عطر سے اتنی بدبو پھیل سکتی ہے‘یہ دنیا کو پہلی بار پتا چلا۔ قنوج کے عطر والے دو جین خاندانوں پر پڑے چھاپوں نے عطر کے ساتھ اترپردیش کی سیاست کی بدبو کوبھی اجاگر کر دیا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ ان چھاپوں نے بھارت کی ساری سیاست میں پھیلی بدبو کو سب کے سامنے پھیلا دیا ہے۔ 22 دسمبر کو جب پیوش جین کے یہاں چھاپہ پڑا تو اس میں 197 کروڑ روپے‘ 26کلو سونا اور 600 کلو چندن پکڑاگیا اور پیوش کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ میڈیا پر بتایا گیا ہے کہ یہ چھاپہ سماج وادی پارٹی کے کبیر کے ٹھکانوں پر پڑا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ پیسہ اکھلیش یادو کا ہے۔ کانپور کے ایک جلسے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے مخالفین پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ظلم و زیادتی کا عطر ہے۔ اس کی بدبو ہر جگہ پھیل گئی ہے۔ یہ بدبو 2017ء سے پہلے پھیلی تھی۔ تب تک اکھلیش اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے لیکن اکھلیش نے کہا کہ یہ چھاپہ غلط فہمی میں ماردیا گیا ہے۔ دونوں جینوں میں سرکار گمراہ ہو گئی۔ پیوش جین کا سماج وادی پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سرکار نے پشپراج جین کی جگہ غلطی سے پیوش جین کے یہاں چھاپہ مار دیا۔ اب سرکار نے پشپراج جین کے یہاں بھی چھاپہ ماردیا ہے۔اکھلیش کا کہنا ہے کہ پیوش کے یہاں سے نکلا دھن بھاجپا کا ہے‘ تو بھاجپا نیتا کا کہنا ہے کہ پشپراج تو سماج وادی پارٹی کے ورکر ہیں۔ ان کے یہاں جو بھی کالا دھن پکڑا جائے گا‘ وہ سماج وادی پارٹی کا ہی ہو گا۔ اگر اکھلیش پہلے چھاپے کا مذاق نہ اڑتے تو شاید ان کے جین پر دوسرا چھاپہ نہیں پڑتا‘ لیکن اب بھاجپا نے حساب برابر کردیا ہے۔ پیوش جین تقریباً 40 کمپنیوں کے مالک ہیں جن میں سے دو مشرق وسطیٰ میں ہیں لیکن ان کی اصل پہچان اور شہرت بطور پرفیوم کے تاجر کی ہے۔ پیوش جین نے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی حکام کو بتایا تھا کہ انہوں نے وراثت میں ملنے والا سونا فروخت کر کے رقم اکٹھی کی کیونکہ ابتدا میں اپنا چھوٹا سا کاروبار بڑھانے کے لیے انہیں پیسوں کی ضرورت تھی۔جین کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔وہ بہت سادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور گلی، محلے میں میں کسی سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ان کے والد مہیش چندر جین پیشے کے لحاظ سے کیمسٹ تھے اور پیوش جین اور ان کے بھائی امبریش نے پرفیوم بنانے کا فن اپنے والد سے ہی سیکھا تھا۔ ان چھاپوں سے بھارت کے سبھی نیتاؤں کا امیج خراب ہوتا ہے۔ عوام کو لگتا ہے کہ یہ سبھی کرپٹ ہیں۔ ان میں سے کوئی دودھ کا دھلا نہیں ہے۔ انتخابات کے موسم میں کی جارہی اس چھاپہ ماری سے برسراقتدار پارٹی کا امیج بھی چوپٹ ہوتا ہے۔ اپنے مخالفین کو بدنام اور تنگ کرنے کے لیے ایسے چھاپے اس وقت مارے جاتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے سرکار کو لقوہ کیوں ہوا پڑاتھا ؟ اس کے علاوہ یہ چھاپے اسی ریاست میں کیوں پڑ رہے ہیں جس میں چناؤ سر پر ہیں؟ کیا بھاجپا کوہار کا ڈرستا رہا ہے؟ اگر بھارت میں شفافیت پیدا کرنی ہے تو ایسے چھاپے سب سے پہلے سرکاروں کو اپنے ہی پارٹی نیتاؤں پرمارنے چاہئیں‘ کیونکہ ان کے پاس صرف حرام خوری کا پیسہ ہی جمع ہوتا ہے۔ صنعتکار اور کاروباری تواپنے دماغ اور محنت سے پیسہ کماتے ہیں‘ یہ بات الگ ہے کہ ان میں سے کئی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ ان چھاپوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مودی سرکار کی نوٹ بندی کی ناک کٹ گئی ہے۔نوٹ بندی کے باوجود اگر کروڑوں‘اربوں روپے عطر والوں کے یہاں سے نقد پکڑے جا سکتے ہیں تو بڑے بڑے صنعت کاروں اور کاروباریوں نے اپنے یہاں تو کھربوں روپے نقد چھپا رکھے ہوں گے۔ نیتاؤں اور پیسے والوں کی سانٹھ گانٹھ نے ہی ظلم و زیادتی کو ریاستی آداب بنا دیا ہے۔
غیر ملکی دولت اور بھارتی ادارے
بھارت کی ہزاروں اداروں کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز پر کڑی نگرانی اب شروع ہو گئی ہے۔ بیرونی ممالک کی موٹی مدد کے دم پر چلنے والی ان تنظیموں کی تعداد بھارت میں 22 ہزار 762ہے۔یہ تنظیمیں سماج سیوا کا دعویٰ کرتی ہیں۔غیر ملکی سرمائے سے چلنے والے ان تنظیموں میں کئی تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں‘ یتیم خانوں‘ بیواؤں کے ہوسٹلز وغیرہ چلتے ہیں۔اس کے علاوہ ایسے گروپس بھی چلتے ہیں جو یا تو کچھ نہیں کرتے یا سیوا کے نام پر گھٹیا سیا ست کرتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ان سب تنظیموں کی جانچ کی جائے۔ ان تنظیموں کا سرکار کے ساتھ رجسٹریشن ضروری بنا دیا گیا تھا اور انہیں بیرونِ ملک سے امداد لینے سے پہلے سرکار سے اجازت لینا ضروری تھا۔ وزارتِ داخلہ سے انہیں لائسنس لینا ضروری ہے لیکن اس سال لگ بھگ6ہزار تنظیموں کی رجسٹریشن ملتوی کر دی گئی ہے۔18000 سے زیادہ تنظیمیں ابھی رجسٹریشن کے لیے درخواست دینے والی ہیں۔ ایسی 179تنظیموں کی رجسٹریشن رد ہو گئی ہے جن کے حساب میں گڑ بڑ پائی گئی ہے یا جن کی سرگرمیاں قابل اعتراض مانی گئی ہیں۔ مدر ٹریسا کی تنظیم بھی ان میں شامل ہے۔ کئی تنظیموں کے بینک کھاتے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔اس پر سرکار کے خلاف کئی سیاسی رہنما اور گروپ کافی شور مچا رہے ہیں۔ یہ قدرتی ہے۔ اپوزیشن سیاسی رہنماؤں کو توہر اس مدعے کی تلاش رہتی ہے جس پر وہ کچھ شور مچا سکیں لیکن عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے لیے اس سے سچ مچ مصیبت کھڑی گئی ہے۔ ان کے کارکنوں کو تنخواہ نہیں مل رہیں۔ ہسپتالوں میں علاج بند ہو گیا ہے۔ یتیم بچوں کو کھانے پینے کی پریشانی ہوگئی ہے۔ جن تنظیموں کے غیر ملکی عطیات پر روک لگی ہے اور جن کی رجسٹریشن روکی گئی ہے‘ وہ صرف غیر سرکاری تنظیمیں ہی نہیں ہیں ان میں نہرو سمرتی میوزیم‘ اندرا گاندھی کلا کیندر‘ لال بہادر شاستری سمرتی ادارہ اور جامعہ ملیہ جیسے ادارے بھی ہیں جو ملک کے بڑے بڑے ناموں سے جڑے ہوئے ہیں اور جنہیں سرکار ی مدد بھی ملتی رہی ہیں۔ان اداروں پر لگی روک کو صرف سیاسی اور فرقہ وارانہ قدم بھی بتایا جا سکتا ہے۔ مدر ٹریسا کی تنظیموں پر روک کو بھی اسی کیٹیگری میں رکھا جا رہا ہے لیکن جب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھے گا تو سرکار کو بتانا پڑے گا کہ ان تنظیموں پر روک لگانے کی ٹھوس وجہ کیا ہے؟یہ تنظیمیں صرف اس وجہ سے غیر ملکی فنڈز کا غلط استعمال نہیں کر سکتیں کہ ان کے ساتھ ملک کے بڑے بڑے لوگوں کے نام جڑے ہوئے ہیں۔ سرکار نے غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی ان تنظیموں کے کام کاج پر کڑی نگرانی شروع کردی ہے‘ یہ توٹھیک ہے لیکن یہ دیکھنا بھی اس کا فرض ہے کہ مریضوں‘ یتیموں‘ طلبااور غریبوں کاجینا مشکل نہ ہوجائے۔ان کا متبادل بندوبست بھی ضروری ہے۔ان تنظیموں پر نگرانی اس لئے بھی رکھنی ضروری ہے کہ کوئی ریاست یا اس کے شہری کسی پرائے دیش کے لیے اپنی تجوریاں ہمیشہ تبھی کھولتے ہیں جب انہیں اپنا کوئی مطلب نکالنا ہوتا ہے۔ کیا وہ دن بھی کبھی آئے گا جب ہماری سرکار کی طرح ہماری سماجی تنظیمیں غیر ملکی فنڈز لینا بند کر دیں گی؟