یہ خوشی کی بات ہے کہ بھارت سرکار اب میانمار (برما) کے بارے میں صحیح اور واضح رویہ اپنا رہی ہے۔ گزشتہ سال فروری میں میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد سے یہ انڈیا کے کسی اعلیٰ سطحی وفد کا میانمار کا پہلا دورہ ہے۔ جس دن میانمار کی عالمی شہرت یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کو چار سال کی سزا سنائی گئی تھی‘ اس وقت میں نے لکھا تھا کہ بھارت سرکار کی خاموشی ٹھیک نہیں ہے۔ جب بھی پڑوسی ملکوں میں جمہوریت کی خلاف ورزی ہوئی ہے‘ بھارت کبھی چپ نہیں رہا ہے۔ چاہے وہ بنگلہ دیش ہو، نیپال ہو، بھوٹان ہو یا مالدیپ ہو۔ لیکن اب ہمارے خارجہ سیکرٹری ہرش وردھن شرنگلا نے خود میانمار جاکر اس کے فوجی حکمرانوں، سوچی کے پارٹی رہنمائوں اور کئی ممالک کے سفیروں سے کھل کر بات چیت کی ہے۔ شرنگلا نے جرأت مندانہ پہل کی اور میانمار کے آمر حکمرانوں سے کہا کہ وہ جیل جا کر سوچی سے ملنا چاہتے ہیں۔ مارشل لا حکومت نے اس کی اجازت انہیں نہیں دی، لیکن اس سے یہ تو ظاہر ہو ہی گیا کہ بھارت میانمار کے واقعات کے تئیں غیر جانبدار یا لاتعلق نہیں ہے۔ شرنگلا نے ڈکٹیٹر حکمرانوں پر واضح کر دیا ہے کہ بھارت اپنے اس پڑوسی ملک کی جمہوریت کے بارے میں پوری طرح سے فکرمند ہے۔ انڈیا اور میانمار کی سرحد تقریباً 1640 کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ سرحد منی پور اور ناگالینڈ جیسی ریاستوں سے گزرتی ہے جہاں باغیوں کا کافی زور ہے۔ اس لیے بھارت کے لیے سٹریٹیجک نقطۂ نظر سے بھی میانمار بہت اہم ہے۔ یہ واحد ملک ہے جو انڈیا کا پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی ''ایکٹ ایسٹ پالیسی‘‘ کا حصہ بھی ہے۔ دسمبر میں آنگ سان سوچی کو میانمار میں حکومت کے خلاف مظاہروں پر اکسانے کے جرم میں چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی‘ جسے بعد میں کم کر کے دو سال کر دیا گیا ۔ بھارت اور میانمار کے تعلق دہائیوں پرانے ہیں۔ مارچ 1962ء میں برمی فوج نے جمہوری حکومت کو اقتدار سے ہٹایا تھا تو اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہونے لگے تھے۔ اگلے 49 سال تک فوج اقتدار میں رہی اور جمہوریت کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس دوران صرف انڈیا کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ہی 1987ء میں برما کا دورہ کیا تھا۔ طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت کے حامیوں کی جیت ہوئی اور 2011ء کے عام انتخابات کے بعد جمہوریت ملک میں واپس آ گئی۔ ان انتخابات میں میانمار میں جمہوریت نواز تحریک کا ایک نمایاں چہرہ آنگ سان سوچی ملک کی سربراہ بنیں۔ سوچی نے دہلی کے لیڈی شری رام کالج سے تعلیم حاصل کی تھی، اس بنا پر بھی بھارت کا میانمار سے قریبی تعلق ہے۔ ''آسیان‘‘ تنظیم کا میانمار ممبر بھی ہے لیکن اس نے آج کل میانمار کا بائیکاٹ کر رکھا ہے لیکن بھارت اس کے تئیں اتنا سخت رویہ نہیں اپنا سکتا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ بھارت کے ناگالینڈ اور منی پور کے باغیوں کو قابو کرنے میں برمی فوج بھارت کی بھرپور مدد کرتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ چین وہاں ہر قیمت پر اپنی بالادستی بڑھانے پر آمادہ ہے۔ اقوام متحدہ میں میانمار کے موجودہ حکمرانوں پر کافی لعنت‘ ملامت ہو رہی ہے لیکن بھارت نے میانمار پر درمیانی راستہ اپنا رکھا ہے۔ وہ برما کی فوج کے خلاف کھل کر نہیں بول رہا ہے لیکن اس پر اپنا سفارتی دباؤ برابر بنا کر رکھا ہوا ہے تاکہ برما میں جمہوریت کی واپسی ہو سکے۔ بھارت نے پہلے بھی سوچی اور برمی فوج کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ میانمار میں واقع عالمی طاقتوں کے سفیروں نے بھی شرنگلا کو متنبہ کرنا مناسب سمجھا۔ یہ سچ ہے کہ ''آسیان‘‘ اور اقوام متحدہ میں میانمار کے خلاف صرف قرارداد پاس کر دینے سے خاص کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ بھارت کا درمیانی راستہ ہی اس وقت عملی اور مناسب حکمت عملی ہے۔
صوبائی چناؤ آگے بڑھائے جائیں
کورونا کا نیا ویری اینٹ اومیکرون بھارت میں ابھی تک اس طرح نہیں پھیلا جیسے کورونا کی مہاماری پھیل گئی تھی۔ پھر بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس نے کافی زور پکڑ لیا ہے۔ بھارت کی 17 ریاستوں میں ابھی تک 1400 کیسز سامنے آئے ہیں۔ ابھی مہاماری چاہے نہ پھیلی ہو لیکن اس کا ڈر پھیلتا جا رہا ہے۔ کئی ریاستی سرکاروں نے رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے اور کچھ نے دن میں بھیڑ بھاڑ پر بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اتر پردیش کے چناؤ کو ابھی ٹال دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ دہلی کi ہائی کورٹ نے بھی سروجنی نگر کے بازاروں کی بھیڑ پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ اصلیت تو یہ ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے گھروں میں قید لوگ اب دہرے جوش سے باہر نکل رہے ہیں۔ ڈر یہی ہے کہ چناؤ کے دوران ہونے والے بڑے جن سبھاؤ میں کہیں لاکھوں لوگ اس نئی مہاماری کے شکار نہ ہو جائیں۔ ہمارے نیتا بھی غضب کر رہے ہیں۔ وہ بازاروں، شادیوں اور دیگر تقاریب میں تو 200 لوگوں کی پابندیاں لگا رہے ہیں لیکن ووٹوں کے لالچ میں وہ دو‘ دو لاکھ کے اجتماع کو خود منعقد کریں گے۔ مغربی بنگال اور بہار میں ہوئے چناؤ کے دوران یہی ہوا۔ لاکھوں لوگ کورونا کی زد میں آ گئے۔ اب اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور کے چناؤ سر پر ہیں۔ ان راجیوں میں چناؤ کا پورا انتظام کرنے میں چناؤ کمیشن مصروف ہے۔ چیف الیکشن کمشنر آج کل ان ریاستوں کے دورے بھی کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ غیر جانبدار اور مستند انتخابی عمل کی تیاری کافی اچھی ہے لیکن پانچ ریاستوں میں اس چناؤ کی وجہ سے اگر مہاماری پھیل گئی تو عام جنتا کو خوفناک پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک کے زیادہ تر لوگوں کو ویکسین کا ٹیکا لگ چکا ہے لیکن ان لوگوں میں سے کئی نئے ویری اینٹ کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس کنبھ کے میلے کی بھی مثال موجود ہے۔ اس وقت بھی ایسے ہی بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، جس کا خمیازہ بعد میں سب کو بھگتنا پڑا تھا اور کورونا کی مہا ماری دیش کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گئی تھی اور ہزاروں افراد جان سے چلے گئے تھے۔ تھوڑے سے دنوں میں جس طرح نئے ویری اینٹ کے کیسز چار سو سے چودہ سو پر پہنچ گئے ہیں‘ اس سے یہ تخمینہ لگانا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ اگلے کچھ دنوں میں یہ آنکڑا کس حد تک بڑھ سکتا ہے۔ ابھی تک کورونا کی مہاماری پر بھی پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور بھارت میں آج بھی ہر روز ایک‘ ڈیڑھ لاکھ نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔ ویسے تو ڈیڑھ ارب آبادی میں اتنے کیس زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کی یہیں پر روک تھام نہ کی گئی تو آگے یہ انفیکشن کہاں تک پھیل سکتا ہے۔ سبھی پارٹیاں چاہیں گی کہ چناؤ مقررہ وقت پر ضرورہوں کیونکہ ایک تو چناؤ کے دوران ان پر نوٹوں کی جھڑی لگی رہتی ہے، ان کی لیڈری کا چسکا بھی پورا ہوتا ہے اور ان پر الیکشن جیت کر سرکار بنانے کا نشہ بھی چڑھا رہتا ہے۔ مذکورہ پانچ ریاستوں میں سے چار میں بھاجپا کی سرکاریں ہیں۔ ان کی خاص ذمہ داری ہے۔ اگر وہ سب مل کر چناؤ کمیشن سے درخواست کریں تو وہ ان چناؤ کو 4 سے 6 ماہ کیلئے ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ اس بیچ راجیوں میں گورنر راج یا قائم مقام وزیراعلیٰ کی تقرری بھی ہو سکتی ہے۔ یوں بھی چناؤ کمیشن کو حق ہے کہ وہ خود ارادیت کی بنیاد پر انتخابات کی تاریخ کو آگے کھسکا سکتا ہے۔ اگر مہاماری لمبی کھنچ جاتی ہے تو اس کا بھی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں تقریباً 90 کروڑ لوگوں کے پاس موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ آج کل ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے کہ لوگ گھر بیٹھے ووٹ کر سکتے ہیں۔ فی الحال بہتر تو یہی ہو گا کہ ان صوبائی چناؤ کو ابھی ٹال دیا جائے۔