"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت: تعلیم اور نوکریوں میں کوٹہ سسٹم

بھارتیہ سپریم کورٹ میں آج کل ریزرویشن پر بحث چل رہی ہے۔ اس میں اہم مدعا یہ ہے کہ معاشی بنیاد پر کیا لوگوں کو نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن یعنی کوٹہ سسٹم ہونا چاہیے یا نہیں؟ 2019ء میں پارلیمنٹ نے آئین میں 103 ویں ترمیم کر کے یہ قانون بنایا تھا کہ غربت کی سطح کے نیچے جو لوگ ہیں انہیں 10 فیصد تک کوٹہ دیا جائے گا۔ یہ ریزرویشن انہی لوگوں کو ملتا ہے جو شیڈولڈ کاسٹ اور پسماندہ طبقوں کو ملنے والے ریزرویشن میں بھی شامل نہیں ہیں۔ یعنی عام زمرے یا غیر ریزرو طبقات کو بھی یہ ریزرویشن محض غریبی کی بنا پر مل سکتا ہے۔ اس کا معیار یہ ہے کہ اس غریب خاندان کی آمدنی 8 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ نہ ہو یعنی تقریباً65ہزار روپے سے زیادہ ماہانہ آمدن نہ ہو۔ واضح رہے کہ یہ خاندان کی کل آمدن ہے، فرد کی نہیں۔ یعنی ایک خاندان میں اگر چار لوگ کماتے ہیں تو ان کی آمدنی 16 سے 17 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہو۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ غربت کی لکیر کے نیچے جو لوگ ہیں ان کی تعداد 25 فیصد کے آس پاس ہے یعنی پورے بھارت میں یہ تعداد تقریباً 30 کروڑ ہے۔ ان لوگوں کو ریزرویشن دینے کی مخالفت اس دلیل کی بنیاد پر کی جاتی ہے کہ دیش کے زیادہ تر غریب تو نچلی ذاتوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اگر اونچی جاتیوں کے لوگوں کو غریبی کے نام پر ریزرویشن دیا جائے گا تو جو اصلی غریب ہیں‘ ان کا حق مارا جائے گا۔ اس کے جواب میں ججوں نے پوچھا کہ اگر اس ریزرویشن میں ریزرو شدہ لوگوں اور پسماندہ طبقات کو بھی جوڑ لیا جائے تو ریزرویشن کی ساری ملائی یہ طبقے ہی صاف کر لیں گے۔ ابھی تک قانون یہ ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔ ایسے میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ غریبوں کو دیا جانے والا ریزرویشن شیڈولڈ کاسٹ ذاتوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
واضح رہے کہ شیڈولڈ کاسٹ پسماندہ طبقات کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جس میں دلت، آدی واسی (قبائلی) اور دیگر ذاتوں، نسلوں اور قبیلوں کے طبقات شامل ہیں۔ پہلی بار برطانوی پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس شدہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہندوستان کے مرکزی و صوبائی ایوان میں شیڈولڈ کاسٹ کے لیے نشستیں ریزرو کی گئی تھیں جس کے نو ماہ بعد لندن کے بکنگھم پیلس سے 30 اپریل 1936ء کوشیڈولڈ کاسٹ آرڈر جاری ہوا تھاجس کے ذریعہ ان ذاتوں، نسلوں اور قبیلوں کو فہرست بند کیا گیا تھا جن کے لیے یہ نشستیں ریزرو رہیں گی۔ اس آرڈر میں ان ذاتوں، نسلوں اور قبیلوں کو کسی مذہب کے ساتھ نہیں جوڑا گیا تھا البتہ ہندوستانی عیسائیوں کو اس فہرست سے استثنا دیا گیا تھا کیونکہ1935ء کے ایکٹ کے تحت ہندوستانی عیسائیوں کے لیے مرکزی و صوبائی ایوانوں میں نشستیں الگ سے ریزرو کی گئی تھیں۔شیڈولڈ کی اس تعریف سے بنگالی بدھسٹ(جو عموماً بروا کہلاتے ہیں)کو بھی مستثنیٰ رکھا گیا تھا کیونکہ وہ اُس وقت سماج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ شیڈولڈ کاسٹ سے متعلق اس اصطلاح کو ہوبہو دستورِ ہند کے مسودے کی شق 303(w) میں چسپاں کردیا گیا تھا۔ بعدازاں 10 اگست 1950ء کو کانسٹیٹیوشن(شیڈولڈ کاسٹ )آرڈر جاری کیا گیا جس کے پیرا (3) میں لکھ دیا گیا کہ ''ہندو دھرم کو نہ ماننے والا ہر فردشیڈولڈ کاسٹ کی تعریف سے خارج مانا جائے گا‘‘۔ اس کے بہت بعد 1956ء اور پھر 1990ء میں پیرا (3)میں ترمیم کرکے لفظ ہندو کی جگہ ''ہندو، سکھ یا بدھ‘‘ لکھ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اس شیڈولڈ کاسٹ ریزرویشن کے حوالے سے خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔
آج کل بھارتیہ سپریم کورٹ میں اسی مدعے پر بحث چل رہی ہے کہ بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی ریزرویشن کی سہولت کیوں نہ دے دی جائے؟ جو آدی واسی اور پسماندہ لوگ اپنا دھرم تبدیل کر کے عیسائی یا مسلمان بن گئے ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر لوگ غریب، ناخواندہ اور محنت کش ہیں۔ انہوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ انہیں ریزرویشن سے محروم رکھا جائے؟ مذہب کی بنیاد پر یہ امتیازی سلوک تو بالکل غیر مناسب ہے۔ آئین جب بنا تھا تو اس میں صرف انہیں ذاتوں، نسلوں اور آدی واسیوں کو ریزرویشن دینے کا اہتمام گیا تھا جو ہندو ہیں۔ لیکن پہلے 1956ء میں سکھوں اور 1990ء میں بودھوں کو بھی اس میں جوڑ لیا گیا لیکن اب دفعہ 341 کہتی ہے کہ مذکورہ دھرموں کے باہر جو بھی افراد ہیں‘ انہیں ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے۔ جو جین، مسلمان، عیسائی یا یہودی ہو گیا یاناستک (لا دین) بن گیا، کیا وہ بھارتیہ نہیں رہ گیا؟ میں تو یہ مانتا ہوں کہ کسی مذہب یا مذہب بدلنے سے آدمی کی ذات نہیں بدلتی۔اس کا براہ راست تجربہ مجھے افغانستان اور پاکستان کے مسلمان دوستوں کے درمیان کئی بار ہو چکا ہے۔ پنجابی یا سندھی‘ بارڈر کے اس پار کا ہو یا اُس پار کا‘ ان کے رہن سہن‘ بول چال اور زندگی گزارنے کا بیشتر طریقہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ خود بھارت میں بھی ہر علاقے میں مختلف دھرموں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں‘ پھر یہ کیسے ہو گیا کہ ایک ہی علاقے میں‘ ایک ہی سماجی سٹیٹس والے دو لوگوں میں سے ایک محض اس وجہ سے کوٹے کا حقدار ٹھہرے کہ وہ ہندو‘ سکھ یا بدھ ہے اور دوسرا محض اپنے دھرم کی وجہ سے رد کر دیا جائے۔اولاً تو ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دینا ہی زہریلا ہے لیکن اگر اس میں مذہبی بھید بھائو رکھا جائے اور کسی کو مذہبی بنیاد پر اس حق سے محروم کیا جائے تو وہ اور بھی برا ہے۔ کانگرس نے پہلے تو ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دیا۔ اس کا ٹارگٹ لوگوں کا بھلا کرنا بھی تھا لیکن وہ منصوبہ ناکام ثابت ہوا۔ ایک نیا اعلیٰ طبقہ اٹھ کھڑا ہوا۔ مٹھی بھر لوگوں کو ان کی اہلیت پر نہیں‘ پیدائش کی بنیاد پر کرسیاں مل گئیں۔ اس کے باوجود کانگرس سرکار نے پچھلی حکومت میں مذہب کے نام پر بھی تھوڑا بہت ریزرویشن شروع کر دیا۔ اس کی وجہ سے مختلف ذاتوں اور قبیلوں کے ریزرویشن میں کمی آ گئی کیونکہ سپریم کورٹ نے 50فیصد ریزرویشن کو ہی جائز تسلیم کیا ہے۔ یہ ریزرویشن‘ ریزرویشن والوں کی بھلائی کے لیے کم، ان کے تھوک ووٹوں کے لیے زیادہ دیا جاتا ہے۔ درو پدی مرموجیسی ایک آدی واسی کو بھارت کی صدر بنا کر بھاجپا نے آدی واسیوں پر تو ڈورے ڈال ہی دیے ہیں، اب وہ عرب اور عیسائی ریاستوں میں اپنے اچھے امیج کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے بھی ریزرویشن کی چوسنی لٹکا دے تو کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ شاید اسی لیے اس نے اس سوال پر غور کرنے کے لیے ایک کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کے لیے یہ بہت ہی خطرناک فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت کو اگر ہمیں ایک مضبوط ریاست بنانا ہے تو لوگوں کو ذات اور مذہب کے بھید بھاؤ میں الجھانا بند کرنا ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی نوکریوں میں کسی بھی بنیاد پر ریزرویشن دینا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے ریزرویشن میں قابلیت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے اور نااہل لوگوں کو کرسیاں تھما دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر پوری انتظامیہ ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے اور ناانصافی کو فروغ ملتا ہے۔ نوکریوں میں بھرتی کا پیمانہ صرف ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ ہے قابلیت! دیش کی ترقی کے سفر کو تیز تر‘ مؤثر اور کامیاب بنانا ہو تو ذات پات اور غریبی‘ دونوں کے نام پر نوکریوں میں دی جانے والی ریزرویشن کو فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔ اس کی جگہ صرف تعلیم میں ریزرویشن دی جائے اور وہ 60 سے 70 فیصد تک بھی ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ اس ریزرویشن کا صرف ایک ہی معیار ہو اور وہ ہو خطِ افلاس! اس میں سبھی ذات پات اور دین دھرم کے لوگوں کو یکساں سہولت ملے۔ سبھی ریزرو طلبہ و طالبات کو مفت تعلیم اور ممکن ہو تو کھانے اور رہائش کی سہولتیں بھی ملنی چاہئیں۔ جو بچے محنتی اور قابل ہوں گے، وہ نوکریوں میں ریزرویشن کی بھیک کیوں مانگیں گے؟ وہ فخر سے کام کریں گے۔ وہ احساسِ کمتری سے آزاد ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں