بھارت میں تعلیم کتنی خستہ حالی کا شکار ہے‘ اس کا پتا یونیسکو کی ایک تازہ رپورٹ سے چل رہا ہے۔ 75 سال کی آزادی کے باوجود ایشیا کے چھوٹے‘ موٹے ملکوں کے مقابلے میں بھارت کیوں پسماندہ ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری سرکاروں نے تعلیم اور میڈیکل پر کبھی مکمل طورپر دھیان ہی نہیں دیا۔ اسی لیے ملک کے مٹھی بھر لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں اپنا علاج کرواتے ہیں۔ بھارت کے 100 کروڑ سے بھی زیادہ افراد مناسب تعلیم و تربیت سے محروم رہتے ہیں اور معقول علاج سے بھی یہ محروم رہتے ہیں۔ یونیسکو نے بھارت میں جانچ پڑتال کر کے بتایا ہے کہ ملک کے 73 فیصد ماں باپ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانا پسند نہیںکرتے ہیں کیونکہ وہاں پڑھائی کا معیار گھٹیا ہوتا ہے۔ وہاں سے پڑھے ہوئے بچوں کو اچھی نوکریاں نہیں ملتی ہیں کیونکہ ان کا انگریزی گیان کمزور ہوتا ہے۔ ہماری سرکاروں کے نکمے پن کی وجہ سے آج تک سرکاری نوکریوں میں انگریزی لازمی ہے۔ انگریزی میڈیم سے پڑھے ہوئے بچے بڑے ہو کر یا تو سرکاری نوکریاں ہتھیانے یا پھر امریکہ اور کینیڈا بھاگنے کیلئے بیتاب رہتے ہیں۔ غیر سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیس 50‘ 50 ہزار روپے مہینہ تک ہے۔آج کل ہسپتال اور یہ تعلیمی ادارے بھارت میں ٹھگی کے سب سے منافع بخش ٹھکانے بن گئے ہیں۔ ملک کے غریب، گرامین، پچھڑے اور آدی واسی لوگ مناسب تعلیم اور علاج کے بغیر ہی اپنی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ سرکاری سکول اور ہسپتال بھی ان کی سیوا خوشدلی سے نہیں کرتے۔ بھارت کے 90 فیصد سکول فیس وصولی کے دم پر زندہ رہتے ہیں۔ 29 ہزار 600 سکول ایسے ہیں جنہیں منظوری ہی حاصل نہیں ہے۔ 4000 سے زیادہ دھرم کی تعلیم کے ادارے بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ ان سکولوں سے نکلنے والے سٹوڈنٹس کیا بھارت کی تعمیر و ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اگر ہم تعلیم کے معاملے میں بھارت کا مقابلہ سارک کے پڑوسی ملکوں سے کریں تو مذکورہ پیمانے پر یہ افغانستان کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ وہ افغانستان جو سری لنکا اور بھوٹان سے بھی بہت پچھڑا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک بھارت ہے۔ قدیم ہندوستان کے تعلیمی نظام پوری دنیا میں مشہور رہے ہیں۔ چین، جاپان اور یونان سے صدیوں پہلے لوگ ہندوستان اسی لیے آیا کرتے تھے کہ یہاں کا تعلیمی نظام انہیں سب سے اچھا لگتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ بھارت میں کروڑوں لوگ خطِ افلاس کے نیچے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھارت کے کروڑوں لوگوں کو آج بھی تعلیم اور علاج کی مؤثر سہولتیں میسر نہیں ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی بھارت میں ہے، سب سے زیادہ بیروزگار بھارت میں آباد ہیں۔ ایک طرف بڑی بڑی کوٹھیاں اور بنگلے ہیں اور دوسری طرف جھونپڑپٹیاں۔ آج امریکہ دنیا کی سپر پاور اپنی تعلیم کے دم پر بنا ہے لیکن بھارت میکالے کی غلامی میں ہی گلچھرے اڑا رہا ہے۔ بھارت میں جب تک پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم بھارتیہ زبانوں کے ذریعے نہیں ہوتی‘ بھارت کا شمار پسماندہ ملکوں میں ہی ہوتا رہے گا۔ جب تک میکالے سسٹم کی غلامی کا نظام بھارت میں چلتا رہے گا، بھارت سے ہنرمندوں کی صلاحیتوں کی ہجرت ہوتی رہے گی۔ انگریزی دان بھارتی نوجوان بھاگ کر دوسرے ممالک میں نوکریاں ڈھونڈیں گے اور اپنی ساری صلاحیت اُن دیشوں پر لٹا دیں گے اور بھارت سسکتا رہ جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارتی طلبہ غیرملکی زبانیں نہ پڑھیں۔ ضرور پڑھیں‘ مگر انہیں سہولت ہو کہ وہ انگریزی کے ساتھ دوسری اہم غیرملکی زبانیں بھی پڑھیں لیکن ان کی تعلیم کسی غیر ملکی زبان میں نہ ہو۔بھارت بھر میں کسی بھی غیر ملکی زبان کو پڑھائی کا ذریعہ بنانے پر سخت پابندی ہونی چاہئے۔ معلوم نہیں آزادی کے 100 سال بعد بھی اس سڑے ہوئے تعلیمی نظام کو بدلنے والی کوئی قیادت بھارت میں پیدا ہوگی یا نہیں۔
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیویارک ٹائمز نے اپنے مین پیج پر ایک خبر چھاپی ہے کہ امریکہ میں کئی آدمی اب عورتوں کا بھیس دھارن کرنے لگے ہیں اور عورتیں تو پہلے سے ہی وہاں آدمیوں کا سا لباس پہنتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کپڑوں میں بھی عورت‘ مرد کا بھید کیا کرنا؟ وہ زمانہ لد گیا جب عورتوں کے لیے خاص طرح کا لباس، زیور اور جوتے چپل وغیرہ پہننا لازمی ہوا کرتا تھا۔ انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ عورتوں کے لیے گھر سے باہر حتیٰ کہ گھر میں بھی گھونگھٹ نکالنا ضروری مانا جاتا تھا۔ ہمارے سنسکرت ناٹکوں کو دیکھیں تو کالی داس اور بھوبھوتی جیسے عظیم مصنفوں کو مردوں کی طرح آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں تھا، وید پاٹھ کرنا تو ان کے لیے ناممکن ہی تھا۔ آریہ سماج کے دور میں مہارشی دیانند سرسوتی کی وجہ سے قدیم ہندوستان میں عورتوں کو ان بندھنوں سے آزادی ملی لیکن یورپی تاریخ کی تقریباً ایک ہزار سال کی مدت کو وہاں سیاہ دور (ڈارک ایج)کہا جاتا ہے۔ اس دور میں پوپ کلچر کی وجہ سے عورتوں پر مظالم کی حد ہو رکھی تھی لیکن اب اسی یورپ اور امریکہ میں جدیدیت کی ایسی لہر چلی ہے کہ آدمی لوگ عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال رکھنے لگے ہیں۔ سکرٹ وغیرہ پہننے لگے ہیں اور ان کے روایتی زیور بھی اپنے جسم پر سجانے لگے ہیں۔ اسے وہ جینڈر کی نفی قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت میں عورت‘ عورت ہوتی ہے اور مرد‘ مرد۔ ہمارے یہاں تو زبان و بیان اور شادی بیاہ میں بھی اس بھید کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسے صرف لباس‘ بھیس بدلنے سے نہیں مٹایا جا سکتا ہے۔ کئی ممالک میں ان کے مرد بھی اپنا لباس عورتوں جیسا ہی صدیوں سے پہنتے آ رہے ہیں۔ لباس کا بنیادی کام ستر پوشی ہے مگر یہ فیصلہ کون کرتا ہے کون سا لباس خواتین کے لیے اور کون سا مردوں کے لیے؟ یہ تو ہم نے تفریق کر رکھی ہے کہ ساڑھی عورتیں پہنیں گی اور لنگی مرد لیکن جینز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ مردوں کا لباس ہے یا عورتوں کا؟ کئی معاشرے ایسے ہیں جہاں مردوں کا لباس بھی کھلا ڈلا ہوتا ہے جیسے سکرٹ وغیرہ ۔ جب پہلی بار بھارتیہ صدر کے ساتھ میں بھوٹان گیا تو وہاں تقریباً 30 سال پہلے میری ملاقات وہاں کے شاہی خاندان کے افراد سے ہوئی تو میں انہیں سکرٹ جیسا لباس پہنے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔میرے لیے یہ کافی عجیب و غریب بات تھی مگر یہ وہاں کا کلچر تھا۔ اسی طرح پچاس سال پہلے جب میں لندن میں پڑھتا تھا تو مجھے سکاٹ لینڈ کے سٹوڈنٹس کو دیکھ کر کافی عجیب محسوس ہوا کرتا تھا، کیونکہ ان میں سے کچھ لڑکے ایسے تھے جو اپنا روایتی سکرٹ پہنے رہتے تھے۔ دنیا کے درجنوں ملک ہیں، جن میں مردوں کا لباس کچھ منفرد ہوتا ہے۔ اسی لیے اگر اب امریکہ کی کچھ نامی گرامی کمپنیاں ایسے لباس بنانے لگی ہیں، جو اب تک عورتوں کے لباس مانے جاتے تھے۔ اب اگر انہیں مرد بھی پہننے لگے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ یہ نر اور ناری کی برابری کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ اسے ہم اوپری یا باہری بدلائو کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔