بھارت کی سرکاروں سے میری شکایت اکثر یہی رہتی ہے کہ وہ تعلیم اور میڈیکل کے میدان میں انقلابی کام کیوں نہیں کرتی ہیں؟ ابھی تک آزاد بھارت میں ایک بھی سرکار ایسی نہیں آئی ہے جس نے یہ بنیادی پہل کی ہو۔ کانگرس اور بھاجپا سرکاروں نے چھوٹے موٹے کچھ قدم اس سمت میں ضرور اٹھائے تھے لیکن نریندر مودی کے وزیراعظم بننے سے پہلے میری سوچ یہ تھی کہ اگر وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر پہنچ پائے تو وہ ضرور یہ انقلابی کام کر ڈالیں گے لیکن یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہمارے نیتا نوکر شاہوں کی گرفت سے باہر نکلیں۔ پھر بھی 2018ء سے سرکار نے جو صحت بیمہ سکیم چالو کی ہے اس سے دیش کے کروڑوں غریب لوگوں کو راحت مل رہی ہے۔ یہ سکیم قابلِ تعریف ہے لیکن یہ بنیادی طور پر راحت کی سیاست ہے یعنی ووٹروں کو فوراً فائدہ دو اور بدلے میں ان سے ووٹ لو۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن اس سے صحت کا نظام بنیادی طور پر سدھرے، اس کی کوئی تدبیر آج تک سامنے نہیں آئی ہے۔ پھر بھی اس سکیم سے بھارت کے تقریباً 40‘ 45 کروڑ لوگوں کو فائدہ ملے گا۔ وہ اپنا 5لاکھ روپے تک کا علاج مفت کروا سکیں گے۔ ان کے علاج کا پیسہ سرکار دے گی۔ ابھی تک بھارت میں تقریباً 3کروڑ 60لاکھ لوگ اس سکیم کے تحت اپنا مفت علاج کروا چکے ہیں۔ ان پر سرکار نے اب تک 45ہزار کروڑ روپوں سے زیادہ خرچ کیا ہے۔ بھارت کی کچھ ریاستی سرکاروں نے بھی فوری اور نظر آنے والی راحت کی اس حکمت عملی کو اپنا لیا ہے، لیکن کیا بھارت کے 140کروڑ لوگوں کی صحت، ان کے تحفظ اور علاج کی بھی سکیم کوئی سرکار لائے گی؟ کئی رپورٹوں میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مالی تنائو کی وجہ سے کام کرنے والے افراد کی ذہنی صحت بھی شدید متاثر ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے غیر حاضر رہنے اور عدم توجہی کی وجہ سے ملازم مستقلاً ذہنی صحت کے مسائل سے دو چار ہو جاتے ہیں جس سے بھارتی کارخانہ داروں اور فیکٹری مالکان کو سالانہ 14 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ بھارت کے قومی صحت مشن کی ایک رپورٹ کے مطابق جراحی (سرجری)، خواتین اور بچوں کے امراض جیسے طبی معاملوں کے بنیادی شعبوں میں 50 فیصد ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ دور دراز اور گائوں وغیرہ میں تو یہ شرح 82 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم اس بات پر فخر کرتے رہتے ہیں کہ بھارت دنیا کے اہم ممالک میں سب سے زیادہ ڈاکٹر فراہم کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان خود بھارتیوں کا ہوتا ہے۔ بیرونِ ملک میں ملازم بھارتی ڈاکٹروں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ 2000ء میں یہ تعداد 56 ہزار تھی اور 2010ء میں 55 فیصد بڑھ کر 86 ہزار سے زائد ہو گئی۔ اب یہ لاکھوں بلکہ ملینز میں جا چکی ہے۔ ان میں سے 60 فیصد بھارتی ڈاکٹر صرف امریکہ ہی میں کام کر رہے ہیں۔ ہر سال ہم لاکھوں بھارتیوں کو ڈاکٹر بناتے ہیں جن میں سے بیشتر امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں اور بھارت دیش کے لوگ ڈاکٹروں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بھارت میں جب تک پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم بھارتیہ زبانوں کے ذریعے نہیں ہوتی‘ بھارت کا شمار پسماندہ معاشروں اور ملکوں میں ہی ہوتا رہے گا۔ جب تک میکالے سسٹم کی غلامی کا نظام بھارت میں چلتا رہے گا، بھارت سے ہنرمندوں کی صلاحیتوں کی ہجرت ہوتی رہے گی۔ انگریزی دان بھارتیہ نوجوان بھاگ کر دوسرے ممالک میں نوکریاں ڈھونڈیں گے اور اپنی ساری صلاحیت ان دیشوں پر لٹا دیں گے اور بھارت کانپتا رہ جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے بچے غیرملکی زبانیں نہ پڑھیں۔ ضرور پڑھیں‘ مگر انہیں سہولت ہو کہ وہ انگریزی کے ساتھ کئی دوسری اہم غیرملکی زبانیں بھی ضرور پڑھیں لیکن ان کی پڑھائی کا ذریعہ کوئی غیر ملکی زبان نہ ہو۔ سارے بھارت میں کسی بھی غیر ملکی زبان کو پڑھائی کا ذریعہ بنانے پر سخت پابندی ہونی چاہئے۔ لیکن کون کرے گا یہ کام؟ یہ کام وہی پارلیمنٹ‘ وہی سرکار اور وہی وزیراعظم کر سکتے ہیں جن کے پاس ملک کی ترقی کی بنیادی سوچ ہو اور جو نوکر شاہوں کی نوکری نہ کرتے ہوں۔ جس دن یہ سوچ پیدا ہو گی اسی دن سے دیش کی ترقی کا سفر شروع ہو جائے گا۔
بھارت کی خارجہ پالیسی
بھارت کی خارجہ پالیسی سے متعلق دو حالیہ خبروں نے میری توجہ برجستہ حاصل کی ہے۔ ایک تو روسی صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اس پالیسی کی تعریف کی گئی ہے اور دوسرا، بھارت اور برطانیہ کے وزرائے اعظم کے مابین آزادانہ تجارت کے معاہدے پر بات چیت ہوئی ہے! ان مسائل پر یہ شک بنا ہوا تھا کہ بھارت کی پالیسی سے ان دونوں ملکوں کو کچھ نہ کچھ اعتراض ضرور ہے، لیکن وہ کھل کر بات کرنے سے دریغ کر رہے تھے۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ روس اور برطانیہ‘ دونوں ہی بھارت کی پالیسیوں سے مطمئن ہیں اور ان کے تعلقات بھارت سے گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔ پہلے ہم روس کو لیں۔ بھارت نے یوکرین پر روسی حملے کی کبھی دبی زبان سے حمایت نہیں کی لیکن اس نے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح روس کے خلاف آگ بھی نہیں برسائی۔ اس نے یوکرین سے اپنے ہزاروں شہریوں کو بحفاظت باہر نکالا۔ یوکرین کو ٹنوں اناج امداد کی صورت میں بھیجا اور کچھ تجاویز پر اقوام متحدہ میں اس کی حمایت بھی کی۔ اتنا ہی نہیں‘ بھارتیہ وزیراعظم نریندرمودی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں یہ بھی کہا تھا کہ یہ وقت جنگ کا نہیں ہے، روس‘ یوکرین جنگ فوراً بند ہونی چاہئے۔ اس اجلاس کے بعد ہی صدر پوتن نے ایٹمی جنگ کے خدشے سے دوچار ساری دنیا کو باور کرایا تھا کہ ان کا ارادہ ایٹم بم چلانے کا بالکل نہیں ہے۔ اب انہوں نے ماسکو کے ایک ''تھنک ٹینک‘‘ میں بھاشن دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحران کے دوران بھارت کے ساتھ روس کا زرعی کاروبار دوگنا ہو گیا ہے۔ کھاد کی تجارت 7‘ 8 گنا بڑھ گئی ہے اور آپسی کاروبار 13ارب ڈالر سے بڑھ کر 18ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے بھارت یومیہ 16ملین ڈالر مالیت کا روسی کوئلہ خرید رہا ہے جبکہ جنگ سے پہلے تین ماہ میں خریدے جانے والے کوئلے کی یومیہ مالیت تقریباً ساڑھے سات ملین ڈالر بنتی تھی یعنی اس تجارت میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح یومیہ 110 ملین ڈالر مالیت کا روسی تیل خریدا جا رہا ہے۔ مئی کے آخر تک بھارت یومیہ 31 ملین ڈالر مالیت کا روسی تیل خرید رہا تھا۔ سستے روسی تیل نے بھارت کی ضرورت پوری کردی۔ صدر پوتن نے اس خارجہ پالیسی کو سراہا ہے۔ اسی طرح بھارت نے روس کے ساتھ ''ووستوک 2022ء جنگی مشقوں‘‘ میں بھی حصہ لیاہے جن میں چین بھی شامل تھا۔ اگرچہ امریکہ نے ان مشقوں میں بھارت کی شمولیت پر کافی اعتراضات اٹھائے مگر سبھی اعتراضات مسترد کرتے ہوئے ان مشقوں میں حصہ لیا گیا جن میں روس‘ چین‘ بھارت اور آذربائیجان سمیت 14 ملکوں کے فوجی دستے شریک ہوئے تھے۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب بھارت امریکہ کے ساتھ کئی مورچوں پر تعاون کررہا ہے۔ چین اگرچہ اس حوالے سے کافی تحفظات رکھتا ہے لیکن بھارت کے بارے میں روس کا اندازہ صحیح ہے۔ اسی طرح برطانیہ بھارت فری ٹریڈ سمجھوتے کے مکمل ہونے کے امکانات اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ رشی سوناک نے برطانوی وزیراعظم بنتے ہی اپنے وزیر خارجہ کو سب سے پہلے بھارت بھیجا ہے۔ مودی اور سوناک کی بات چیت سے برطانیہ‘ بھارت آزاد تجارت کا راستہ کافی صاف ہوا ہے۔ لندن میں یہ ڈر بتایا جا رہا تھا کہ مذکورہ سمجھوتا اگر ہو گیا تو برطانیہ میں بھارتیوں کی بھرمار ہو جائے گی اور وہ برطانوی بازاروں پر قبضہ کرلیں گے۔ اس حوالے سے بھی مودی نے سوناک کی تسلی کرائی ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ چاہتا ہے کہ اس کی موٹر سائیکلوں، کیمیکلز اور دیگر کئی چیزوں پر بھارت زیادہ ٹیکس ڈیوٹی نہ لگائے۔ ایسے ہی بھارت اپنی زرعی اجناس، کپڑوں اور چمڑے وغیرہ کے سامان پر برطانیہ میں ڈیوٹی گھٹوانا چاہتا ہے۔ امید ہے کہ کچھ دنوں میں اس حوالے سے مزید پیش رفت ہو گی اور اگر مذکورہ سمجھوتا ہو گیا تو کئی دیگر یورپی ممالک کے دروازے بھی مقامی مصنوعات کے لیے کھل جائیں گے۔