اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے مقابلے میں کورونا وبا کا قہر مغرب میں زیادہ پھیلا ہے لیکن اب اس کی تیسری لہر انہی ملکوں میں اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ بھارت کو پھر سے بھاری احتیاط برتنا ہو گی۔ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ یونان‘ اٹلی اور سائپرس جیسے ممالک میں کورونا‘ ڈیلٹا اور اومیکرون کے روز لاکھوں نئے مریض سامنے آ رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی موت کی شرح پہلے جیسی نہیں ہے لیکن ان ملکوں کے کئی شہروں میں مریضوں کے لئے بیڈ کم پڑ رہے ہیں۔ امریکہ جیسا خوشحال ملک جہاں کی صحت کی سہولیات دنیا میں مشہور ہیں‘ وہاں بھی ہزاروں لوگ روزانہ ہسپتال کی پناہ لے رہے ہیں۔ فی الحال بھارت کا حال ان ملکوں کے مقابلے بہتر ہے لیکن خطرے کی گھنٹیاں یہاں بھی اب بجنے لگی ہیں۔ اکیلے دہلی شہر میں یہ آنکڑے ایک ہزار کو چھو رہے ہیں۔ ملک کے کئی شہروں میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لیکن بھارتی لوگ اب بھی محتاط نہیں ہوئے ہیں۔ وہ پچھلے کئی ماہ سے گھروں میں قید تھے۔ اس سے چھوٹ کر اب سیر سپاٹے میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاحتی مقامات پر اتنے سیلانی اس بار جمع ہوئے ہیں جتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ اسی طرح کی اطلاعات مجھے ملک کے بہت سے شہروں سے کئی دوست بھیج رہے ہیں۔ سب سے زیادہ چھوٹ تو بھارت کے سیاسی رہنما لے رہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں لاکھ لاکھ لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں۔ نہ تو وہ ماسک کی پابندی کرتے ہیں اور نہ ہی سماجی دوری کی۔ اگر یہ مہاماری یعنی عظیم وبا پھیلے گی تو یورپ‘ امریکہ کو بھی بھارت اس بار پیچھے چھوڑ دے گا۔ بھارتی سیاست دانوں کی بھی بڑی مجبوری ہے۔ کئی صوبوں کے چنائو سر پر ہیں اگر وہ بڑے بڑے جلسے نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔ اخباروں اور چینلوں پر اپنے اشتہار چلانے میں وہ کروڑوں روپے روزانہ بہا رہے ہیں لیکن وہ زوم یا انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے اجلاس کیسے کریں۔ ان کے زیادہ تر پیروکار نیم تعلیم یافتہ‘ دیہاتی‘ غریب اور پچھڑے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ان جدید ٹوٹکوں سے واقف نہیں ہیں۔ ایسے میں کیا بہتر نہیں ہو گا کہ بھارتی الیکشن کمیشن ان چنائو کو تھوڑا آگے کھسکا دے۔ بھارت میں اگر یہ نئی مہاماری پھیل گئی تو ملک کی معیشت اور سیاست‘ دونوں ہی تباہ ہو جائیںگی۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ کچھ صوبائی سرکاروں نے ابھی سے کئی سختیاں نافذ کر دی ہیں۔ یہ اچھا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ جنتا خود اپنے اوپر سختی لاگو کرے۔ وہ آیورویدک کاڑھوں اور گھریلو مسالوں سے اپنی صحت کی حفاظت کریں اور بھیڑ بھاڑ سے بچتے رہیں۔ اب ڈاکٹروں اور نرسوں کے لئے بھی امتحان کی گھڑی پھر سے آرہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ میڈیکل ماہرین نے جو نئے کورونا ٹیکے بنائے ہیں‘ انہیں اقوام متحدہ کی منظوری بھی مل گئی ہے۔ اب ان نئے وسائل سے کروڑوں لوگوں کا علاج سستا‘ آسان اور جلد ہو جائے گا یعنی اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مکمل احتیاط کی ضرورت ہے۔
بھارتی قانون خود قید میں ہے!
بھارت کو آزاد ہوئے 75 سال ہونے کو ہیں لیکن ذرا سوچیں کہ زندگی کے کون کون سے ایسے شعبے ہیں جن میں بھارتی لوگ پوری طرح سے آزاد ہو گئے ہیں۔ سبھی شعبوں میں یہاں کے لوگوں نے کچھ ترقی ضرور کی ہے لیکن ان تمام شعبوں میں انگریزوں کی غلامی جوں کی توں برقرار ہے۔ بیرونِ ملک سے بلند اور اعلیٰ وسائل اور خیالات کو قبول کرنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے لیکن اس کی چکا چوند میں پھنس کر اپنے آبائواجداد کی کامیابیوں کو طاق پر رکھ دینا کہاں تک ٹھیک ہے؟ انصاف کے شعبے میں انگریزی قانون نظام کو آج تک کسی بھی سرکار نے چیلنج نہیں کیا۔ بھارت میں ایسی سرکاریں بھی بنی ہیں جن کے رہنما بھارتیہ فخر اور اُس کی سربلندی کو لوٹانے کے سپنے دکھاتے رہے لیکن اقتدار پر قابض ہوتے ہیں وہ اُن نوکر شاہوں کی نوکری کرنے لگے جو انگریزی ٹکسال میں ڈھلے سکے ہیں۔ یہ تھوڑی خوشی کی بات ہے کہ آج کل بھارتی سپریم کورٹ کے کچھ خاص جج نظام قانون کو انگریزی کی ٹیڑھی میڑھی لکیر سے آزاد کرنے کی آواز اُٹھانے لگے ہیں۔ بھارت کے چیف جسٹس این وی رمنا تو اس بارے میں اپنے دوٹوک وچار پیش کر ہی چکے ہیں لیکن پچھلے ہفتے اسی عدالت کے جج ایس عبدالنظیر نے زوردار دلیل اور حقائق پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی نظام قانون سے سامراجی ذہنیت کو جلد سے جلد ختم کیا جانا چاہئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ موجودہ سرکار نے انگریزوں کے بنائے ہوئے کئی چھوٹے موٹے قوانین کو رد کرنے کی مہم چلائی لیکن بھارت کا نظام قانون آج بھی جتنا انصاف کرتا ہے اس سے زیادہ نا انصافی کرتا ہے۔ کروڑوں مقدمے برسوں سے عدالتوں میں لٹکے رہتے ہیں۔ وکیلوں کی فیس بے حساب ہوتی ہے۔ انگریزی کی بحث اور فیصلے موکلوں کے سر پر سے نکل جاتے ہیں۔ بھارت میں انصاف تو جادو ٹونا بن گیا ہے۔ بھارتی جج اور وکیل اپنی دلیلوں کو ثابت کرنے کیلئے برٹش اور امریکی مثالوں کو پیش کرتے ہیں۔ بھارتی وکیلوں اور ججوں کو یہ پتا نہیں کہ دنیا کی سب سے قدیم سوسائٹی بھارت کی ہی تھی۔ بھارت کے وزرائے قانون منو‘ کوٹلیہ‘ کاتیاین وغیرہ کو ہمارے قانون کی کلاسوں میں کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے ہر قول کو مان ہی لیا جائے۔ دیش اور کال کے مطابق ان کا تال میل بھی ضروری ہے لیکن اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ ان کے ذریعے بہت سی چیزوں کو سمجھنا آسان ہو سکتا ہے۔ بھارتی وزارتِ قانون کیلئے یہ ضروری ہے کہ قانون کی پڑھائی میں انگریزی پر پابندی لگے۔ قانون بھارتیہ زبانوں میں بنے اور عدالت کی بحث اور فیصلے بھی اپنی بھاشا میں ہوں۔ ہمارا قانون خود قید میں ہے۔ اُسے آزادی کب ملے گی؟
سَنت اور ہندوتوا کی بدنامی
ملک کے کچھ شہروں سے ان دنوں ایسے بیانات اور واقعات کی خبریں دیکھ کر فکر ہوئی کہ انہیں سختی سے نہیں روکا گیا تو یہ بھارت میں سماجی کہرام مچا سکتی ہیں۔ پہلے ہم یہ دیکھیں کہ وہ کیا ہیں۔ ہریدوار میں نرنجنی اکھاڑے کے مہامنڈلیشور ان پورنا اور ہندو مہاسبھا کے نیتا دھرم داس نے اتنے قابلِ اعتراض بیانات دیے ہیں کہ اب پولیس ان کے خلاف باقاعدہ جانچ کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا ہے کہ ہندو لوگ کتابوں کو کونے میں رکھیں اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے۔ اس طرح کے لوگوں نے انبالہ کے ایک مشہور اور پرانے گرجا گھر میں گھس کر مقدس مذہبی نشانیوں کو توڑ دیا۔ گروگرام میں بھی گرجے میں گھس کر نام نہاد ہندووادیوں نے کرسمس کے تہوار کو خراب کر دیا۔ ایسا ہی پچھلے سال آسام میں کچھ لوگوں نے کیا تھا۔ رائے پور میں منعقد دھرم سنسد میں ادھرم کی کتنی نفرت آمیز باتیں ہوئی ہیں۔ اس پارلیمنٹ میں 20 فرقوں کے سربراہان اور کانگرس و بھاجپائی نیتاؤں نے بھی حصہ لیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے بھاشن تو متوازن اور ہم آہنگ سوسائٹی کے تھے لیکن اپنے آپ کو ہندو سَنت بتانے والے دو افراد نے ایسے بھاشن دیے جنہیں سن کر ساری سنتائی چورچور ہو جاتی ہے۔ ایک 'سنت‘ نے گاندھی جی کی ہتیا کو ٹھیک بتایا اور ناتھورام گوڈسے کی تعریف کی۔ اس نے مسلمانوں پر الزام لگایا کہ وہ بھارت کی سیاست کو قابو کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک اور سَنت نے تمام سیکولر لوگوں کو ہندو مخالف بتایا۔ پتا نہیں یہ سَنت لوگ کتنے پڑھے لکھے ہیں؟ کیا انہیں پتا نہیں ہے کہ بھارتی صدر‘ وزیر اعظم‘ وزرا اور سبھی ایم پیز اس آئین کی حفاظت کا حلف لیتے ہیں جو سیکولر ہے۔