بھارت دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس کے عوام سال میں سب سے زیادہ چھٹیاں مناتے ہیں۔ ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے تازہ فیصلے میں کہا ہے کہ عام تعطیلات کوئی بنیادی حق نہیں ہیں۔ کورٹ نے اُس پٹیشن کو رد کر دیا جس میں ''دادر-حویلی‘‘ میں 2 اگست کی چھٹی کی مانگ کی گئی تھی۔ اسی دن 1954ء میں پرتگالی حکو مت سے وہ آزاد ہوا تھا۔ آج کل بھارت کے سرکاری دفاتر ہفتہ اور اتوار کو بند ہوتے ہیں یعنی سال میں 104دن کی چھٹی ایک دم پکی ہے۔ 24چھٹیاں دیگر تہو اروں کی ہوتی ہیں، تقریباً 30 چھٹیوں کے کچھ اور بہانے بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقاعدہ تنخواہ کی چھٹیاں 30دن اور بیماری کی چھٹیاں 15 دن ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ ایمرجنسی چھٹیا ں بھی ہوتی ہیں۔ کل ملاکر سال بھر میں بھارت کے سرکاری ملازمین تقریباً 200 دن کی چھٹی لے سکتے ہیں یعنی انہیں تب بھی تنخواہ ملتی ہے جبکہ وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ سرکاری ملازمین کے چھٹی پر جانے کی وجہ سے کئی فائلیں لٹک جاتی ہیں اور عوام سرکاری دفتروں میں جوتے گھساتے رہ جاتے ہیں۔ ہم دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کا موازنہ بھارت سے کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ تنخواہ والی چھٹیاں کم سے کم دیتے ہیں۔ امریکہ میں 11، برطانیہ میں 8، چین میں 7، یورپ میں 8 یا 10، جاپان میں 16، ملائیشیا میں 19 اور ایران میں 27 اور ناروے میں صرف 2 چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں سرکاری طور پر 14 سے 15 چھٹیاں ہوتی ہیں جبکہ بھارت میں صرف تہواروں کی ہی 24 چھٹیاں ہوتی ہیں۔ جن ممالک میں اہلکاروں کی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے‘ ان کی سرکاریں اور کمپنیاں انہیں چھٹیاں بھی کم دیتی ہیں، لیکن جن ممالک میں تنخواہ کم ہوتی ہے، ان میں زیادہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر اہلکار دفتروں میں پورے وقت ڈٹ کر کام بھی نہیں کرتے۔ 7‘ 8 گھنٹوں میں سے وہ اگر 4‘ 5 گھنٹے بھی روزانہ ڈٹ کر کام کریں تو ہمارا ملک دُگنی رفتار سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ جو ایک بار سرکاری نوکری پاگیا‘ اسے زندگی بھر کا بیمہ مل گیا۔ اگر ملک میں چھٹیاں آدھی کر دی جائیں اور ہر نوکری کے کام کا ہرپانچ سال میں جائزہ لیا جاتارہے تو یہ رینگتا ہوا بھارت دوڑنے لگے گا۔ بھارت اپنے آپ کو سیکولر کہلواتا ہے لیکن نیتا لوگ تھوک ووٹ کے لالچ میں ہر مذہب اور فرقے کی خوشامد میں چھٹیاں کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔تہواروں وغیرہ کیلئے آدھے دن کی چھٹی کافی کیوں نہیں ہونی چاہئے؟ کیا لوگوں کو دن بھر گھر میں بیٹھا کر گھنٹہ گھڑیال بجانا ہوتا ہے؟ اپنے فرض‘ اپنی ڈیوٹی سے بڑھ کر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس کا راز ہم سیکھنا چاہیں تو اپنے دکانداروں سے سیکھیں جو چوبیس گھنٹے اپنے گاہکوں کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ جب ہولی‘ دیوالی‘ عید اور کرسمس وغیرہ پر پورا ملک چھٹی منا رہا ہوتا ہے ہماری دکانیں اور بازار نہ صرف کھلے ہوتے ہیں بلکہ دکاندار ایسے مواقع پر روزانہ سے زیادہ کام یعنی اوور ٹائم کرتے ہیں۔اپنے یومِ آزادی، یوم جمہوریہ اور ایسے ہی قومی ایام پر ہمیں ایک‘ ایک گھنٹہ اضافی کام کیوں نہیں کرنا چاہئے؟ اپنی لگن اتنی گہری ہونی چاہئے کہ اپنے گھر میں خوشی یا غم کا کوئی واقعہ ہونے پر بھی ہمارا روزمرہ کا کام کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے۔ چھٹیوں سے محبت کرنے والے بھارت کے کسی سیاسی رہنما میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ چھٹیوں کے اس سرکاری انداز کو ختم کرسکے۔ ان چھٹیوں کی چھٹی تبھی ہو سکتی ہے جبکہ کوئی زبردست عوامی تحریک چلے۔
اوور سیز بھارتیوں کا دن
9 جنوری کو بھارت میں ''بھارتیہ پرواسی دوس‘‘ یعنی اوور سیز بھارتیوں کا دن منایا جاتا ہے، لیکن اس بار اسے لے کر ملک میں زیادہ ہلچل نہیں دکھائی دی کیونکہ ایک تو سیاسی لوگ انتخابی مہم میں مصروف ہیں اور دوسرا کورونا کی مہاماری کی وجہ سے پچھلے سال بھی پرواسی سمیلن نہیں ہوپایا تھا۔ اس عظیم روایت کی بنیاد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے 2003ء میں رکھی تھی۔مشہور سماجی رہنما ڈاکٹر لکشمی مل سنگھوی اور سفیر جگدیش شرما کی کوششوں سے اس روایت کی بنیاد پڑی تھی۔ اس کا م کوشری بالیشور پرساد اگروال کی تنظیم ''بین الاقوامی سہیوگ پریشد‘‘ پہلے سے ہی منا رہی تھی، لیکن اسے بڑا روپ دینے میں اٹل بہاری جی نے بہترین پہل کی تھی۔اس وقت دنیا بھر کے دیشوں میں بھارت کے اوورسیز افراد کی تعداد لگ بھگ سوا تین کروڑ ہے۔ یہ تعداد تو اکثر ملکوں کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بھارتی پہلے ماریشیئس، فجی، سورینام اور گویانا جیسے ملکوں میں جاکر اس لیے بسائے گئے تھے کہ ان ملکوں میں انگریز حکمرانوں کو مزدوروں کی ضرورت تھی۔ان سبھی ملکوں میں ہمارے مزدوروں کے بیٹے، پوتے اور پڑ پوتے وزیراعظم اور صدر کے عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔ ان کے علاوہ درجنوں دوسرے ملکوں میں پچھلے 100سالوں میں ہزاروں اور لاکھوں بھارتی تعلیم، کاروبار، نوکری اور زندگی گزارنے کے لیے جاکر بستے رہے ہیں۔ کچھ لوگ وہیں پیدا ہوئے اور کچھ لوگ یہاں سے جا کر وہاں کے شہری بن گئے۔ ایسے سبھی اوور سیز کی تعداد سواتین کروڑ تو ہوہی گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ درجنوں ملکوں میں اقلیت میں رہتے ہوئے بھی وزیراعظم، صدر، فارن منسٹر، ممبر پارلیمنٹ وغیرہ جیسے اہم عہدوں پر بھارتی فائز ہوتے رہے ہیں۔اس وقت امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ یہ لوگ وہاں رہ کر ایسی زندگی جیتے ہیں جس کی نقل سبھی مقامی لوگ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کی گھریلو زندگی، ان کی سادگی، محنت، ایمانداری وغیرہ کا ذکر میں نے غیر ملکیوں کے منہ سے کئی بار سنا ہے۔ دوسرے ملکوں میں رہنے والے بھارتیوں میں آپ ذات پات، مذہب، زبان اور اونچ نیچ کا بھید بھاؤ بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔دنیا میں کوئی خطہ یا کوئی کونہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ بھارتیوں کو نہیں پائیں گے۔ آج سے 50‘ 55سال پہلے نیویارک جیسے بڑے شہر میں کسی سے ہندی میں بات کرنے کیلئے میں ترس جاتا تھا لیکن اب جب بھی میں دبئی جاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں کسی چھوٹے موٹے بھارت میں آگیا ہوں۔ امریکہ میں اس وقت بھارتی نژاد لگ بھگ 45 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے جہاں 34 لاکھ بھارتی رہتے ہیں۔ ملائیشیا میں لگ بھگ 30 لاکھ، سعودی عرب جیسے ملک میں بھی 26 لاکھ کے قریب بھارتی آباد ہیں۔ زیادہ تر عرب ملکوں میں بھارتی کام کاج کی غرض سے مقیم ہیں؛ البتہ یورپ اور دوسرے ممالک میں مقیم لاکھوں بھارتی وہاں کی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ خطے کے ممالک میں بھی کافی بڑی تعداد میں بھارتی مقیم ہیں۔ میانمار میں 20لاکھ، سری لنکا میں 15 لاکھ بھارتی مقیم ہیں۔برطانیہ میں 19 لاکھ اور کینیڈا میں 17لاکھ کے قریب بھارتی آباد ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال 25 لاکھ کے قریب نئے بھارتی دوسرے ملکوں کو پرواز بھرتے ہیں اور یہ تعداد بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ لگ بھگ سبھی اوور سیز بھارتی اپنے اپنے علاقوں میں ان ملکوں کے عام لوگوں سے زیادہ خوشحال، پڑھے لکھے اور سکھی ہیں۔ انہوں نے بھارت کواس سال ساڑھے 6 لاکھ کروڑ روپے بھیجے ہیں۔ اپنے اوور سیز افراد سے دھن حاصل کرنے والے ملکوں میں بھارت کا نام سب سے اوپر ہے اور ایسا پچھلے 14 سالوں سے ہو رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں جا کر بھارتی ان کے رنگ میں ایسے رنگ جاتے ہیں کہ اس کلچر میں پوری طرح رچ بس جاتے ہیں۔