"DVP" (space) message & send to 7575

انکم ٹیکس ہٹائیں، خرچ ٹیکس لگائیں!

بھارت کا اگلا بجٹ کچھ ہی ہفتوں میں آنے والا ہے۔ وہ کیسا ہو‘ اس بارے میں کئی ماہرین اور اثرورسوخ والے لوگ اپنے سجھاؤ دینے میں لگے ہیں۔ اب سے تقریباً 30‘ 35سال پہلے شری وسنت ساٹھے اور میں نے سوچاتھا کہ بھارت سے انکم ٹیکس ختم کرنے کی مہم چلائی جائے کیونکہ انکم ٹیکس کی مار سے بچنے کے لیے ٹیکس دہندگان کو کافی ناانصافی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور انکم ٹیکس بھرنے کا عمل بھی اپنے آپ میں بڑا سر درد ہے۔ اب بھی یہ ضروری ہے کہ انکم ٹیکس کی جگہ اخراجات ٹیکس یا ''جائیکرٹیکس‘‘ لگایا جائے۔ جائیکر مطلب اس پیسے پر ٹیکس لگایاجائے جو اپنی جیب سے باہرنکل جاتا ہے۔ آنے والا پیسہ ٹیکس فری ہو اور جانے والا ٹیکس نیٹ میں ہو۔خرچ پر اگر ٹیکس لگے گا تو لوگ فضول خرچی کم کریں گے۔ آمدنی میں جو پیسہ بڑھے گا ‘اسے لوگ بینکوں میں رکھیں گے۔وہ پیسہ کام دھندوں میں لگے گا‘ اس سے ملک میں پیداوار اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔ ٹیکس کا حساب دینے میں جو مغز ماری اور رشوت وغیرہ کے خرچ ہوتے ہیں‘ ان سے بھی راحت ملے گی۔ تقریباً ساڑھے چھ کروڑ لوگ جوہر سال ٹیکس بھرتے ہیں‘ وہ سرکار کے شکرگزار ہوں گے۔ لاکھوں سرکاری اہلکاروں کو بھی راحت ملے گی جنہیں ٹیکس کی گنتی کرنا پڑتی ہے یا ٹیکس چوروں پر نگرانی رکھنا پڑتی ہے۔ نوکری پیشہ اور دکانداروں کو بھی ٹیکس بچانے کے لیے طرح طرح کے داؤ بیچ نہیں لڑانا پڑیں گے۔ بھارت میں آمدنی پر ٹیکس دینے والوں کی تعداد تقریباً 1.5کروڑ ہے۔ باقی 5 کروڑ لوگوں کا ٹیکس بہت کم یا صفر ہوتا ہے۔ ان کے سر پر فضول تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں میں چھوٹے کاروباری لوگ ہی زیادہ ہیں۔ انہیں وہ داؤ کرنا بھی نہیں آتا جن سے ٹیکس بچایا جاتا ہے۔ بڑے کسان، سیاستدان لوگ اور بڑے صنعت کار ٹیکس چوری کے فن کے گرو ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کروڑوں‘ اربوں روپے فرضی کھاتوں یا غیر ملکی بینکوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ نوٹ بندی کی مہم اسی نیت سے چلائی گئی تھی کہ حکومت ان رجحانات کوقابو کرے گی لیکن وہ ناکام ہوگئی۔ کالا دھن بڑھتا ہی گیا۔ اگر انکم ٹیکس کا رواج ختم کر دیا جائے تو کوئی کالا دھن پیدا ہو گا ہی نہیں۔ اس وقت دنیا کے درجن بھرسے زیادہ ملکوں میں ذاتی انکم ٹیکس ہے ہی نہیں۔ ان میں سعودی عرب، یواے ای ، عمان، کویت،بحرین اور مالدیپ جیسے مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ ان ملکوں میں سیلز ٹیکس یا ہمارے جی ایس ٹی کی طرح کا ٹیکس ہے۔ خرچ پر ٹیکس لگانے کیلئے ہمارے افسران اور ماہرین کو اپنا دماغ لگاکر سبھی پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا۔ عام لوگوں سے بھی رائے مانگنی ہو گی۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ''جائیکر‘‘میں بھی چوری اور چالاکی کے لامتناہی امکانات رہیں گے لیکن انکم ٹیکس کے مقابلے وہ بہت کم ہوں گے۔اگر بھارت جیسا بڑا ملک اسے نافذ کرے گا تو پڑوسی ملکوں میں بھی اس کی پیروی اپنے آپ ہو جائے گی۔
سری لنکا میں چینی سرمایہ کاری
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی پچھلے دنوں کچھ ا فریقی ممالک کے ساتھ ساتھ سری لنکا بھی گئے۔ وہاں انہوں نے بھارت کا نام تو نہیں لیا لیکن جو بیان دیا‘ اس میں انہوں نے صاف صاف کہا کہ چین ‘سری لنکا تعلقات میں کسی تیسرے کو ٹانگ نہیں اڑانی چاہئے۔ یہی بات ان کے سفارت خانے نے ان کے کولمبو پہنچنے سے پہلے اپنے ایک بیان میں کہی تھی۔سری لنکا کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے تعلقات اچھے بنائے‘ اس میں بھارت اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ چین کی پالیسی یہ رہی ہے کہ وہ آس پڑوس میں جتنے بھی ممالک ہیں‘ ان سے اتحاد کرے۔ اس کی ہر چند کوشش ہوتی ہے کہ وہ سفارتی تعلقات کو معاشی تعلقات میں تبدیل کرے۔ چین کی پاکستان کے ساتھ گہری دوستی کو بھی بھارت میں اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک پاکستان کی طرح چین کے دوست تو نہیں ہیں لیکن ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ بھارت‘چین مقابلے سے اپنے لیے جتنا مفاد کشید کر سکتے ہیں‘ وہ کر لیں۔ سری لنکا اس کی سب سے بہترین مثال ہے۔ سری لنکا کی درخواست پر وہاں کے دہشت گردوں سے لڑنے کیلئے بھارت نے اپنی فوج وہاں بھیجی تھی۔ ہمارے تقریباً 200 سپاہی بھی اس میں مارے گئے تھے لیکن سری لنکا کے موجودہ صدر گوٹابایا راج پکشے اور ان کے بھائی اور سابق صدر مہندا راج پکشے نے اقتدار میں آتے ہی چین کے ساتھ اتنی قربت بڑھالی کہ اب سری لنکا چین کا اتحادی بنتا جا رہا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا سری لنکا اٹوٹ حصہ بن گیا ہے۔ اس نے اپنی جنوبی بندرگاہ ہمبنٹوٹا کو اب چین کے حوالے ہی کر دی ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے اس دورے کے دوران سمندری ساحلوں پر بسے ممالک کی ایک علاقائی تنظیم پر زور دیا ہے۔ بھارت کی طرف سے شروع کیے گئے 'ساگر‘نامی علاقائی اتحاد کو اس سے کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟ البتہ اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ اس کھیل میں سری لنکا کو چین اپنا کھلاڑی بنالے گا۔ اس وقت سری لنکا کی معاشی حالت جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خراب ہے۔ چینی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے رہنما ڈی سلوا نے کہا ہے کہ سری لنکا بالکل دیوالیہ ہو گیا ہے‘ اکیلے امریکہ کا اسے7 ارب ڈالر کا قرض چکانا ہے۔ چین کا سوا تین بلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ سری لنکا نے اب اپنی کئی لمبی‘ چوڑی زمینیں بھی چین کے حوالے کردی ہیں۔ بھارت سے کئی گنا زیادہ پیسہ چین وہاں کھپارہا ہے۔ چینی وزیر خارجہ سے سری لنکن صدر گوٹابایا نے کھلے عام مراعات مانگی ہیں۔ چین کی فوجی مدد بھی کئی شکلوں میں سری لنکا کو مل رہی ہے۔ ہتھیار‘ ٹریننگ وغیرہ‘ وہ کیاکیا ہے جو چین سری لنکا کو نہیں دے رہا۔ 20‘ 20 لاکھ چینی شہری ہر سال سری لنکا کی یاترا کرتے ہیں۔ قدیم بودھ رابطے کا فائدہ دونوں ملک اٹھانا چاہتے ہیں۔ سری لنکا کو بھارت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ بھارت سے مقابلے کے سبب ہی اسے چین کی اتنی مدد مل رہی ہے۔
سبھاش بابو کی یاد میں!
بھارت کے یومِ جمہوریہ پر یوں تو تمام سرکاریں 3دن مناتی رہی ہیں لیکن اس بار 23جنوری کو بھی جوڑ کر اس میں شامل کر کے یہ تہوار چار د ن کابنا دیا گیا ہے۔ 23جنوری اس لیے کہ یہ سبھاش چندر بوس کا جنم دن ہوتا ہے۔ 'سبھاش جینتی‘ پر اس سے بہتر خراجِ تحسین ان کو کیا ہو سکتا ہے؟ بھارت کی تحریک آزادی میں جن دو رہنمائوں کا نام سب سے آگے ہے وہ ہیں؛ مہاتما گاندھی اور سبھاش چندر بوس۔ 1938میں کانگریس صدر کے چناؤمیں گاندھی اور نہرو کے امیدوار پٹابھی سیتارمیا کو سبھاش بابو نے ہرا کر تاریخ قائم کی تھی۔ وہ مانتے تھے کہ بھارت سے انگریزوں کو بے دخل کرنے کیلئے فوجی کارروائی بھی ضروری ہے۔ انہوں نے جاپان جا کر ''آزاد ہند‘‘ فوج کی تشکیل کی جس میں بھارت کے ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ اور سبھی ذاتوں اور دھرموں کے لوگ شامل تھے۔ اس فوج کے کئی افسروں اور سپاہیوں سے پچھلے 65‘ 70 سال میں میرا کئی بار رابطہ ہوا۔ ان کا جذبہ حب الوطنی اور ایثار بے مثال رہاہے۔ کئی معاملوں میں گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے کے پیروکاروں سے بھی زیادہ!میں سوچتا ہوں کہ اگر سبھاش بابو 1945ء کے ہوائی حادثے میں بچ جاتے اور آزادی کے بعد بھارت آجاتے تو جواہر لال نہرو کا وزیراعظم بننا کافی مشکل میں پڑ جاتا۔ دوسری طرف نہرو کابڑا پن دیکھئے کہ اب سے 65 سال پہلے‘ وہ سبھاش بابو کی بیٹی انیتا شینکل کو لگاتار 6000 روپے سالانہ بھجواتے رہے جو آج کے حساب سے لاکھوں روپے بنتے ہیں۔ اندرا گاندھی نے سبھاش بابو کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا‘ فلم بنوائی‘ سرکاری چھٹی رکھی‘ کئی سڑکوں اورایوانوں کے نام ان کے نام پر رکھے۔ 1969ء میں جب اندرا گاندھی کابل گئیں تو میری گزارش پر انہوں نے ''ہندوگوجر‘‘ نامی محلے کے اس کمرے میں بھی جاناقبول کیا جس میں سبھاش بابو بھیس بدل کر رہا کرتے تھے لیکن افغان فارن منسٹر ڈاکٹر خان فرہادی نے مجھ سے کہا کہ اندرا جی کو وہاں نہ جانے کی صلاح ہم نے بھیجی‘ کیونکہ وہ جگہ محفوظ اور صاف نہیں۔ جو بھی ہو‘ میں نے کابل کے اس کمرے کا دورہ ضرور کیا تھا۔ میں اب حکومت کو مبارک دیتا ہوں کہ اس نے سبھاش بابو کے جنم دن کو منانے کا انتظام کیا ہے۔ میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ سبھاش بابو ویانا (آسٹریا) اور جاپان میں جہاں بھی رہتے تھے‘ ان جگہوں کو وہ یادگار کا روپ دینے کا اہتمام کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں