"DVP" (space) message & send to 7575

گجرات کی عدالت میں گجراتی نہیں

بھارتی گجرات کی ہائی کورٹ میں زبان کے سوال پر پھر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ ایک صحافی وشال ویاس نے گجراتی میں جونہی بولنا شروع کیا تو ججوں نے کہا کہ آپ انگریزی بولئے۔ ویاس اڑے رہے‘ انہوں نے کہا کہ میں گجراتی میں ہی بولوں گا۔ ججوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ 348 کے مطابق اس عدالت کی زبان انگریزی ہے‘ اگر ویاس چاہیں تو ان کی بات کا انگریزی ترجمہ کرنے کی سہولت کا انتظام عدالت کر دے گی۔ عدالت کی یہ پیش کش قابل تعریف تھی لیکن یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ بھارت کی عدالتوں میں آج بھی انگریزی کی اجارہ داری ہے۔ ان ججوں سے کوئی پوچھے کہ آپ نے دفعہ 348 کو ٹھیک سے پڑھا بھی ہے یا نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ عدالت کی زبان انگریزی ہو گی لیکن ان ججوں سے کوئی پوچھے کہ کیا ملزم یا درخواست دہندہ کو بھی وہ عدالت مانتے ہیں۔ آپ انہیں ان کی زبان میں کیوں نہیں بولنے دیتے۔ آپ ان پر انگریزی لاد کر ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں انگریزی میں چلنے والی ساری عدالتی کارروائی کی وجہ سے ملک کے عام لوگوں کی ٹھگی ہوتی ہے۔ انہیں پلے ہی نہیں پڑتا کہ ان کے اور اپوزیشن کے وکیل کیا بحث کر رہے ہیں‘ یہ موکل لوگ طے نہیں کر پاتے ہیں اور انگریزی میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان کو سمجھنا تو ہمالیہ پر چڑھنے جیسا ہے۔ دفعہ 348 یہ بھی کہتی ہے کہ پارلیمنٹ چاہے تو وہ آئین میں ترمیم کر کے اونچی عدالتوں میں بھارتیہ زبانوں کو چلا سکتی ہے۔ وہ قانون کو انگریزی میں بنانے کی لزومیت بھی ختم کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسی دفعہ میں یہ اہتمام بھی ہے کہ کسی بھی صوبے کا گورنر صدرِ ہند کی رضا مندی سے اپنے صوبے کی ہائی کورٹ میں ہندی یا دیگر بھارتی زبانوں کے استعمال کی اجازت دے سکتا ہے۔ یہاں سوال یہی ہے کہ گجرات جیسی ریاست میں اس دفعہ کو ابھی تک نافذ کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ وہی گجرات ہے جس میں بھاجپا کے نریندر مودی سالوں وزیر اعلیٰ رہے اور اب وزیر اعظم ہیں۔ مہارشی دیانند اور مہاتما گاندھی دونوں ہی گجراتی تھے اور دونوں نے ہی ہندی کا بیڑا اُٹھا رکھا تھا۔ بھارت کی سبھی ریاستوں میں گجرات کو سب سے آگے ہو کر ریاستی اسمبلی اور ہائی کورٹ میں گجراتی اور ہندی کو لازمی کرنا چاہئے تھا۔ پارلیمنٹ کے ایم پیز کو چاہئے کہ وہ آئین کی دفعہ 348 میں ترمیم کروا کر انگریزی کی اجارہ داری کو قانون اور عدالتوں سے باہر کریں۔ اگر بھارتی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیاں پختہ عزم کر لیں تو انگریزی کی غلامی فوراً ختم ہو سکتی ہے جیسے 1917ء میں سوویت روس میں سے فرانسیسی‘ 200 سال پہلے فن لینڈ سے سویڈش اور 16ویں صدی میں برطانیہ میں سے فرانسیسی اور ترکی میں فرانسیسی زبان اور عربی رسم الخط کو ختم کیا گیا۔ انگریزی زبان کی غلامی انگریز لوگوں کی غلامی سے بھی بدتر ہے۔ کیا بھارت بھر میں کوئی ایسی سیاسی جماعت یا رہنما ہے جو اس غلامی سے بھارت کو چھٹکارا دلا سکے۔ 2020ء میں بھارت کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں تعلیمی اصلاحات کے سلسلے میں مرتب کی جانے والی پالیسی کے تحت پرائمری سکولوں میں انگریزی میں تعلیم پر پابندی ہو گی۔ بھارتی حکومت کے مطابق یہ اصلاحات ملکی سکولوں اور اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں بڑی تبدیلی کا راستہ ہموار کریں گی مگر بعض علاقائی رہنماؤں نے ہندی زبان کو ترجیح دینے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل بھی جب ہندی کو بھارت کی قومی زبان بنانے کی بات کی گئی تو متعدد ریاستوں کی جانب سے اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ 2014ء میں جب بھارت کی مرکزی حکومت نے اس قسم کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے تامل ناڈو کے سابق وزیرِ اعلیٰ ایم کروناندھی نے اعتراض کیا تھا۔ تامل ناڈو اور مرکزی وزارت داخلہ کے درمیان اس پر تکرار بھی کافی بڑھ گئی۔ تامل ناڈو کی اُس وقت کی وزیر اعلیٰ جے للتا اور اپوزیشن رہنما ایم کروناندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر اپنا احتجاج درج کرایا تھا۔ خط میں وزیر اعلیٰ نے لکھا تھا کہ 1968ء میں ہونے والی ترمیم کے تحت سرکاری زبان کے ایکٹ 1963 کی دفعہ 3 (1) میں کہا گیا کہ مرکز اور غیر ہندی زبان بولنے والی ریاستوں کے درمیان بات چیت کے لیے انگریزی زبان کا استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ہونے والی بات چیت کی زبان انگریزی برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تامل سمیت آٹھویں شیڈول میں شامل تمام زبانوں کو بھارت کی سرکاری زبان قرار دینے کا دوبارہ مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح سوشل میڈیا میں تمام سرکاری زبانوں کو فروغ مل سکے گا۔ مرکزی وزارت داخلہ نے سرکاری اہلکاروں کو مبینہ طور پر ہدایت دی تھی کہ وہ فیس بک‘ ٹویٹر‘ بلاگ‘ گوگل اور یو ٹیوب جیسی سوشل میڈیا سائٹس پر ہندی کے استعمال کو ترجیح دیں۔
بچپن سے ہی معقولیے کی عادت پروان چڑھائیں
پچھلے ہفتے جب کچھ ہندو سادھوؤں نے سخت قابل اعتراض بھاشن دیے تھے تب میں نے لکھا تھا کہ وہ سرکار اور ہندوتوا دونوں کو داغ دار کر نے کا کام کر رہے ہیں۔ بھارت کے سرکردہ رہنماؤں اور ہندوازم کی پرچارک تنظیموں کو ان کی سخت مذمت کرنی چاہئے۔ بھارتی آئین کے مطابق ہر شخص کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی ہے۔ انہوں نے بہت معتدل زبان میں ان نام نہاد سادھوؤں کی بات کو رد کیا ہے‘ جنہوں نے گاندھی کے قتل کو صحیح ٹھہرایا تھا اور مسلمانوں کے قتل عام کی باتیں کی تھیں۔ انہوں نے گاندھی جی کے لیے بہت زیادہ گندے الفاظ کا استعمال بھی کیا تھا۔ اپنے آپ کو ہندوتوا کا پیروکار کہلانے والے کچھ سرپھرے نوجوانوں نے گرجا گھروں پر بھی حملے کئے تھے اور مقدس مذہبی نشانیوں کو منہدم کر دیا۔ اس طرح کے شریر لوگ بھارت میں نہیں رہنے چاہئیں۔ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے دنیا میں بھارت کی بہت بدنامی ہوتی ہے۔ مذہبی فسادات اور مذہبی اقلیتوں پر جبر کے واقعات میں دنیا بھر میں بھارت کی مثال دی جانے لگی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت کے اکثر لوگ ایسے غلط کاموں سے متفق نہیں ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ان فسادیوں کی مذمت کیا کریں۔ ایسے غلط معاملوں کو بھاجپا اور کانگرس میں بانٹنا سب سے زیادہ غیر مناسب ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ایسے ریاست مخالف اور زہریلے بیانات کے خلاف اپنی دوٹوک رائے ظاہر کریں۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ ان نام نہاد سادھوؤں کے خلاف پولیس نے ابتدائی کارروائی شروع کر دی ہے لیکن وہ کورا دکھاوا نہیں رہ جانا چاہئے۔ ایسے زہریلے بیانات کے نتیجے میں ہی بھارت میں آئے روز فسادات ہوتے ہیں اور اقلیتوں کے خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں۔ یہ راشٹر توڑک رجحان صرف قانون کے ذریعے ختم نہیں ہو سکتا اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذہبی لوگ اپنے اپنے بچوں میں بچپن سے ہی سخاوت اور معقولیت کے سنسکار ڈالیں۔ اگر ہمارے شہریوں میں عقلیت پسندی پیدا ہو جائے تو مذہب کے نام پر چل رہے پاکھنڈ اور حیوانیت کو چھوئیں گے بھی نہیں۔ اگر لوگ معقول ہونے کے ساتھ لبرل بھی ہوں گے تو وہ اپنے مذہب یا دھرم گرنتھ یا دھرم پردھان کی تنقید سے ناراض نہیں ہوں گے۔ بھارت میں شاستر ارتھوں کی بہت قدیم اور لمبی روایت رہی ہے۔ گوتم بدھ‘ شنکر آچاریہ اور مہارشی دیانند کی تعلیمات میں کہیں بھی کسی کے تئیں بھی بدگمانی یا تشدد کا نشان تک نہیں دکھائی پڑتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں