بھاجپا کی حکومت والی ریاستی سرکاریں یکے بعد دیگرے اعلان کر رہی ہیں کہ وہ یونیفارم سول کوڈ اپنے اپنے راجیوں میں نافذ کرنے والی ہیں۔ یہ اعلان اتراکھنڈ، ہماچل اور گجرات کی سرکاروں نے کیا ہے۔ دیگر راجیوں کی بھاجپا سرکاریں بھی ایسے اعلانات کر سکتی ہیں لیکن وہاں ابھی چناؤ نہیں ہو رہے ہیں۔ جہاں جہاں چناؤ ہوتے ہیں‘ وہاں وہاں اس طرح کے اعلانات کر دیے جاتے ہیں۔ کیوں کر دیے جاتے؟ کیونکہ ہندوؤں کے تھوک ووٹ بٹورنے میں آسانی ہو جاتی ہے اور مسلمانوں کو بھی کہا جاتا ہے کہ تمہیں فرسودہ قوانین سے ہم نجات دلائیں گے۔ یہ بات سننے میں بہت اچھی لگتی ہے اور اتنی دلکش بھی لگتی ہے کہ کوئی پارٹی یا نیتا اس کی مخالفت نہیں کر پاتا۔ ہاں‘ کچھ طبقات اس کی مخالفت ضرور کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے مذہبی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔ یوں آئینی طور پر سب کے لیے یکساں قانون کے تصور کو بھی بھرپور حمایت ملتی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آزادی کو 75سال گزر چکے ہیں اور بھارت میں ہر طرح کی سرکاریں بن چکی ہیں، پھر بھی کسی سرکار کی آج تک ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے ذاتی اور خاندانی معاملات میں ایک طرح کا قانون بنا سکے؟ بھارتیہ آئین کے آرٹیکل 44میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی کوشش ہوگی کہ سارے ملک کے شہریوں کے لیے یکساں قانون بنے۔ اس کے باوجود سب کے لیے ایک جیسا قانون اس لیے نہیں بن پایا کہ بھارت مختلف مذاہب، فرقوں، ذاتوں، قبیلوں اور روایات کا ملک ہے۔ سبھی ہندو، سبھی مسلمان، سبھی سکھ، سارے آدی واسی اور سارے عیسائی شادی بیاہ اور ذاتی جائیداد کے معاملوں میں اپنی اپنی‘ الگ الگ روایات کو مانتے ہیں۔ جب ایک طبقے میں ہی اتحاد نہیں ہے تو تمام طبقوں کے لیے ایک جیسا قانون کیسے بن سکتا ہے۔ جیسے آندھرا کے ہندوؤں میں ماما اور بھانجی کے بیچ شادی ہو جاتی ہے مگر مسلمانوں کے شرعی قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ پنجاب کا اپنا قانون ہے، گجرات میں الگ قانون ہے۔ گوا کا اپنا قانون ہے۔ وہ سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ ہر سرکار مشکل میں پڑی رہتی ہے کہ یکساں سول کوڈ نافذ کرے یا نہ کرے۔ بھاجپا کے لیے تو یہ بڑا دردِ سر ہے کیونکہ یہ اس کا بنیادی انتخابی مدعا رہا ہے۔ بھاجپا سرکار نے 2016ء میں لاء کمیشن سے بھی اس مدعے پر رائے مانگی تھی لیکن اس کی رائے بھی یہی تھی کہ بالکل ایک جیسا قانون سب پر نہیں تھوپا جا سکتا۔ ڈریس کوڈ کو لے کر تو قانون پر عمل کیا جا سکتا ہے مگر کسی کو بھی اپنی پہچان چھپانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر صرف مذہبی بنیاد پر حجاب کو لے کر ڈریس کوڈ کی پابندی کرائی جائے تو کیا ہندو عورتوں کے ٹیکے، سندور، چوڑیوں، سکھوں کے کیس اور صافے اور عیسائیوں کے کراس پر بھی پابندی لگائی جائے گی؟ مجھے تو حیرانی یہ ہے کہ اصلی مدعوں پر بحث کرنے کے بجائے نقلی مدعوں پر بحث چلائی جا رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹورنے کی خاطر بھارت میں مذہب واد کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور ایسے مدعے چھیڑے جا رہے ہیں جن سے سب سے زیادہ بھارت کا نقصان ہو گا۔
اسرائیل میں نیتن یاہو کا پھر سے عروج
حالیہ عرصے میں اسرائیل میں جتنی پھرتی سے سرکاریں بنتی اور بگڑتی رہی ہیں‘ دنیا کے کسی دوسرے جمہوری دیس میں ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملے۔ بینجمن نیتن یاہو تقریباً ڈیڑھ سال بعد پھر دوبارہ اسرائیل کے وزیراعظم بننے کے قریب آ گئے ہیں۔ نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی نے دو سالوں میں ہونے والے ملک کے چوتھے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں۔ ان کی پارٹی نے 32 نشستیں حاصل کیں،جبکہ اتحادیوں کو ملا کر انتہائی دائیں بازو کے 'مذہبی صہیونیت اتحاد‘کو 64 نشستیں مل گئی ہیں جبکہ سبکدوش ہونے والا یائر لاپڈ بلاک 51 نشستیں حاصل کر سکا ہے۔ نیتن یاہو کا یہ پھر سے عروج متعدد لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ وہ اسرائیل کے ایسے پہلے وزیراعظم ہیں جو وہیں پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے جو بھی اسرائیل کے وزیراعظم بنے ہیں وہ کہیں باہر کے ملکوں سے آئے ہوئے تھے۔ جب 1948ء میں اسرائیل قائم ہوا تھا تب جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ سمیت دیگر ملکوں کے گورے یہودی لوگ وہاں جاکر بس گئے تھے۔ انہی افراد میں سے ایک کا بیٹا‘ جو 1949ء میں پیدا ہوا تھا‘ اب اسرائیل کا ایسا وزیراعظم ہے جس سے زیادہ لمبے عرصے تک کوئی بھی اسرائیل میں وزیراعظم نہیں رہا۔ 47 سال کی عمر میں اسرائیل کا وزیراعظم بننے والے وہ سب سے کم عمر شخص تھے۔ وہ کئی بار ہارے اور جیتے۔ انہیں ایک کٹر رہنما مانا جاتا ہے۔ وہ اسرائیلی فوج کے سپاہی ہونے کے ناتے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل نے ڈنڈے کے زور پر شام کی گولان کی پہاڑیوں، اردن کے مغربی کنارے، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس جارحانہ ثقافت سے نکل کر نیتن یاہو جب اسرائیلی سیاست میں داخل ہوئے تو عرب مخالفوں کے ترجمان بن گئے۔ اعتدال پسند اسرائیلی وزیراعظم اضحاک رابن (Yitzhak Rabin) کے قتل کے بعد 1996ء میں ہوئے چنائو میں اسرائیلی عوام کے غم و غصے نے نیتن یاہو کو پردھان منتری کی کرسی پر بٹھا دیا۔ نیتن یاہو اُس اوسلو معاہدے کے مخالف تھے جو اسرائیل اور فلسطین کے دو قومی حل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ دو ریاستوں کا یہ حل دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا اور نیتن یاہو نے اس سمجھوتے کی دھجیاں بکھیر دیں۔انہوں نے اسرائیل کی طرف سے قبضہ کیے گئے علاقوں کو خالی کرنے سے منع کر دیا اور عربوں کو اسرائیل سے نکال باہر کرنے کی مہم چلائی۔ اس کے علاوہ انہوں نے فلسطینیوں سے سمجھوتے کے سارے راستے بھی بند کر دیے۔ اپنے پچھلے دورِ حکومت میں نیتن یاہو پر کرپشن کے بھی کئی کیسز قائم ہوئے۔ ان پر فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا۔ بیش قیمت تحائف کے بدلے ایک دولت مند دوست پر مہربانیاں کرنے کا الزام لگا۔ انہوں نے اپنی مثبت کوریج کے بدلے ایک بڑے اخبار کے پبلشر کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ اس کے مطلب کی قانون سازی کی جا سکے۔ نیتن یاہو نے ایسے ریگولیٹری فیصلوں کو فروغ دیا جن سے ایک مخصوص ٹیلی کام کمپنی کو رعایتیں حاصل ہوئیں جبکہ اس کے بدلے میں انہیں کمپنی کی ایک ویب سائٹ سے مثبت نیوز کوریج حاصل ہوئی اور یہ سب کمپنی کا کنٹرول رکھنے والے شیئرہولڈر کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہوا۔ یہ مقدمات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اپنے دور میں نیتن یاہو نے امریکہ سے نزدیکی بڑھائی اور ایران کے خلاف بین الاقوامی مہم چھیڑ دی۔ انہوں نے اوباما دور میں ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی سمجھوتے کی سخت مخالفت کی اور ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی بھی دی۔ ان کی ایران مخالفت کی وجہ سے ایران مخالف ملکوں میں ان کی مقبولیت بڑھی اور وہ اسرائیل کے نزدیک آنے لگے۔ اب اسرائیل کے مصر، اردن، یو اے ای ، بحرین، مراکو اور سوڈان جیسے ممالک سے ٹھیک ٹھاک تعلقات بن گئے ہیں۔ بھارت اور روس کے ساتھ بھی اسرائیل کے تعلقات پہلے سے بہتر بنانے میں نیتن یاہو کا خاص کردار ہے۔ انہی کی کوششوں کے نتیجے کے طور پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل گئے تھے اور وہ خود دوبار بھارت آ چکے ہیں۔ نیتن یاہو کے دوبارہ پاور میں آنے کے بعد اسرائیل کے ایک سابق وزیر نے کہا ہے کہ اسرائیل کی نئی آنے والی نیتن یاہو سرکار اب ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کردے گی۔اس سے دنیا کے امن کو نئے خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ اگرچہ بھارت کے ساتھ اسرائیل کے سٹرٹیجک، تجارتی اور ڈپلومیٹک تعلقات زیادہ گہرے ہونے کا امکان ہے لیکن فلسطین کا معاملہ اب زیادہ الجھ سکتا ہے کیونکہ نیتن یاہو کی سرکار میں یہودی انتہا پسندی کے ترجمان بھی شامل ہیں۔