"DVP" (space) message & send to 7575

امیری اور غریبی کی کھائی

اب سے تقریباً ساٹھ سال پہلے جب میں مشہور فرانسیسی مفکر پیرے جوزف(Francois Leclerc du Tremblay) کو پڑھ رہا تھا تو ان کے جملے نے مجھے چونکا دیاتھا۔ وہ جملہ تھا کہ ساری جائیداد چوری کا مال ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سبھی امیر چور‘ڈکیت ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے‘ ایسا میں سوچتا تھا، لیکن اب جبکہ دنیا میں میں غریبی اور امیری کی کھائی دیکھتاہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس فرانسیسی انارکسٹ مفکر کی بات میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرورہے۔ کارل مارکس کے داس کیپٹل اور خاص طور پر کمیو نسٹ مینی فیسٹوکو پڑھتے ہوئے میں نے آخر میں یہ جملہ بھی دیکھا کہ مزدوروں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، صرف ان کی زنجیروں کے علاوہ۔ اب ان دونوں جملوں کا پورا مطلب سمجھ میں تب آنے لگتا ہے جب ہم دنیا کے امیر اور غریب ممالک اور لوگوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔ امیر‘ امیر کیوں ہے اور غریب‘ غریب کیوں ہے اس سوال جواب ہم تلاش کرنے چلیں تو معلوم پڑے گا کہ کہ امیر‘ امیر اس لئے نہیں ہے کہ وہ بہت ذہین ہے یا وہ بہت زیادہ محنتی ہے یاا س پر قسمت مہربان ہے۔ اس کی امیری کا راز اس چالاکی میں چھپا ہوتاہے جس کے دم پر مٹھی بھر لوگ پیداوار کے وسائل پر قبضہ کرلیتے ہیں اور محنت کش لوگوں کو اتنی مزدوری دے دیتے ہیں تاکہ وہ کسی طرح زندہ رہ سکیں۔ یوں تو ہر شخص اس دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کا ہاتھ ہیرے موتیوں سے بھرا رہتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ اینٹ‘ پتھر ہی ڈھوتے رہتے ہیں؟ ہماری سماجی بندوبست اور قانون وغیرہ اس طرح بنے رہتے ہیں کہ وہ اس عدم مساوات کو غیر اخلاقی یا غیر منصفانہ بھی نہیں مانتا۔ اس وقت دنیا میں کل جتنی بھی دولت ہے اس کا صرف دو فیصد حصہ 50 فیصد لوگوں کے پاس ہے جبکہ 10 فیصد امیروں کے پاس 76فیصد حصہ ہے۔آکسفم کی اس سال کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سماجی عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ برس کے دوران ارب پتی افراد کے اثاثوں میں 12 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ غربت کا شکار دنیا کی قریب نصف آبادی کو مزید 11 فیصد کا نقصان ہوا۔ آکسفم نے اس سال کے شروع میں جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ کورونا وبا کے باعث معاشی طور پر متاثر ہونے والے دنیا کے ایک ہزار ارب پتی افراد نے اپنے معاشی نقصان کا ازالہ صرف نو مہینے میں پورا کر لیا جبکہ دنیا کے غریب ترین لوگوں کو اپنا معاشی نقصان پورا کرنے میں ایک دہائی لگ سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک ہزارسفید فام ارب پتی افراد کے مقابلے میں کورونا وبا کے باعث غریب ہوجانے والے افراد کو واپس نارمل زندگی میں لوٹنے میں 14 گنا زیادہ طویل عرصہ لگے گا۔ جنوبی ایشیا کے غریب ترین خطے میں 101 ارب پتی افراد کو مارچ سے 174 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جوکووڈ19 کے باعث غربت کے شکار 9 کروڑ 30 لاکھ کو فی کس ایک ہزار 800 ڈالر فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر دنیا کی کل آمدنی سب لوگوں کو برابر برابر بانٹ دی جائے تو ہر آدمی لکھ پتی بن جائے گا۔ ان کے پاس 62 لاکھ 46 ہزار روپے کی جائیداد ہوگی۔ ہر آدمی کو تقریباً سوا لاکھ روپے مہینے کی آمدنی ہو جائے گی لیکن اصلیت کیا ہے؟ بھارت میں 50فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی صرف ساڑھے چار ہزار روپے مہینہ ہے۔ یعنی ڈیڑھ سو روپے یومیہ۔کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی 100روپے روزانہ بھی نہیں ہے۔ انہیں روٹی، کپڑا ، مکان بھی ٹھیک سے دستیاب نہیں ہے۔ تعلیم، طب اور تفریح تو دور کی بات ہے‘ انہیں لوگوں کی محنت کے دم پر اناج پیدا ہوتا ہے، کارخانے چلتے ہیں اور متوسط اور اعلیٰ طبقے کے لوگ ٹھاٹ کرتے ہیں۔ امیری اور غریبی کی یہ کھائی بہت گہری ہے۔ اگر دونوں کی آمدنی اور خرچ کا تناسب ایک اور دس کا ہو جائے تو خوشحالی چاروں طرف پھیل سکتی ہے۔
کھانے پینے میں دھوکا نہ ہو
دہلی ہائی کورٹ کے دو ججوں وپن سانگھی اور جسمیت سنگھ نے کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جس کا خیر مقدم تمام لوگ کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کھانے پینے کی جتنی چیزیں بازاروں میں بیچی جاتی ہیں‘ ان کے پیکٹوں پر لکھا ہونا چاہئے کہ ان کو بنانے میں کون کون سی چیزوں، مسالوں یا تیل وغیرہ کااستعمال کیا گیا ہے تاکہ لوگ اپنے مذہب اور رسم و رواج کی خلاف ورزی کیے بغیر ان کااستعمال کرسکیں۔ابھی تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کون سا نمکین تیل میں تلا گیا ہے اور کون سا چکنائی میں؟ پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ چربی کس کی ہے؟ گائے یا کسی دوسرے جانور کی۔ اسی طرح سے کئی نوڈلز اور آلو کی پپڑیاں گوشت اور مچھلی سے بھی تیار کی جاتی ہیں۔ کچھ مسالوں اور چٹنیوں میں بھی طرح طرح کے اجزا ملا دیے جاتے ہیں جن کا پتا لگانا آسان نہیں ہوتا۔ خوردنی اشیامیں ایسی چیزوں کی مقدار کتنی ہی کم ہو‘ وہ ہے بہت ہی قابلِ اعتراض! کسی بھی شخص کو دھوکے میں رکھ کر کوئی چیز کیوں کھلائی جائے؟ اسی لئے دہلی کی عدالت نے ہدایت دی ہے کہ پیکٹوں پر صرف ان چیزوں کا نام ہی نہ لکھا جائے بلکہ یہ بھی واضح کیا جائے کہ وہ سبزی سے بنی ہیں یا گوشت سے۔ پچھلے ہفتے گجرات ہائی کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں یہ واضح کیا تھا کہ آپ کسی بھی شخص کے کھانے پینے پر اپنی پسند نہیں تھوپ سکتے۔ ایک درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ گجرات میں گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔گجرات ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ کسی بھی انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ عوام کو کس طرح کا کھانا کھانے کی اجازت ہے اور کس طرح کا کھانا ممنوع ہے۔ عدازلت نے قرار دیا کہ آپ یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ مجھے کیا کھانا ہے؟ہائی کورٹ نے احمد آباد کی میونسپل کارپوریشن پر سخت نکتہ چینی کی اور اسے ہدایت دی کہ اگر درخواست دہندگان اپنے سامان کی واپسی کے لیے ان سے رجوع کریں توجتنی جلد ممکن ہو اس پر غور کیا جائے۔سماعت کے دوران جج بائرن وشنو نے سوال کیا کہ آخراس سے میونسپل کارپوریشن کا نقصان کیا ہے؟ حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے جج نے کہا:آپ کو کیا پریشانی کیا ہے؟ اگر آپ کو نان ویج کھانا نہیں پسند ہے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ آپ یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں ہمیں باہر کیا کھانا ہے؟جج نے حکومت کی مزید سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ کل آپ یہ فیصلہ کرنے لگیں گے کہ گھر کے باہر ہم کیا کھا سکتے ہیں؟ کل کو وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں گنے کا رس نہ پیوں کیونکہ اس سے ذیابیطس کا مرض ہوتا ہے، یا پھر کافی کیونکہ یہ صحت کے لیے مضر ہے۔جو شخص جیسا بھی کھانا چاہے کھائے اسے ویسی رعایت ملنی چا ہئے کیونکہ تقریباً ہر شخص اپنے گھر کی روایت کے مطابق سبزی خور یا گوشت خور ہوتا ہے۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں پر غور کرنے کی صلاحیت یا لیاقت کسی کو بچپن میں کیسے ہو سکتی ہے؟ اسی لیے گوشت خوروں کے بارے منفی خیالات رکھنا غیرمناسب ہے۔ تقریباً تمام ممالک میں آپ کو گوشت خور لوگ بھی مل جائیں گے اور ایسے بھی جو صرف سبزی کھاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں