برطانیہ میں آج کل کچھ ایسا ہو رہا ہے جو دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں کبھی نہیں ہوا۔ برطانیہ میں تقریباً دو سو سال پہلے ایسا تو ہوا ہے کہ جارج کینگ نامی وزیراعظم کے انتقال کی وجہ سے 119 دن بعد ہی نئے وزیراعظم کو حلف لینا پڑا تھا لیکن تین ماہ میں لندن میں تین وزیراعظم آ جائیں گے‘ ایسا پہلی بار ہوگا۔ ابھی ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا تھا لزٹرس کو برطانوی وزیراعظم بنے ہوئے اوراب انہیں استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے۔ ان سے پہلے بورس جانسن نے وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ ان کے کئی وزیروں نے بغاوت کردی تھی۔ ان کے خلاف انہوں نے بیانات دینے شروع کردیے تھے اور ایک کے بعد ایک متعدد استعفوں کی جھڑی لگنے لگی تھی۔ بورس جانسن کو وزیراعظم کی کرسی پر سے ان کی کنزرویٹو پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ نے نہیں‘ برطانیہ کے عوام نے عام چناؤ جتا کر بٹھایا تھا لیکن لزٹرس کو پارٹی کے اراکین نے چُن کر اس کرسی پر بٹھایا تھا۔ ان کی ٹکر میں جو امیدوار تھے وہ بھارتیہ نژاد رِشی سوناک تھے۔ سوناک نے بورس جانسن کی وزارتی کابینہ سے استعفیٰ دے کر ان کی کرسی کو ہلا دیا تھا لیکن لزٹرس نے پہلے دن سے اپنی کرسی کو خود ہی ہلانا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے برطانیہ کی لنگڑاتی ہوئی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے کاجو اعلان کیا تھا اس کی بنیاد تھی ٹیکس میں بھاری کٹوتی! انہیں بھروسہ تھا کہ ٹیکس میں بھاری کٹوتی سے بازاروں میں جوش و خروش پیدا ہوگا، پیداوار بڑھے گی، بے روزگاری اور مہنگائی گھٹے گی۔ بورس جانسن کے زمانے میں جو مندی آئی تھی وہ بھی گھٹ جائے گی۔ انہوں نے سرکار بناتے ہی 50بلین ڈالر کی ٹیکس کٹوتی کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد ان کے اپنے وزیر خزانہ 'کو اسی کوارٹنگ‘ کو تین ہفتوں میں ہی عہدہ چھوڑنا پڑ گیا کیونکہ سارا برطانیہ احتجاج کرنے لگا تھا۔ ٹیکس کٹوتی کی وجہ سے سرکار کا خرچہ کیسے چلتا؟ لز ٹرس نے لوگوں کے احتجاج پر اپنی ہی کابینہ کے وزیر خزانہ کو ان کی مرضی کے خلاف برطرف کر دیا۔ جب یہ خبر سامنے آئی کہ اب کواسی چانسلر یعنی وزیرِ خزانہ نہیں رہے تو آدھے گھنٹے میں ہی برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں تیزی سے کمی آئی۔لز ٹرس اور کواسی کوارٹنگ پرانے دوست ہیں اور کنزرویٹو پارٹی کے ایک ہی ونگ سے ہیں۔ انہوں نے معاشی پالیسی کے حوالے سے جو کوشش کی وہ سیاست پر ان کے نقطہ نظر کا مرکز تھا مگر ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ہی وہ سارے منظر نامے سے باہر ہو گئے۔ اس وجہ سے لوگوں نے بینکوں میں پیسہ جمع کرنے کی اپیل کر دی۔ جمع شدہ پونجی پر سود کی شرح گھٹنے لگی، بے روزگاری بڑھ گئی، مہنگائی تیز ہو گئی، پاؤنڈ کی قیمت ڈالر کے مقابلے نیچے کھسکنے لگی اور سرکار کے پاس پیسے کی آمد بھی گھٹ گئی۔ بڑے بڑے امیر کبیر تو ٹیکس کٹوتی سے خوش ہوئے لیکن عام لوگ پریشان ہونے لگے۔ برسرِاقتدار پارٹی کے ممبران کو لگا کہ 2025ء کے چناؤ میں ان کا پتّا صاف ہو جائے گا۔ بے اطمینانی کا آتش فشاں پھوٹ پڑا۔ پہلے لز ٹرس نے اپنے وزیر خزانہ کو باہر کیا‘ اب نئے وزیر خزانہ نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ دیگر وزرا بھی کھسکتے نظر آئے۔ برطانیہ کے سارے ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی لز ٹرس پر برس پڑے۔ اس سے پہلے کہ ان کی اور زیادہ بے عزتی ہوتی، ا پنے آپ کو 'آئرن لیڈی‘ ماننے والی لزٹرس نے استعفے کی پیشکش کردی۔ اب اگلے ایک ہفتے میں لندن میں نیا وزیراعظم آ جائے گا۔ وہ عوام کی طرف سے نہیں چنا جائے گا۔ اسے کنزرویٹو پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ نے چننا ہے۔ کون چنا جائے گا‘ اس بارے میں کافی اندازی گھوڑے دوڑائے گئے۔ پہلے بورس جانسن اور رشی سوناک کے نام چل رہے تھے لیکن سابق وزیراعظم بورس جانسن نے کنزرویٹو پارٹی کے لیڈرشپ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا ، پھر رشی سوناک کے مقابلے میں پینی مورڈانٹ نے آنے کا اعلان کیا مگر وہ اپنے پارٹی کے ارکان کی مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ برطانیہ کا نیا وزیر اعظم بننے کے لیے سوناک کو 150 ٹوری ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت حاصل تھی جبکہ برطانوی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے 100 اراکین کی حمایت لازمی ہوتی ہے۔ پینی مورڈانٹ پارٹی میں مطلوبہ حمایت نہ ملنے پر دستبردار ہو گئے اور رشی سوناک بلامقابلہ برطانیہ کی حکمران پارٹی کے سربراہ منتخب ہو گئے۔ اب بظاہر ان کے برطانیہ کے وزیراعظم بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینا یہ برطانیہ میں نئی تاریخ رقم ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے بھی خوش آئند موقع ہو گا کیونکہ پہلی بار کوئی غیر برطانوی برطانیہ کا وزیراعظم بنے گا۔ حالیہ سالوں میں ایسا امریکہ میں بھی ہو چکا ہے جب کملا ہیرس نے نائب صدر بن کر تاریخ رقم کی تھی جبکہ صدر بائیڈن کے آپریشن کے دوران وہ چند گھنٹوں کے لیے امریکہ کی صدر بھی بنی تھیں جو اپنے آپ میں ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔
ملاوٹ خوروں کے لیے سزائے موت
آج کل کی بڑی خبروں میں کئی خبریں ہیں۔ جیسے نفرتی بھاشنوں کے خلاف بھارتیہ سپریم کورٹ کی پھٹکار، دہشت گردی کے خلاف وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی للکار اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو نااہل قرار دیے جانے کا فیصلہ وغیرہ لیکن میری توجہ چار خبروں نے سب سے زیادہ کھینچی ہے۔ وہ ہیں نقلی پلیٹ لیٹس، نقلی زیرہ، نقلی گھی اور نقلی تیل کے بارے میں۔ دیوالی کے موقع پر غریب سے غریب آدمی بھی کھانے پینے کی چیزیں دل کھول کر خریدنا چاہتا ہے لیکن جو چیزیں بازار میں اسے ملتی ہیں، ان میں سے کئی نقلی ہوتی ہیں، وہ اس کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔ پریاگ راج کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں بھرتی مریض کی موت صرف اس لیے ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے اس کی نسوں میں پلازما چڑھانے کی بجائے موسمبی کا رَس چڑھا دیا۔ اس نقلی پلازما کی قیمت 3ہزار سے 5ہزار روپے ہے۔ نقلی پلازما نے مریض کی جان لے لی۔ پریاگ راج کی پولیس نے دس لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ تقریباً اسی طرح کا کام گورکھپور میں ہوا جہاں نقلی تیل بیچنے کا، دہی میں نقلی زیرہ کھپانے کا واقعہ پیش آیا اور کچھ شہروں میں نقلی گھی اور نقلی دودھ بھی پکڑا گیا ہے۔ دیوالی کے موقع پر بھارتیہ اداروں کے ان بڑے چھاپوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ نقلی چیزیں اصلی چیزوں کے مقابلے زیادہ بکتی ہیں کیونکہ ان کی قیمت تقریباً آدھی ہوتی ہے اور دکانداروں کو منافع بھی زیادہ ملتا ہے۔ جو لوگ ان چیزوں کو خریدتے ہیں انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی، کیونکہ ان کے ڈبے اتنے چکنے چپڑے ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے اصلی چیزوں کے ڈبے یا پیکٹ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ کئی نقلی چیزیں نہ کوئی فائدہ کرتی ہیں نہ نقصان کرتی ہیں لیکن کچھ نقلی چیزیں اپنے استعمال کرنے والوں کی جان لے لیتی ہیں اور کئی چیزیں اتنی آہستہ آہستہ جان کا خطرہ بن جاتی ہیں کہ ان کے صارفین کو اس کا پتا ہی نہیں چلتا۔ یہ معمولی جرم نہیں ہے! یہ قتل سے بھی خوفناک جرم ہے۔ یہ اجتماعی قتل ہے۔ یہ شرارت صرف کھانے پینے کی چیزوں میں ہی نہیں ہوتی۔ یہ اکثر دوائیوں میں بھی بڑی چالاکی سے یہ کام کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ملاوٹ خوروں کو پکڑنے کے لیے سرکار نے الگ سے ایک محکمہ بنا رکھا ہے اور ایسے مجرموں کے خلاف قانون میں بھی بہت سی دفعات بھی ہیں۔ 2006ء کے ''انڈین فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز ایکٹ‘‘ کے مطابق ایسے مجرموں کو 10لاکھ روپے تک جرمانہ اور 6ماہ سے لے کر عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ آج تک کتنے لوگوں کو یہ سخت ترین سزا ملی ہے؟ اس ضمن میں بھارتیہ سرکاروں اور عدالتوں کو انتہائی سختی سے پیش آنا چاہئے۔ میری رائے میں یہ سخت ترین سزا بھی بہت نرم ہے۔ ان اجتماعی قتل کے مجرموں کو سزائے موت ہونی چاہئے اور موت بھی ایسی کہ ہر آنے والے مجرم کے وہ رونگٹے کھڑے کر دے۔ نقلی خوردنی اشیا کے کارخانوں کے مالکان اور اس مال کو بیچنے والے کاروباریوں کو بھی کم از کم پانچ سال کی سزا ہونی چاہئے۔ یہ سب لوگ قتل کے گھناؤنے ترین جرم میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ اگر پورے بھارت میں دو چار ملاوٹ خوروں کو بھی پھانسی ہو جائے تو کروڑوں لوگوں کی زندگی خود بخود بچ جائے گی۔