"DVP" (space) message & send to 7575

پاک‘ بھارت: دو مختلف اجلاس

گزشتہ ہفتے ایک ہی وقت میں دو اجلاس ہوئے۔ایک پاکستان میں اور دوسرا بھارت میں۔دونوں اجلاس مسلم ممالک کے تھے۔ پاکستان میں جو اجلاس ہوا اس میں دنیا کے 57 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ اور نمائندوں کے علاوہ روس‘ امریکہ‘ چین اور یورپی یونین کے نمائندوں نے بھی حصہ لیاجبکہ بھارت میں ہونے والے اجلاس میں وسطی ایشیا کی پانچ مسلم ریاستوںکے وزرائے خارجہ نے حصہ لیا۔چونکہ اسلام آباد والا اجلاس کوئی دو ہفتے پہلے شیڈول کیا گیا تھا جبکہ دہلی والا اجلاس کئی ماہ سے طے تھا اس لیے وسطی ایشیا کی ریاستوں کے وزرائے خارجہ اسلام آباد کی بجائے نئی دہلی گئے‘ اگرچہ اسلام آباد میں بھی ان کے نمائندے موجود تھے۔ اسلام آباد کے اجلاس میں اسلامی ممالک کے ایک تہائی وزرائے خارجہ پہنچے تھے۔ پاکستانی اجلاس کا مرکزی موضوع افغانستان تھا جبکہ بھارتی اجلاس میں افغانستان کے علاوہ مذکورہ پانچوں ریاستوں قازقستان‘ ازبکستان‘ترکمانستان‘تاجکستان اور کرغزستان کے ساتھ بھارت کے تجارتی‘ اقتصادی اور ثقافتی تعاون کے مدعوں پر بات چیت ہوئی۔ اس طرح کی یہ تیسری بات چیت تھی۔ان پانچوں وزرائے خارجہ کے پاکستان نہ جانے کو بھارت کی جیت کہنا حقیقت پسندی نہیں ہے کیونکہ اس اجلاس کی تاریخیں پہلے سے طے ہوچکی تھیں۔ اسلام آباد کے اجلاس میں چین‘ امریکہ یورپ اور روس وغیرہ کو بھی بلایا گیاتھا۔بھارت کے لیے ایسی کوئی دعوت نہیں تھی۔ بھارت نے جب افغانستان پر پڑوسی ممالک کے سلامتی مشیروں کا اجلاس بلایاتو اس میں پاکستان اور چین دونوں مدعو تھے لیکن دونوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔افغان مسئلے کے اس موقع پر میں پاکستان سے تھوڑی دریادلی کی امید کرتا ہوں۔ہم سبھی یہی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ہمہ گیر حکومت بننی چاہئے‘ اسے دہشت گردی کا اڈہ نہیں بننے دینا چاہیے اور دوڈھائی کروڑ بھوکے لوگوں کی جان کی حفاظت ہونی چاہیے۔ بھارت نے 50 ہزار ٹن اناج اور ڈیڑھ ٹن دوائیاں کابل بھجوادی ہیں۔ اس نے یہ خدمت کرتے وقت کسی قسم کی تفریق کو آڑے نہیں آنے دیا۔ پاکستان چاہے تو افغان مسئلے پر خطے اور دنیا کے ممالک سے تعلقات کوبہتر بنانے کا آسان راستہ بھی نکال سکتا ہے۔ 57ممالک کے اس افغان اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر بھی بات کی۔ اگرپاک بھارت تعلقات ہموار ہو جائیں اور افغان مسئلے کا بھی پر امن حل نکل آئے تو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اقوام کے درمیان بے مثال تعاون کا تاریخی دور شروع ہوسکتا ہے۔
ووٹنگ اور آدھار کارڈ: کچھ سوال
آدھار کارڈ کو ووٹر شناختی کارڈ سے جوڑنے کے بل کو لوک سبھا نے پاس کر دیا ہے۔ وہ راجیہ سبھا میں بھی پاس ہوجائے گا لیکن اپوزیشن نے اس نئے عمل پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں۔ ان کا یہ اعتراض تو صحیح ہے کہ بغیر پوری بحث کئے ہوئے یہ بل قانون بن رہا ہے لیکن اس کی ذمہ داری کیا اپوزیشن کی نہیں ہے۔ اپوزیشن نے ہاؤس میں ہنگامہ کھڑا کرنا ہی اپنا نقطہ نظر بنا لیا ہے تو حکمران پارٹی اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھائے گی۔ وہ دَنادَن اپنے بلوں کو قانون بناتی چلی جائے گی۔ جہاں تک آدھار کارڈ کو ووٹر کارڈ کے ساتھ جوڑنے کا سوال ہے‘پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کرنا لازمی نہیں ہے یعنی کوئی ووٹر رجسٹرڈ ہے اور اس کے پاس اپنے ووٹر ہونے کا شناختی کارڈ ہے اور آدھار کارڈ نہیں ہے تو اسے ووٹ ڈالنے سے روکانہیں جاسکتا۔ تو پھر یہ بتائیں کہ آدھار کارڈ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس کی ضرورت بتاتے ہوئے سرکار کی دلیل یہ ہے کہ کئی لوگ فرضی ناموں سے ووٹ ڈال دیتے ہیں اور کئی لوگ کئی بار ووٹ ڈالتے ہیں۔ اگر آدھار کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ ساتھ ساتھ رہیں گے تو ایسی دھاندلی کرنا ناممکن ہو گا۔ یہ ٹھیک ہے لیکن اگر کسی شخص کے پاس صرف آدھار کارڈ ہے تو کیا اسے ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا؟ آدھار کارڈ تو ایسے لوگوں کو بھی دیا جاتا ہے جو بھارت کے شہری نہیں ہیں لیکن بھارت میں رہتے ہیں۔ وہ تو ایک طرح کا مستند شناختی کارڈ ہے۔ تو کیا اسے ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا؟ اگر آدھار کارڈ کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے تو ووٹ کے وقت اس کی اہمیت کیا ہوگی؟ جن کے پاس آدھارکارڈ نہیں ہیں یا جو اسے سب کو دکھانا نہیں چاہتے انہیں بھی ووٹ دینے کا حق ہوگا تو پھر اس کارڈ کی افادیت کیا ہوئی؟ آدھار کارڈ میں اس کے ہولڈر کی پرائیویسی چھپی ہوتی ہے‘اس کے نمبرکا غلط استعمال کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر اپوزیشن ایم پیز نے اس اہتمام کی مخالفت کی ہے۔ اگرووٹ ڈالتے وقت ووٹ ڈالنے والے کے آدھار کارڈ سے اس کے نام اور نمبرکا پتا چل جائے اور اسے بیلٹ پیپر سے جوڑ دیا جائے تو یہ آسانی سے معلوم کیاجا سکتا ہے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ یعنی رازداری بھنگ ہوگئی۔ اس ڈر کے مارے ہوسکتا ہے بہت سے لوگ ووٹ ڈالنے ہی نہ جائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک 131کروڑ لوگوں نے آدھار کارڈ بنوالیاہے لیکن اگر اس بل پر تفصیل سے بحث ہوتی تو اس کی خامیوں اور ان سے پیدا ہونے والے خدشات کو دور کیا جا سکتا تھا۔ ووٹنگ کے عمل کو مستند بنانے کی ایک کوشش کی طرح یہ کوشش ضرور ہے لیکن اس پر مکمل بحث ہوتی تو بہتر ہوتا۔
مثالی گاؤں: کمال کے فیصلے
ہریانہ کے اٹاوڑ گاؤں کی مہا پنچایت نے ایک حکم جاری کیا ہے کہ شادی کی تقریبات میں جہیز کا دکھاوانہیں کیاجائے گا اور شادیوں میں 52 باراتیوں سے زیادہ نہیں آسکیں گے۔ یوں تو جہیز مانگنے پر سزا کا اہتمام بھارتی قانون میں ہے لیکن بہت کم شادیاں بغیر جہیز کے ہوتی ہیں۔بھارتی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہرسال سات ہزار سے زیادہ دلہنیں جہیز کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ 1961ء میں ایک قانون وضع کیا گیا تھا‘ جس کے تحت جہیز کے مطالبہ کی صورت میں پانچ سال تک جیل کی سزا اور پندرہ ہزار روپے یا جہیز کی مالیت کے برابر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔اس قانون میں فوجداری قانون کی شق 304 بی بھی شامل کی گئی ہے جس میں جہیز کے مطالبات کی وجہ سے ہونے والی اموات کی صورت میں کم از کم سات سال یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔سخت ترین قانون سازی کے باوجود جہیزکی بنا پر اموات کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ 2001ء میں یومیہ اموات کی اوسطاً تعداد 19 تھی جو اَب بڑھ کر 21 ہوگئی ہے۔ اگر جہیز کے دکھاوے پرپابندی ہوگی تو جہیز لینے دینے والوں کو کچھ حد تک حوصلہ شکنی ضرورکرے گا۔ حقیقت میں اس مہاپنچایت کو چاہئے تھا کہ وہ گاؤں کے تمام غیر شادی شدہ لڑکوں لڑکیوں سے جہیز کے خلاف عہد لیتے۔ اس نے جوئے اور سٹے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مہاپنچایت کے ارکان ہریانہ کے اس گاؤں کو بھارت کا مثالی گاؤں بنانا چاہتے ہیں۔ سب سے مزے دار بات یہ ہے کہ ان فیصلوں کی جو لوگ بھی خلاف ورزی کریں گے ان کا سراغ دینے والوں کو پنچایت 5100 روپے کانعام دے گی۔اگر پنچایت اپنے یہ سب زبردست فیصلے نافذ کرسکے تو اس کے کیاکہنے‘ لیکن اس میں کئی قانونی اڑچنیں بھی آ سکتی ہیں۔ یہ فیصلے تو قابلِ تعریف ہیں لیکن سماجی آداب جرمانے وغیرہ سے بھی زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ اگر گاؤں اور شہروں کے بچوں کو بچپن سے ہی ان برائیوں کے خلاف تربیت دی جائے تو اتنے سخت اصولوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں