"DVP" (space) message & send to 7575

شیخ حسینہ واجد کا دورۂ بھارت

کیا خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے موجودہ دورۂ بھارت کی اہمیت سمجھ رہے ہیں؟ علاقائی ممالک سری لنکا‘ نیپال اور مالدیپ سمیت دنیا بھر میں جیسی افراتفری آج کل مچی ہوئی ہے‘ ویسی پچھلے 75برسوں میں کبھی نہیں مچی۔ بھارت کے سبھی پڑوسی ملک اپنے یہاں شروع ہونے والے چینی منصوبوں کے بعد بہت خوش تھے۔ کسی ملک میں چین بندرگاہ بنا رہا ہے‘ کسی میں ہوائی اڈے بنا رہا ہے‘ کسی میں سڑکیں‘ ریلیں اور پل بنا رہا ہے۔ اور کہیں چین لمبی مدت کیلئے جزیرے لیز پر لے رہا ہے لیکن کچھ ہی برسوں میں ان ملکوں کو پتا چل گیا ہے کہ وہ روز بروز قرض کے بوجھ کے نیچے دبتے چلے جا رہے ہیں نیز ترقی کے نام پر بھی ابھی کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ یوں تو بنگلہ دیش کی صورتحال دیگر پڑوسی ملکوں کے مقابلے بہتر ہے اور شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش نے بہت زیادہ ترقی بھی کی ہے لیکن اب بنگلہ دیش کی معیشت بھی ڈگمگانے لگی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے آگے جھولی پھیلانے کی نوبت اب بنگلہ دیش پر بھی آ گئی ہے۔بنگلہ دیش نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ سے مدد کی درخواست کی تھی۔بنگلہ دیش نے حالیہ ہفتوں میں طویل بلیک آؤٹ کا سامنا بھی کیا۔ بعض اوقات دن میں 13 گھنٹے تک عوام کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ حکومت کو ڈیزل اور گیس کی طلب کو پورا کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔حالت یہ ہو چکی تھی کہ ملک بھر کی لاکھوں مساجد سے یہ اعلانات کروائے جانے لگے کہ لوگ بجلی کے گرڈ پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے اپنے ایئر کنڈیشنرز کے استعمال کو کم کریں کیونکہ کرنسی کی قدر میں کمی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے بجلی کے شارٹ فال میں اضافہ ہو رہا تھا۔بنگلہ دیش بینک نے حال ہی میں پرتعیش سامان‘ پھل‘ غیر سیریل فوڈز اور ڈبہ بند اور پروسیسڈ کھانوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کر کے ڈالر کو محفوظ بنانے کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ حسینہ واجد سرکار کے مخالفین ان پر جم کر شدید حملے کر رہے ہیں۔ مظاہرے‘ جلوس اور ہڑتالوں کا دور شروع ہو گیا ہے۔ ایسے نازک وقت میں وزیراعظم شیخ حسینہ کا دورۂ بھارت کی اہمیت اپنے آپ غیر معمولی بن جاتی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کے حوالے سے شروع سے ہی بہت زیادہ ہمدردانہ رویہ اپنایا ہے۔ انہوں نے قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی جو مدد وزیراعظم بنتے ہی کی تھی‘ اسے بنگلہ جنتا ابھی تک یاد کرتی ہے۔شیخ حسینہ کے اس دورۂ بھارت کے دوران کشیارا ندی کے بارے میں جو سمجھوتا ہوا ہے‘ اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا! تیستا ندی کے بارے میں بھی تعمیری اشارے دونوں طرف سے ملے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین چھوٹی‘ موٹی 54ندیاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان چار ہزار کلو میٹر کی سرحد ہے۔ بنگلہ دیش آج کل برطانیہ کی طرح خوفناک توانائی بحران سے گزر رہا ہے۔ دو بلین ڈالر کی لاگت سے کھلنا میں بننے والے بجلی گھر کا دونوں وزرائے اعظم نے افتتاح بھی کیا۔ اس منصوبے میں بھارت 1.6بلین ڈالر لگائے گا۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی ریلوے اور سڑکوں کی تعمیر میں بھی بھارت جم کر بنگلہ دیش کی مدد کرے گا۔ بھارت بنگلہ دیش کو تقریباً 5سوملین ڈالر کی مدددفاعی سازو سامان کے لیے بھی دے رہا ہے۔ بھارت بنگلہ دیش کو طرح طرح کا فوجی سامان فراہم کرنے میں کافی گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس وقت بھارت کا پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ کاروبار بنگلہ دیش کے ساتھ ہے۔ پچھلے سال دونوں ملکوں کے مابین 10.78بلین ڈالر کا کاروبار ہوا تھا۔ اس سال وہ 44فیصد بڑھ کر 18.13 بلین ڈالر کا ہو گیا ہے۔ دونوں ملک مل کر اب ایک جامع تجارتی سمجھوتے کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔
بھارت کا نیا طیارہ بردار بیڑا
بھارت نے آئی این ایس وکرانت نامی نیا طیارہ بردار بیڑا بنا لیا ہے۔ بھارتی دفاعی ماہرین اسے بڑا قدم سمجھتے ہیں۔ بھارت کے پاس پہلے بھی ایک طیارہ بردار بیڑا تھا لیکن وہ برطانیہ سے لیا ہوا تھا لیکن وکرانت خود بھارت کا بنایا ہوا طیارہ بردار بیڑا ہے۔ اس وقت ایسے بیڑے صرف گنتی کے چند ممالک ہی بنا رہے ہیں۔ انہیں ساری دنیا طاقتور ترین ممالک تصور کرتی ہے۔ اس بیڑے کے بعد بھارت بھی خود کوامریکہ‘ چین‘ روس‘ فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی کی طرح سمجھنے لگا ہے حالانکہ یہ ممالک صرف طیارہ بردار جہازوں کی وجہ سے مضبوط نہیں بنے‘ ان کے پاس اور بہت کچھ ہے بھارت جس سے محروم ہے۔دنیا بھر میں صرف 10 ممالک ایسے ہیں جن کی بحری فوج میں طیارہ بردار جنگی جہاز شامل ہیں۔ ان میں امریکہ کا نمبر سرفہرست ہے جس کے پاس 11 طیارہ بردار جہاز ہیں۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جس نے حال ہی میں اپنی بحریہ میں ایک طیارہ بردار جہاز شامل کیا ہے اور اس کے بعد اس کی بحریہ میں طیارہ بردار جہازوں کی تعداد تین ہو گئی ہے۔ بھارت کے اس طیارہ بردار جہاز پر انڈیا کے مقامی تیار شدہ ہوائی جہاز نہیں بلکہ روسی ساختہ ہوائی جہاز رکھے جائیں گے جو انڈین بحریہ کے دوسرے طیارہ بردار جہاز وکرمادتیہ سے مستعار لیے جائیں گے۔ بھارت کی اس کامیابی پر کریڈٹ لینے کے لیے بھاجپا اور کانگرس کے نیتا آپس میں کھینچاتانی کر رہے ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اسے ایک بڑی کامیابی بتایا ہے‘ یہ ٹھیک ہی ہے کیونکہ انہی کے دور میں یہ طیارہ بردار جہاز بن کر تیار ہوا‘ اس لیے اگر وہ اس کا اجرا نہیں کرتے تو اور کون کرتا؟ یہ کسی خاص شخص کی نہیں‘ ملک کی کامیابی ہے۔ یہ بیڑا بنانے کے لیے سینکڑوں افسروں نے برطانیہ جا کر تربیت حاصل کی ہے کیونکہ بھارت کے اپنے پاس ایسی کوئی رہنمائی موجود نہیں تھی۔ اس بیڑے کی تعمیر کے دوران 40 ہزار سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا۔ اس بیڑے کی تعمیر میں 15 سو ٹن سٹیل استعمال ہوا ہے۔ اس بیڑے پر بیک وقت 30 جہاز تعینات کیے جا سکتے ہیںاور اس میں 16سو ملازم کام کریں گے۔ اس کی تعمیر میں 20 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن اس کا 85 فیصد پیسہ بھارت میں لوٹ آیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ امریکہ‘ چین اور برطانیہ جیسے ممالک کے پاس اس سے بھی کافی بڑے طیارہ بردار بیڑے ہیں لیکن بھارت میں تو ابھی اس کا آغاز ہوا ہے۔ اس سے دیگر فوجی سازو سامان بھی بھارت میں بنانے کے اسباب پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے افتتاح کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شیوا جی کو بھی یاد کیا جنہوں نے بحری جنگی صلاحیتوں کا سکہ باقی دنیا کے سامنے جمایا۔ مودی جی نے ایک اور اہم کام بھی کیا۔ وہ یہ کہ بھارتی بحری فوج کے جھنڈے سے برطانوی نشان ''کراس آف سینٹ جارج‘‘ کو ہٹوا کر اس کی جگہ شیوا جی کی آٹھ رُخی علامت کے ساتھ ایک وید منتر بھی جڑوا دیا گیا ہے۔ جیسے کبھی بھارت کے ایوانِ صدر میں ''یونین جیک‘‘ کی جگہ ترنگا لہرایا تھا‘ ویسے ہی اس تاریخی غلطی کی اصلاح کی گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں