چین نے شاہراہ ریشم کی اپنی پرانی چینی حکمت عملی کو نیا نام دے کر ایشیا اور افریقہ میں پھیلا دیا ہے اور جنوبی ایشیا کے تقریباً سبھی ممالک کو اس نے اپنے بندھن میں باندھ لیا ہے۔ تقریباً سبھی اس کے شراکت دار بن گئے ہیں‘ صرف بھارت ہی ابھی تک امریکہ کا پچھ لگو بن کر چینی حلقے سے باہر بیٹھا ہے۔ چین نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو ایک راہ داری کے ذریعے جوڑنے کا منصوبہ تو بنایا ہی ہے وہ ان ملکوں میں بندرگاہیں، ریلویز، نہریں، بجلی گھر، گیس اور تیل کی پائپ لائنز وغیرہ سمیت کئی چیزیں بنانے کے منصوبے بھی پیش کر چکا ہے۔ ان تعمیراتی کاموں سے ان ممالک کو اربوں کھربوں روپے کے ٹیکس ملنے کے امکانات ہیں۔ اس طرح چین نے 65 سے زیادہ ملکوں کو اپنے حلقے میں لے لیا ہے اور اب تک 139 ممالک نے اس چینی پہل سے اتفاق کیا ہے جن میں یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کی مجموعی جی ڈی پی عالمی جی ڈی پی کا 40 فیصد ہے۔ 23 مارچ 2019ء کو اٹلی با ضابطہ طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بن گیا۔ اٹلی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں با ضابطہ طور پر حصہ لینے والا گروپ سیون (جی 7) کا پہلا رکن ملک ہے۔ یورپ کے لیے یہ اہم نشانی اور خاص اہمیت کا حامل اقدام ہے۔ اٹلی نہ صرف جی 7 کا رکن ہے بلکہ یورپی یونین کا بھی بانی رکن ہے۔ اٹلی کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ یورپ میں بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کو فروغ دینے کے عمل نے نئی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اب وہ ایک نئی سطح پر منتقل ہو گئے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر کے ذریعے چین اور اٹلی بندرگاہوں، لاجسٹکس اور سمندری نقل و حمل جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے شعبے میں ترقی کے نئے مواقع حاصل کریں گے اور دو طرفہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید تقویت پہنچائیں گے۔ بھارت کو کم از کم جنوبی اور وسطی ایشیا میں چینی بیلٹ اینڈ روڈ طرز کے منصوبے شروع کرنے چاہئیں تھے‘ لیکن یورپی یونین نے اب گلوبل گیٹ وے کے نام سے یہ کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کوشش کے تحت مواصلات، توانائی، ماحولیات اور ڈیجیٹل شعبوں میں ٹھوس منصوبے شامل کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ یورپ کی طرف سے افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے؛ اگرچہ گلوبل گیٹ وے منصوبے کی ابتدائی دستاویز میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ چین کی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ یورپی یونین اس منصوبے پر 340 ارب ڈالر لگائے گا اور افریقی ایشیائی ممالک کو جامع ترقی کے لیے گرانٹ دے گا۔ اس کی کوشش ہو گی کہ وہ ان ترقی پذیر ممالک کو آلودگی پر قابو پانے، تعلیم، صحت، ریل، ہوائی اڈے، سڑک، نہر کی تعمیر اور دیگر کئی شعبوں میں مالی مدد فراہم کرنے کی کوشش کرے اور ان ممالک کے لوگوں کو نئے نئے روزگار بھی دے گا۔ یورپی یونین کے نائب صدر جوزپ بوریل کے مطابق اہم شعبوں میں رابطے دل چسپی کی مشترکہ کمیونٹیز بنانے اور سپلائی چینز کو تقویت دینے میں مدد کرتے ہیں۔ دنیا میں ایک مضبوط یورپ کا مطلب ہے اپنے شراکت داروں کے ساتھ پُر عزم مصروفیت جو یورپ کے بنیادی اصولوں پر قائم ہو۔ گلوبل گیٹ وے حکمت عملی کے ساتھ رابطوں کے نیٹ ورک کو فروغ دینے کے یورپی ویژن کی توثیق کی جا رہی ہے جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیارات، قواعد و ضوابط پر مبنی ہونا چاہیے تا کہ ایک برابری کا میدان فراہم کیا جا سکے۔ جی سیون ممالک نے بھی چینی منصوبے کے جواب میں ایک عالمی راہ داری منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس سال جون میں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مالی طور پر ایسے منصوبے سامنے لائے گا جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کر سکیں۔ امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر افسر کے مطابق اس منصوبے کا نام ''بِلڈ بیک بیٹر فار دا ورلڈ‘‘ یعنی بہتر دنیا کی دوبارہ تعمیر ہو گا۔ امریکی انتظامیہ کے افسر کا کہنا تھا کہ امریکہ کا منصوبہ جسے B3W کانام دیا گیا، میں نجی سیکٹر کے ذریعے دنیا بھر میں غریب اور ترقی پذیر ممالک میں تعمیری ڈھانچے اور سڑکوں پر کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں دنیا کے لیبر، ماحولیاتی اور شفافیت کے معیار کی بھی پاس داری کی جائے گی۔ یورپ ہو، امریکہ ہو یا روس، ان میں سے ہر ایک ملک کی مدد کے پیچھے اس کے مفادات بھی مضمر ہوتے ہیں‘ مجھے خوشی تب ہو گی جب جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک میں یورپ کی طرح خوش گوار تعلقات شروع ہوں گے۔
میانمار پر بھارت کی چُپ
میانمار کی عالمی شہرت یافتہ سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو چار سال کی سزا سنا دی گئی ہے۔ فوجی سرکار نے ان پر بڑی فراخ دلی دکھاتے ہوئے انہیں چار کے بجائے دو سال کر دیا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ ان پر اتنے سارے مقدمے چل رہے ہیں کہ اگر انہیں بہت کم سزا بھی ہوئی تو وہ 100 سال کی بھی ہو سکتی ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات ہیں۔ جب ان کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سرکار تھی، تب ان پر رشوت خوری کا الزام لگایا گیا تھا۔ میانمار کے فوجیوں نے عوام کے ذریعے چنی ہوئی ان کی سرکار کا اس سال فروری میں تختہ الٹ دیا تھا۔ اس سے پہلے 15 سال تک انہیں نظر بند رکھا گیا تھا۔ نومبر 2010ء میں میانمار میں چناؤ ہوئے تھے۔ ان میں سوچی کی پارٹی کو بھاری اکثریت ملی تھی۔ فوج نے سوچی پر انتخابی جرائم کا الزام لگایا اور اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ فوج کے اس ظلم کے خلاف پورے ملک میں زبردست جلوس نکالے گئے‘ ہڑتالیں ہوئیں اور دھرنے دیے گئے۔ فوج نے سبھی سیاست دانوں اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ تقریباً 1300 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ فوج نے تقریباً 10 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ وہ لوگ بھاگ کر بنگلہ دیش اور بھارت آ گئے۔ میانماری فوج کے اس تانا شاہی اور ظالمانہ رویے پر ساری دنیا خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ میں یہ معاملہ اٹھا ضرور لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر میانمار(سابق برما) کو اقوام متحدہ کی رکنیت سے محروم کر دیاجاتا اور اس پر کچھ بین الاقوامی پابندیاں تھوپ دی جاتیں تو وہاں کی فوجی حکومت کو کچھ عقل آ سکتی تھی۔ حیرانی کی بات ہے کہ اپنے آپ کو عالمی طاقت اور جمہوریت کا محافظ کہلانے والے ممالک بھی میانمار میں اس ظلم کے خلاف صرف زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں۔ امریکہ نے حال ہی میں دنیا کے جمہوری ممالک کا اجلاس منعقد کیا‘ لیکن اپنے سامنے ہو رہے جمہوریت کے اس قتل عام پر اس نے چپ سادھی ہوئی ہے۔ میانمار بھارت کا قریبی پڑوسی ہے بلکہ کچھ دہائی پہلے تک وہ ہندوستان کا حصہ ہی تھا لیکن بھارت کا رد عمل بھی نہ ہونے کے برابر ہے‘ جیسے افغانستان کے معاملے میں بھارت بغلیں جھانکتا رہا ویسے ہی میانمار کے سوال پر پس وپیش کا شکار نظر آتا ہے۔ اس میں اتنا بھی دم نہیں ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ بھی کر سکے۔ چین سے تو کچھ امید کرنا ہی بے معنی ہے کیونکہ فوجی حکومت کے ساتھ اس کی پہلے سے ہی لمبی سانٹھ گانٹھ چلی آ رہی ہے۔ میانمار کے عوام اپنی فوج سے اپنے بھروسے لڑنے پر مجبور ہیں۔