رشی سوناک کا برطانیہ کا وزیراعظم بننا صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ منفرد اس لیے کہ بھارت جس برطانیہ کا تقریباً دو صدیوں تک غلام رہا‘ اس کا وزیراعظم ایک ایسا آدمی بن گیا ہے جو بھارتی نژاد ہے۔ برطانیہ پر اب کوئی بھارتی حکومت کرے گا‘ آزادی کے 75ویں سال میں بھارت کو اس سے اچھا تحفہ کیا مل سکتا ہے؟ دنیا کی سفید فام اقوام میں سرفہرست ملک برطانیہ سے تعلق رکھنے والا یہ شخص‘ برطانیہ کا ایسا پہلا وزیراعظم ہوگا جو کہ سفید فام نہیں ہے۔ اس معاملے میں سوناک کا موازنہ ہم بارک اوباما سے کر سکتے ہیں جو امریکہ جیسے سب سے بڑے سفید فام لوگوں کے ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بنے۔ کوئی حیرانی نہیں ہے کہ امریکہ کا بھی اگلا صدر کوئی بھارتی نژاد شخص ہی بن جائے۔ بھارتی نژاد کملا ہیرس پہلے ہی امریکہ کے نائب صدر کے عہدے تک پہنچ چکی ہیں۔ میں نے تقریباً 20سال پہلے امریکی کانگرس کے ہال میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلی دو اڑھائی دہائیوں میں کوئی بھارتی نژاد امریکہ کا صدر بن کر ہی رہے گا۔ یہ امید سوناک کے برطانوی وزیراعظم بننے پر زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ جب سوناک کچھ ہفتے پہلے لزٹرس کے مقابلے میں وزیراعظم کے عہدے کا چناؤ ہار گئے تھے تب ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ حکمران کنزرویٹو پارٹی کے زیادہ تر گورے اراکین نسل پرستی کے تعصب کے زیر اثر ہیں۔ سوناک کو قابل اور بہادر ہوتے ہوئے لزٹرس کے مقابلے صرف اسی لیے ہارنا پڑا کہ وہ خالص انگریز نہیں بلکہ اصل میں بھارتی ہیں۔ وہ عیسائی نہیں بلکہ حقیقت میں ہندو ہیں۔ بورس جانسن کی سرکار بھی ان کے استعفے کے بعد ہی گرنے لگی تھی‘ پھر بھی وہ وزیراعظم نہیں بن سکے لیکن کنزرویٹو پارٹی کے گورے اراکین کی اکثریت نے اس بار رشی سوناک کے حق میں اس قدر کھل کر حمایت کا اظہار کیا کہ انہیں وزیراعظم کا چناؤ لڑنا ہی نہیں پڑا۔ ان کے دونوں حریفوں‘ جن میں سابق وزیراعظم بورس جانسن بھی شامل تھے‘ نے چناؤ سے پہلے ہی اپنی ہار مان لی۔ دوسرے الفاظ میں رشی سوناک بلامقابلہ چنے گئے ممتاز وزیراعظم ہیں۔ ان کا وزیراعظم بننا حریف لیبر پارٹی کے لیے بڑی چنوتی ہے کیونکہ بورس جانسن اور لز ٹرس کو ٹکر دینا ان کے لیے کافی آسان رہتا لیکن رشی سوناک کو ہرانا آسان نہیں تھا۔ اگلے انتخابات دو سال کے اندر ہی ہونے والے ہیں۔ اس دوران رشی سوناک کی پوری کوشش ہوگی کہ جیسے وزیر خزانہ کے طور پر انہوں نے کورونا کے دور میں قابلِ تعریف کام کر کے دکھایا‘ ویسا ہی مظاہرہ اب اس مختصر عرصے میں انہیں کر کے دکھانا ہوگا۔ بورس جانسن اور لزٹرس نے برطانوی معیشت کو لنگڑا کر کے چھوڑ دیا ہے۔ وہاں افراطِ زر کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ کیا مقامی اور کیا غیر مقامی‘ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے سبھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کورونا لاک ڈائون نے بھی برطانوی معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ اب امید ہے کہ رشی سوناک کی معاشی پالیسی برطانیہ کو اندھے غار میں داخل ہونے سے روکے گی اور ان کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے برطانیہ مشکل معاشی حالات سے نکل سکے گا۔ آنے والے وقت میں بھارت اور برطانیہ کے گہرے تعلقات میں بھی بے مثال قربت دیکھی جا سکتی ہے کیونکہ رشی سوناک یقینی طور پر دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔
بھارت‘ چین تعلقات میں بہتری کی امید
نئی دہلی سے چینی سفیر سن وائی ڈونگ کی رخصتی کے وقت بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور چینی سفیر نے جو باتیں کیں‘ ان پر دونوں ملکوں کے سیاستدان اور عوام سنجیدگی سے غور کریں تو اس سے 21 ویں صدی میں اس خطے کی شکل بدل سکتی ہے۔ جے شنکر نے کہا ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان اُن کے سیاسی نظام‘ اقدار اور ترقی کے راستے کا احترام کرتے ہوئے کام کیا جائے تو نہ صرف اس سے دونوں ملکوںکا بھلا ہوگا بلکہ عالمی سیاست بھی اس سے فائدہ اٹھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سرحدی علاقوں میں امن قائم رہے۔ جے شنکر کے جواب میں چینی سفیر سن وائی ڈونگ کا کہنا تھا کہ چین اور بھارت ایک دوسرے کے اہم پڑوسی ہیں۔ پڑوسیوں کے درمیان اختلافات اور اَن بن کوئی اَن ہونی بات نہیں ہے‘ یہ ایک فطری عمل ہے۔ دونوں ملکوں کو مشترکہ بنیاد تلاش کرنی چاہیے اور اپنے تعلقات کو اختلاف رائے سے تعبیر نہیں ہونے دینا چاہیے۔ چین اور بھارت دنیا میں ایک ساتھ آگے بڑھنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو اپنے اختلافات کو دور کرنے اور اُن کا پُر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں تو دونوں کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو اُتار چڑھاؤ آئے ہیں‘ انہیں دور کرنا مشکل نہیں ہے۔ چینی سفیر سن وائی نے اپنی الوداعی تقریر میں بھارت اور چین کے درمیان قائم مواصلاتی ذرائع کا بھرپور استعمال کرنے کی تاکید بھی کی تاکہ غلط فہمیوں سے بچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو آپسی رابطے اور تعاون کو بڑھانا چاہیے۔ چین اور بھارت نے مختلف سطحوں اور شعبوں میں جو ڈائیلاگ میکانزم قائم کیا ہے‘ اُس کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ اُدھر اس گفت و شنید کے بعد بنگلہ دیش میں تعینات چین کے اعلیٰ سفارت کار لی جیمنگ نے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر بھارت کے مداح ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ بھارت اور چین اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ چینی سفیر نے مزید کہا کہ چین کی بھارت کے ساتھ کوئی تزویراتی دشمنی نہیں ہے‘ وہ خلیج بنگال کو بھاری ہتھیاروں سے لیس نہیں دیکھنا چاہتا۔ ان ڈپلومیٹس نے جو کچھ کہا ہے اسے سفارتی بحث کہہ کر قالین کے نیچے سرکا دینا ٹھیک نہیں ہے۔ بھارت اور چین کو ایک دوسرے کا حریف یا دشمن مان کر کچھ طاقتور ممالک فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بھارت ان کے قریب ہونے کے باوجود کافی خبردار ہے۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین کے ساتھ 1962ء میں خوفناک جنگ ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم رہا ہے۔ دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت ایک دوسرے کے یہاں آتی جاتی رہی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم بھی قابلِ ستائش رہا ہے۔ گلوان گھاٹی کی مڈ بھیر کے باوجود اس تجارت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کی عسکری قیادت بھی اچھے طریقے سے بات چیت کر رہی ہے۔ مجھے کئی بار چینی یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے کے لیے چین کا سفر کرنا پڑا ہے۔ میں یہ سن کر دنگ رہ جاتا تھا کہ عام چینی لوگ بھارت کے لیے کیسے پُر خلوص جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر چین میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اگر تھوڑی پہل کریں اور وزیراعظم نریندر مودی انہیں ویسا کرنے دیں تو کوئی حیرانی نہیں کہ بھارت اور چین کے تعلقات نہ صرف نارمل ہو جائیں گے بلکہ دونوں ملکوں میں گہرے دوستانہ تعلقات بھی استوار ہو سکتے ہیں۔