ساڑھے چار لاکھ لوگوں کو مفت مکان بانٹتے وقت بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی نے جو تقریر کی ہے‘ وہ کئی بنیادی سوال کھڑے کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ (ریاستی) سرکاریں عوام کو جو مفت کی ریوڑیاں بانٹتی ہیں‘ اس سے دیش کے ٹیکس دہندگان کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مودی نے بتایا کہ ان کے پاس لوگوں کی ڈھیروں چٹھیاں آتی ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس بھرتے ہیں اور نیتا لوگ ووٹ کے لالچ میں اس پیسے کو اپنے ووٹروں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹ دیتے ہیں۔ ریوڑیاں کون‘ کون سی ہیں؟ یہ ہیں کمپیوٹر، سائیکلیں، گیس سلنڈر، زیور، بجلی، پانی، نائیوں کے استرے، دھوبیوں کی پریس مشینیں، سکول جانے والے بچوں کے لیے کھانا، پریشر ککر، ٹیلی وژن سیٹ، واشنگ مشینیں وغیرہ وغیرہ! یہ سب چیزیں ووٹروں کو مفت میں دینے کا وعدہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ چنائو کے وقت نیتائوں کو کثیر تعدا د میں ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ یہ کام سب سے پہلے تامل ناڈو کی چیف منسٹر جے للتا نے شروع کیا تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی تقریباً سبھی چیف منسٹرز نے‘ چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے ہوں‘ ریوڑیاں لٹانے میں ایک دوسرے کو مات دینا شروع کر دی۔ اب حالت یہ ہے کہ تقریباً ہر ریاست ان ریوڑیوں کے چلتے قرض دار اور بھکاری بن رہی ہے۔ وہ مرکز اور بینکوں کے قرضوں میں ڈوب رہی ہے لیکن اپنی ایسی حرکتوں سے باز نہیں آ رہی ہے۔ ان ریاستوں کی اسمبلیوں میں بیٹھے ان کے مخالفین پریشان ہیں لیکن وہ بھی بغلیں جھانک رہے ہیں۔ انہیں چپ لگی ہوئی ہے۔ انہیں بھی ووٹوں کے لالچ نے گونگا کر رکھا ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ سمیت کئی لیڈر اس ریوڑی کلچر کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو اس سے اوپر بتا رہے ہیں حالانکہ ابھی مودی سرکار نے ساڑھے چار لاکھ لوگوں میں مفت مکان بانٹے ہیں۔ اسی طرح سے کروڑوں لوگوں کو کورونا لاک ڈائون کے نام پر اب تک مفت اناج بانٹا جا رہا ہے۔ اسے وہ فلاحِ عامہ کا کام بتاتے ہیں اور اسے ریوڑیاں نہیں مانتے۔ کیوں؟ نریندر مودی کا کہنا ہے کہ اس خرچ کا مقصد وہ نہیں ہے جو ریاستوں کی طرف سے بانٹی گئی ریوڑیوں کا ہے۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی ریوڑی کا مقصد فلاحِ عامہ ہے اور کون سی ووٹ بٹورنے کے لیے بانٹی جا رہی ہے؟ جہاں تک مفت اناج اور مفت مکان دینے کا سوال ہے، کیا یہ ووٹروں کو دی جانے والی سب سے موٹی رشوت نہیں ہے؟ کیا یہ ٹیکس دہندگان پر کمرتوڑ حملہ نہیں ہے؟ کورونا لاک ڈائون کے دوران انتہائی غریب خاندانوں کو مفت اناج دینے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن کسی آدمی کو روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے سرکار یا کسی دوسرے پر منحصر رہنا پڑے تو اس میں اور کسی بے زبان جاندار میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ نیتائوں کو بس اپنے ووٹوں کی فکر ہے، چاہے ووٹ دینے والے انسان ہوں یا کوئی اور۔ باقی جماعتوں نے پچھلے چنائو میں صرف ریوڑیاں بانٹی تھیں لیکن مودی سرکارنے 2014ء میں بھارت کے عوام میں 15‘ 15 لاکھ کا ''ریوڑا‘‘ بانٹا تھا۔ مہینہ پہلے گجرات میں بھاجپا کے ایک لیڈر خواتین میں ساڑھیاں تقسیم کرتے دیکھے گئے۔ کیا یہ سب ریوڑیاں نہیں؟ تلنگانہ کے چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کی پارٹی کا ایک لیڈر ووٹروں میں کچھ روز پہلے تک مرغیاں اور 'مشروبات ‘تقسیم کر رہا تھا۔ سبھی پارٹیوں کو ایسی خدمت گزاری الیکشن کے موقع پر ہی یاد آتی ہے؟بھارتیہ سپریم کورٹ نے 2015ء میں سبرامنیم بالا جی کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن یہ معلوم کرے کہ اپنے انتخابی دعووں کو یہ پارٹیاں پورا کس طرح کریں گی؟ لوگوں پر کون کون سے نئے ٹیکس لگائیں گی‘ کس کس چیز کو مہنگا کریں گی‘ کس کس سرکاری خرچے میں کٹوتی کریں گی‘ اپنے لوگوں یا دیگر ملکوں سے قرض لیں گی تو کتنا؟اب کچھ روز قبل بھارتیہ چنائو کمیشن (الیکشن کمیشن) نے یہ اعلان کر کے سیاسی جماعتوں کی ہوا کھسکا دی کہ اپنے انتخابی جلسوں میں سیاسی جماعتیں ووٹرز کے لیے جو چوسنیاں لٹکاتی ہیں یا ان میں جو ریوڑیاں بانٹتی ہیں‘ ان کا حساب بھی ان سے مانگا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یہ بتانا ہو گا کہ جتنا پیسہ ان ریوڑیوں کوبانٹنے میں لگے گا وہ کتنا ہو گا اور سیاسی جماعتیں اسے کیسے جمع کریں گی؟ چاہیے تو یہ کہ وزرا اور چیف منسٹرز چنائو کے دوران حکمران پارٹی ہونے کے سبب ملک کی معیشت کو سدھارنے کے بنیادی کاموں پر زور دیں تاکہ ایسی ریوڑیاں بانٹنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ پرائم منسٹر، چیف منسٹرز اور نیتائوں کو اگر کچھ کرنا ہو تو جنتا کے لیے تعلیم اور علاج کو مفت کریں۔ یہ لوگوں کو ٹھگنے کے دو سب سے بڑے ذرائع بن چکے ہیں۔ آج تک بھارت میں کوئی سرکار ایسی نہیں بنی ہے اور 75 سالوں میں کوئی ایسا نیتا بھارت میں پیدا نہیں ہوا ہے جو ان دو بنیادی سہولتوں تک سب کی رسائی آسان بنا دے۔ تبھی تو ریوڑیوں نے سبھی نیتائوں اور پارٹیوں کو ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے بنا دیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں حجاب
حجاب کے مسئلے کو لے کر بھارتیہ سپریم کورٹ میں جم کر بحث چل رہی ہے۔ حجاب پر جن دو ججوں نے اپنی رائے ظاہر کی ہے انہوں نے ایک دوسرے کے مخالف باتیں کہی ہیں۔ اب اس معاملے پرکوئی بڑی جج منڈلی غور کرے گی۔ ایک جج نے حجاب کے حق میں فیصلہ سنایا ہے اور دوسرے نے حجاب کے خلاف دلائل دیے ہیں۔ حجاب کو صحیح بتانے والا جج کوئی مسلمان نہیں‘ وہ بھی ہندو ہی ہے۔ جسٹس سدھا نشو دھولیہ نے کہا کہ حجاب پر زبردستی نہیں کی جاسکتی‘ یہ سب کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ حجاب کے ایشو کو لے کر بھارت کی ہندو اور مسلم تنظیموں نے لاٹھیاں بجانی شروع کررکھی ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ اصل میں یہ تنازع شروع ہوا تھا کرناٹک سے ! فروری میں کرناٹک کے کچھ سکولوں نے اپنی طالبات کے حجاب پہن کر کلاس میں بیٹھنے پر پابندی لگا دی تھی۔ سارا معاملہ وہاں کی کورٹ میں گیا اور یہ فیصلہ سامنے آیا کہ سکولوں کے ڈریس کوڈ کی پابندی تمام سٹوڈنٹس کو کرنی ہوگی۔میں سمجھتا ہوں کہ بھارتیہ نیتا، جج صاحبان اور سکولوں کی انتظامیہ حجاب کے مسئلے میں بالکل غلط راہ پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے اس سارے معاملے کو مذہب کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اگر صرف مذہبی بنیاد پر حجاب پر پابندی ہونی چاہئے تو ہندو عورتوں کے ٹیکے، سندور، چوڑیوں، سکھوں کے کیس اور صافے اور عیسائی کے کراس پر پابندی کیوں نہیں ہونی چاہئے؟ مجھے تو حیرانی یہ ہے کہ نیتا اور افسر اصلی مدعوں پر بحث کرنے کے بجائے نقلی مدعوں پر بحث چلا رہے ہیں لیکن اصل افسوس اس بات پر ہے کہ جج بھی انہی کی راہ پر چل رہے ہیں۔ وہ تو تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور غیر جانب دار ہوتے ہیں۔ وہ صحیح مدعوں پر بحث کیوں نہیں چلا رہے؟ میری رائے میں دونوں ججوں اور اب ججوں کی بڑی منڈلی کو اس مدعے پر بحث کو مرکوز کرنا چاہئے کہ سب کو ڈریس کوڈ پر تو عمل کرنا ہی ہوگا لیکن کسی کو بھی اپنی پہچان چھپانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں حجاب کو خواتین کی اپنی مرضی پر چھوڑا گیا ہے۔ بھارت کی مسلم طالبات حجاب پر پابندی کی وجہ سے تعلیم سے محروم کیوں رکھی جائیں؟کیا اس طرح انہیں جدید تعلیم سے محروم کر کے صرف مدرسوں تک محدود نہیں کر دیا جائے گا؟ اگراس معاملے کو آپ مذہبی چشمے سے ہی دیکھیں گے تو بھارت کا بڑا نقصان ہو گا۔