چندی گڑھ میونسپل کارپوریشن انتخابات کے ووٹوں کی گنتی 27 دسمبر کو مکمل ہو گئی۔ 35 وارڈ سیٹوں پر ہوئی ووٹنگ میں عام آدمی پارٹی (آپ) سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ انتخابی نتائج کے مطابق چندی گڑھ میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 35 میں سے 14 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ وہیں بھاجپا 12 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ ان انتخابات میں کانگریس کو نقصان ہوا ہے۔ اسے صرف آٹھ سیٹیں ملی ہیں۔ شرومنی اکالی دل کو میونسپل کارپوریشن انتخابات میں ایک سیٹ پر جیت ملی ہے۔ عام آدمی پارٹی چندی گڑھ میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں پہلی مرتبہ اتری تھی؛ تاہم ان انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت کیلئے 18 سیٹیں درکار تھیں لیکن کسی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ ایسے میں نئے میئر کو لے کر پیچ پھنس سکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کوملی سیٹوں نے بھارت کی بڑی سیاسی جماعتوں کو ایک دھچکا سا پہنچایا ہے۔ اس چناؤ میں کانگرسی امید کررہے تھے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سیٹیں ملیں گی اور میئر ان کا ہی بنے گا۔ایسا وہ اس لیے سوچ رہے تھے کہ کسان احتجاج کی وجہ سے بھاجپا کے ووٹ توکٹیں گے ہی‘ چرنجیت سنگھ چنی کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن جانے کی وجہ سے انوسوچت سیٹیں تو پکی پکائی مل ہی جائیں گی۔ کانگرس کی 2016ء میں چار سیٹیں تھیں وہ آٹھ ضرور ہو گئیں لیکن ان کا ووٹ 38 فیصد سے گھٹ کر 29 فیصد رہ گیا۔اسی طرح بھاجپا سوچ رہی تھی کہ زرعی قوانین واپس لے لینے کا فائدہ اسے ملے گا اور ہندو ووٹ اسے تھوک میں ملے گا ہی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نام کوبھی وہ خوب بھنائے گی۔ مودی نے بھی سکھ ووٹروں کو متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مقامی چناؤ میں پارٹی کا رنگ جمانے میں مرکزی رہنماؤں نے بھی پورا زور لگا دیا لیکن ہوا کیا؟ 2016ء میں بھاجپا کی 20 سیٹیں تھیں جو بس 12 رہ گئیں۔ موجودہ میئر اور کئی سابق میئر ہار گئے۔ کچھ امیدوار ایک دم معمولی ووٹوں سے جیتے۔ ریاستی صدر کا وارڈ ہاتھ سے کھسک گیا۔ سب سے بڑا دھکا یہ لگا تھا کہ 2016ء میں حاصل 46 فیصد ووٹ گھٹ کر 29 فیصد رہ گئے۔ بھاجپا کی مات نے یہ اشارہ بھی دے دیا کہ پتا نہیں بھاجپا اور امریندر سنگھ کی ملی بھگت بھی کامیاب ہوگی یا نہیں؟جہاں تک ''آپ‘‘ کا سوال ہے‘ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اس کے 14 ارکان ہیں لیکن چندی گڑھ میونسپل کارپوریشن میں تو اس کے کونسلروں کی تعداد صفر تھی‘ لیکن 0 سے 14 پر پہنچنا آسمانی چھلانگ کے برابر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ''آپ‘‘کے رہنمااروند کیجریوال دہلی میں لوک سیوا جیسی مہم چلا رہے ہیں اور ان کا جیسا دھواں دھار پرچار ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں ہو رہا ہے اس کا اثر اس چندی گڑھ چناؤ پر تو پڑا ہی ہے۔ خود کیجریوال اور ان کے ارکان نے بھی چندی گڑھ کو اپنے وقار کا سوال بنا لیا تھا‘مگر انہیں بھی واضح اکثریت نہیں ملی۔ اس میں پانچ سیٹیں کم رہ گئیں لیکن انہوں نے تمام پارٹیوں کے ہوش اڑادیے ہیں۔ انہیں کل 27 فیصد ووٹ ملے ہیں جو کانگرس اور بھاجپا سے تھوڑے سے ہی کم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں تینوں اہم پارٹیاں ووٹوں کے حساب سے تقریباً برابری کی سطح پر ہیں۔اکالی دَل توایکدم پچھڑ گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ''آپ‘‘ اورکانگرس مل کر اپنا اپنا میئر بٹھالیں لیکن آپ کی غیر معمولی بڑھت کے باوجود یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ پنجاب میں اگلی سرکار کس پارٹی کی بنے گی۔ لیکن چندی گڑھ نے ''آپ‘‘ کا جلوہ جمادیا ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں۔
بھارت‘ چین تجارت
گزشتہ سال پانچ مئی کو بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی شروع ہوئی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پینگونگ جھیل کے علاقے میں پرتشدد فوجی جھڑپیں ہوئیں اور دونوں ممالک کے متعدد فوجی مارے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے علاقوں میں کئی ہزار فوجی اور بھاری فوجی سازو سامان کی تعیناتی کی ہے۔بھارت اور چین کے بیچ فوجی مڈبھیڑسے سرحد پر اتنا تنائو ہوگیا جتنا 1962ء کی جنگ کے بعد کبھی نہیں ہوا لیکن کئی ادوار پر مشتمل فوجی اور سفارتی بات چیت کے بعد دونوں فریقوں نے رواں سال فروری میں پینگونگ جھیل کے شمال اور جنوب میں اور اگست میں گوگرا کے علاقے میں پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔31 جولائی تک دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کا 12 واں دور ہوا۔ چند دنوں کے بعد دونوں افواج نے گوگرا میں اپنے ڈس انگیج منٹ کا عمل مکمل کر لیا اور اسے خطے میں امن و امان کی بحالی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا گیا۔اس پس منظر میں حیران کر دینے والی خبر یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی آپسی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ اس کے باوجود ہوا ہے جب بھارت کی کئی تنظیموں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ چینی مال کا بائیکاٹ کریں۔سرکار نے کئی چینی کاروباری اورتکنیکی کمپنیوں پر پابندیاں بھی لگا دی تھیں۔ لیکن کیا ہوا ؟ پابندی اور بائیکاٹ اپنی اپنی جگہ پڑے رہے اور بھارت چین کاروبار میں پچھلے سال بھر میں اتنی اونچی چھلانگ ماردی کہ اس نے ریکارڈ قائم کردیا صرف 11 ماہ میں دونوں ملکوں کے بیچ 85 کھرب روپے سے زائد کا کارو بارہوا۔یہ پچھلے سال کے مقابلے 46.4فیصد زیادہ تھایعنی تنائو کے باوجود آپسی کارو بار لگ بھگ ڈیڑھ گنا بڑھ گیا۔ اس کاروبار میں غور کرنے لائق بات یہ ہے کہ بھارت نے چین کو جتنا مال بیچا‘ اس سے تین گنا سے بھی زیادہ خریدا۔ بھارت نے 65کھرب روپے کا مال خریدا اور چین نے صرف 19 کھرب روپے کا۔ اس کا مطلب کیا ہوا ؟ کیا یہ نہیں کہ بھارت کے عوام نے سرکار اور تنظیموں کی اپیلوںکو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا۔ دوسرے الفاظ میں گلوان گھاٹی میں فوجی مڈبھیڑ کا اور سرکاری اپیلوں کا عام لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟ اس کی پہلی وجہ تو شاید یہ ہے کہ لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ بھارت چین سرحد پر مڈ بھیڑ کیوں ہوئی اور اس میں غلطی کس کی تھی ؟بھارت کی یا چین کی ؟ نریندر مودی نے عوام سے اپنے خطاب میں کہہ دیا تھا کہ چین نے بھارت کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کیا تو لوگ سوچنے لگے کہ پھر جھگڑا کس بات کا۔ اگر بھارت کے عوام کو لگتا کہ چین کا ہی پورا قصور ہے تو وہ اپنے آپ چینی چیزوں کا بائیکاٹ کردیتے جیسا کہ انہوں نے 1962ء میں کیا تھا۔ عوام آگے ہوتے اور سرکار پیچھے۔ لیکن اوپر دیے گئے کاروباری اعداد و شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس مدعے پر سرکار کا رویہ بھی واضح نہیں تھا‘ اگر سرکار کا رویہ دو ٹوک ہوتا تو دونوں ممالک کے آپسی کاروبار میں کیا اتنا اچھال آسکتاتھا؟ سرکاروں کی اجازت کے بغیر کیا کوئی امپورٹ یا ایکسپورٹ ہو سکتی ہے؟دونوں ممالک کی حکومتیں چاہیں ایک دوسرے پر حملے کا الزام لگاتی رہیں لیکن دونوں کو ہی اپنا کارو بار بڑھانے میں کوئی جھجک نہیں رہی۔یہ بھی اچھا ہے کہ دونوں طرف کے فوجی لگاتار بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہی عمل بھارت اور پاکستان کے بیچ بھی ہو سکتا ہے؟ پاکستان کے صدور اوروزرائے اعظم سے جب بھی میری ملاقات ہوئی ہے میں انہیں 1962ء کے بعد چلنے والی بھارت چین بات چیت کی مثال دیتا رہا ہوں۔ اختلافات اور تنازع اپنی جگہ رہیں لیکن بات چیت بند کیوں ہو؟ اب کسی بھی مسئلے کا حل جنگ سے نہیں ہوگا۔بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔