غریبوں کی حالت کتنی شرمناک ہے‘ اس کا اندازہ لگا کر ہی مہذب دنیا کے پسینے چھوٹ جائیں۔ آزادی کے 74 سالوں میں بھارت میں امیری تو بڑھی ہے لیکن وہ مٹھی بھر لوگوں اور مٹھی بھر ضلعوں تک ہی پہنچی ہے۔ آج بھی بھارت میں غریبوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی دیش سے زیادہ ہے۔ ہمارے دیش کے کئی ضلعے ایسے ہیں، جن میں آدھے سے زیادہ لوگوں کو چوبیس گھنٹوں میں پیٹ بھر روٹی بھی نہیں ملتی۔ اچھی خاصی آبادی ایسی ہے کہ اگر اسے ایک وقت کا کھانا مل جائے تو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ دوسرے وقت کا ملے گا یا نہیں۔ بیماری کی صورت میں ادویات کی دستیابی کی صورت حال تو اور بھی خراب ہے۔ یہ دوا کی کمی میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ وہ 'کا گھا گا‘ بھی نہیں لکھ سکتے‘ نہ پڑھ سکتے ہیں۔ میں نے مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے کچھ آدی واسی ضلعوں میں لوگوں کو برہنہ اور نیم برہنہ حالت میں گھومتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ رنگ راجن کمیشن کا ماننا تھا کہ گاؤں میں جسے 972 روپے اور شہروں میں جسے 1407 روپے فی ماہ سے زیادہ ملتے ہیں وہ غریبی کی ریکھا سے اوپر ہے۔
واہ کیا بات ہے؟ اگر ان آنکڑوں کو روزانہ آمدنی کے حساب سے دیکھیں تو 30 روپے اور 50 روپے روز بھی نہیں بنتے۔ اتنے روپے روز میں تو آج کسی گائے یا بھینس کو پالنا بھی مشکل ہے‘ چہ جائیکہ کہ انسان ان سے اپنے دن بھر کے اخراجات پورے کر سکیں۔ دوسرے الفاظ میں بھارت کے غریب کی زندگی پشوؤں سے بھی بد تر ہے۔ دنیا بھر کے 193 دیشوں والی غریبی ناپنے والی سنستھا کا کہنا ہے کہ اگر غریبوں کی آمدنی اس سے زیادہ ہو جائے تو بھی انہوں نے جو 12 پیمانے بنائے ہیں‘ ان کے حساب سے وہ غریبی مانی جائے گی، کیونکہ کوری بڑھی ہوئی آمدنی انہیں نہ تو ہیلتھ کی سہولیات دے سکتی ہے، نہ ہی تعلیم، صفائی، بھوجن (کھانا یا خوراک)، صاف پانی، بجلی، گھر وغیرہ مہیا کروا پائے گی۔ اتنی آمدنی میں وہ ایک کامیاب انسان کی زندگی جینے کا موقع بھی حاصل نہیں کر پائے گا۔ دوسرے الفاظ میں آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ جب تک سرکاری سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوں گی، شہری لوگ آرام اور سہولت کی زندگی نہیں جی سکیں گے۔
سبھی سرکاریں یہ سب سہولیات بانٹنے کا کام کرتی رہتی ہیں‘ ان کا اصل مقصد اپنے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا اور ان کے مسائل حل کرنا نہیں ہوتا بلکہ انہیں بس اتنا مطمئن کرنا ہوتا ہے کہ ان سہولیات کی آڑ میں ان کے ووٹ بٹورے جا سکیں اور اپنی حکومت کی اگلی باری پکی کی جا سکے۔ اگر بھارت میں برسرِ اقتدار رہنے والی سرکاریں عوام کی حقیقی ترقی کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور اقدامات کرتیں تو آج بھارتی عوام کی حالت اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوتی؛ چنانچہ جب تک بھارت میں بودھک لیبر (ذہنی کام کرنے والے) اور جسمانی لیبر (جسمانی کام کرنے والے) بھید بھاؤ نہیں گھٹے گا، یہاں غریبی بڑھتی رہے گی۔ تعلیم اور علاج، یہ دو سیکٹر ایسے ہیں جو شہریوں کے دماغ اور جسم کو مضبوط بناتے ہیں۔
جب تک یہ سب کو آسان اور مفت نہ ملے، بھارت کبھی بھی مضبوط، خوش حال اور برابری پر مبنی نہیں بن سکتا۔ اوپر دیئے گئے آنکڑوں کی بنیاد پر آج بھی آدھے سے زیادہ بہار، ایک تہائی سے زیادہ جھاڑکھنڈ‘ اتر پردیش اور لگ بھگ ایک تہائی مدھیہ پردیش اور میگھالیہ غریبی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں غریبی ناپنے کے لیے جو پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں وہی پورے بھارت پر لاگو کریں تو معلوم پڑے گا کہ بھارت کے 140 کروڑ لوگوں میں سے لگ بھگ 100 کروڑ لوگ محروموں، غریبوں، کمزوروں اور ضرورت مندوں کی کیٹگری میں رکھے جا سکتے ہیں۔ پتہ نہیں، اتنے لوگوں کو ریلیف کب ملے گا اور کون یہ نیک کام کرے گا؟
آج کسان منتھن (سوچ بچار)زیادہ ضروری
پارلیمنٹ کے دونوں ہاؤسوں میں زرعی قانون اتنی ہی جلدی واپس لے لیے گئے جتنی جلدی وہ لائے گئے تھے۔ لاتے وقت بھی ان پر ضروری بات چیت نہیں ہوئی اور واپس لیتے وقت بھی مناسب غور نہیں کیا گیا۔ ایسا کیوں؟ ایسا ہونا اپنے آپ میں شک پیدا کرتا ہے۔ یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون میں کچھ نہ کچھ استادی ہے جسے سرکار چھپانا چاہتی ہے، یعنی کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘ جبکہ سرکار کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون لائے ہی اس لیے گئے تھے کسانوں کو خوش حال اور سکھی بنایا جائے۔ اگر ان قوانین کے جاتے اور آتے وقت جم کر بحث ہوتی تو کسانوں کو ہی نہیں ملک کے عام لوگوں کو بھی پتہ چلتا کہ بھاجپا سرکار کھیتی کے میدان میں بے مثال انقلاب لانا چاہتی ہے۔
مان لیا کہ اپنے قوانین سے سرکار اتنی زیادہ خوش تھی کہ اس نے سوچا کہ انہیں فوراً نافذ کیا جائے لیکن اگر پارلیمنٹ میں اس کی واپسی کے وقت لمبی بحث ہوتی تو سرکار اس کے فائدے تفصیل سے گنوا سکتی تھی‘ بتا سکتی تھی کہ اس سے بھارت کے زرعی شعبے کو کیا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ایسا کر کے بھارتی عوام کو وہ یہ پیغام بھی دیتی کہ وہ مغرور بالکل نہیں ہے۔ وہ اپنے ان داتاؤں کا دل سے احترام کرتی ہے۔ اسی لیے اس نے انہیں واپس کر لیا ہے۔ اس پارلیمانی بحث میں اسے کئی نئے سجھاؤ بھی ملتے لیکن لگتا ہے کہ ان قوانین کی واپسی نے مودی سرکار کو بہت ڈرا دیا ہے اور اس کی اخلاقی قوت پیندے میں بیٹھ گئی ہے۔ اسے لگا کہ اگر بحث ہوئی تو اس کے مخالفین اس کی چمڑی ادھیڑ ڈالیں گے۔ اس کا یہ ڈر صحیح نکلا۔ مخالفین نے بحث کی مانگ کے لیے جیسا ڈرامائی ہنگامہ کیا‘ اس سے کیا پتہ چلتا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے خود کو کسانوں کا زیادہ بڑا ہمدرد ثابت کرنا چاہتی ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ہمارے پکشیوں (اقتدار والے) اور وپکشیوں (مخالفین)‘ دونوں کا کردار لوک تنتر کے لحاظ سے تسلی بخش نہیں رہا۔ یہ تو ہوئی سیاسی پارٹیوں کی بات لیکن ہمارے کسان آندولن کا کیا حال ہے؟ وہ غیر معمولی اور تاریخی رہا، اس میں ذرا بھی شک نہیں، لیکن یہ ذہن میں رہے کہ یہ آندولن (احتجاج) پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کے مال دار کسانوں کا آندولن تھا۔ سرکار کو انہیں تو مطمئن کرنا ہی چاہئے لیکن ان سے بھی زیادہ اس کی ذمہ داری ان 86 فیصد کسانوں پر ہے جو ملک کے 700 اضلاع میں اپنی روزی روٹی بھی ٹھیک سے نہیں حاصل کر پاتے ہیں۔
پیداوار کی کم از کم سرکاری قیمت کے سوال پر کھل کر بحث ہونی چاہئے۔ وہ مٹھی بھر مال دار کسانوں کی بپوتی (بڑے) نہ بنیں اور وہ سبھی کسانوں کے لیے فائدہ مند رہیں‘ یہ ضروری ہے۔ آج کے حالات میں کسان آندولن کے بجائے کسان کی بہتری کے لیے دماغی سوچ بچار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بھارت میں زرعی شعبے کے مسائل حل ہو سکیں اور ملک کو خوراک کے لحاظ سے ترقی دی جا سکے۔ زرعی شعبے کے ساتھ سیاست بازی مہنگی پڑ سکتی ہے۔